اعجاز نازکی
22مئی 2022کو جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کے اہتمام سے ایک کشمیر کانفرنس کا اہتمام ہوا۔جس کے مہمان خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق تھے۔کانفرنس کی صدارت قائم مقام امیر جماعت آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان شیخ عقیل الرحمان ایڈوکیٹ نے کی۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کے خطاب سے قبل شرکاء نے جہادی ترانوں سے کانفرنس کے شرکاء کا جذبہ دوبالا کردیا۔آنسوؤں اور آہوں کی رودادسن۔۔۔ رب کونین ہماری بھی فریاد سن۔نثارحسن نے ترانہ پڑھا تو آنسوؤں کو ضبط کرنا مشکل ہوگیا۔مسعود سرفراز اور سید سلیم گردیزی دو ہی تحریک مدافعت کشمیر کے راہبر تھے جنہوں نے جماعت اور جمعیت کوقوم کشمیر کی شیرازہ بندی کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی آزاد کشمیر کی حکومت سے مایوس ہوچکے تھے اور انہیں یہ احساس بری طرح مجروح کررہا تھا کہ پاکستانی اقتدار اعلیٰ برطانوی اور امریکی اجارہ داری میں ہوتو آزاد انہ استصواب رائے خیال خام ہے۔جہاد ہی کے ذریعے دونوں ممالک استصواب رائے دینے پر مجبور ہوجائنگے۔

ان دونوں دوستوں سلیم گردیزی اور مسعود سرفراز نے مقبوضہ ریاست کیآزادی پسند رہنماوں سے صلاح مشورے کے بعد امیر جماعت قاضی حسین احمدؒ کو جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا۔ روز اول سے انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو حق رائے کا موقع دیاجائے کہ وہ ہندوسامراج کے ظلم و ستم سے آزاد ہو۔امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق یہی فرمان جاری کرکے ریاست جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کی قربانیوں بارے چوتھی نسل سے مخاطب تھے کہ سیاسی،سفارتی اور اخلاقی مدد سے پاکستانی قوم کب دستبردار ہوئی،قربانیاں سب کی لیکن کوئی اللہ کی خاطر اور کوئی ذاتی حصول کی خاطر افتراق واضح ہے۔جماعت ایک لمحہ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی۔برہان الدین حجازی ؒ سے برہان مظفرؒشہید،فردوس کرمانیؒ سے غاز ی نصیب الدین ؒ، امام گیلانی ؒ،محمد اشرف صحرائی ؒ اور جنید صحرائیؒ کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اللہ کے ہاں معیار مختلف ہے اس جہاں میں کچھ اور مطلوب ہوتا ہے۔اب حق او رسچ پر یقین رکھنے والوں کو کسی کی سند نہیں چاہیے ہوتی۔اللہ کرے ہمارا سب کچھ اس ذات کے لئے ہو جسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔

قائم مقام امیر جماعت اسلامی اے جے کے شیخ عقیل الرحمان اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی قیادت کا مختلف اور منفرد انداز اظہار تھا۔قربان جائیں جماعت کے رفقاء،قائدین،مجاہدین پر ان کے دم سے تو تحریک اسلامی میں اصل روح ہے انہوں نے کب کسی سے صلہ مانگا کب کسی سے کچھ کہا۔انہیں سنہری تاریخ رقم کرنے والوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔جماعت روحانی قوت فراہم کرنے والا وہ قافلہ ہے جنہیں ایندھن للہیت سے فراہم ہوتاہے۔ایک لاکھ ر شہداء کی وارث جماعت نے بس یہی بات دہرائی ماضی حال مستقبل تحریک کا تابناک ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہوا ہے۔
1987ء میں اسلام پسندوں نے یہ فیصلہ لیا تھاکہ مسلح تحریک کے بغیر کوئی راستہ اب نہیں رہتا۔مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم پر دوسری آزادی پسند سیاسی اکا ئیاں ہندوستان سے آزادی کے لئے متفقہ حلف برداری کے بعد سیدعلی شاہ گیلانی ؒ اور محمد اشرف صحرائی ؒکی قیادت میں دس لاکھ لوگوں کی موجودگی میں سری نگر کے لال چوک میں جمع ہوکر وعدہ کیا کہ حصول حق خود اردیت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائیگا۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق مظفرآباد میں جتماع سے یہی کہانی دہرارہے تھے۔ سب کی آنکھیں تم تھیں اور سب کو یقین تھا اور یہ یقین امیر محترم کے خطاب سے مزید مستحکم ہوتا جارہا تھا کہ کہ ا للہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ مایوس کافر ہوتا ہے مسلمان نہیں یہی حقیقت ہے اور ان شا ء اللہ کشمیری عوام کی جدوجہد ضرور رنگ لائیگی۔
٭٭٭