امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت۔آخر کیوں؟

متین فکری

عمران خان اپنی حکومت کے خلاف جس امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں وہ ایک کھلا راز ہے۔ امریکی اس بات کو نہیں چھپاتے کہ پاکستان کو نظرانداز کرنا یا اسے آزاد چھوڑ دینا ان کے اسٹرٹیجک مفاد میں نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے بغیر اس خطے میں اپنی بالادستی قائم نہیں کرسکتے اور نہ ہی مسلمان ملکوں پر اپنی گرفت مضبوط کرسکتے ہیں۔ پاکستان مضبوط و مستحکم اور خود مختار ہوگا تو وہ دوسرے مسلمان ملکوں کو بھی شہ دے گا اور انہیں امریکا سے بغاوت پر آمادہ کرے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو کس کر رکھا جائے، اِسے آئی ایم ایف کے ذریعے معاشی طور پر مفلوج بنادیا جائے، اس پر ایف اے ٹی ایف کی گرفت برقرار رکھی جائے اور اندرون ملک سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے اسے مسلسل سیاسی بحران میں مبتلا رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ پاکستانی سیاستدانوں پر سرمایہ کاری بھی کرتا ہے اور انہیں لڑاکر اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔

امریکیوں نے لکھا ہے کہ پاکستان میں امریکا کی غیر معمولی توجہ کا بنیادی سبب اس کا ایٹمی پروگرام ہے جو امریکا کی تمام تر کوششوں کے باوجود روکا نہیں جاسکا۔ جس پاکستانی لیڈر نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا امریکا نے اسے دباؤ میں لانے کی پوری کوشش کی، یہاں تک کہ اسے ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں نشانِ عبرت بنانے کی وارننگ بھی دی لیکن وہ شخص بھی اپنی ہٹ کا پکا تھا اس نے نشان عبرت بننا قبول کرلیا لیکن ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہ ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ جس جرنیل کے ذریعے اسے نشان عبرت بنایا گیا، وہی ایٹمی پروگرام کا سب سے بڑا معاون و محافظ ثابت ہوا اور اس کے دور حکومت میں ایٹمی پروگرام کولڈٹسٹ کے ذریعے اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں جاپہنچا۔ امریکا نے رکاوٹیں تو بہت کھڑی کیں، پابندیاں بھی بہت لگائیں لیکن وہ ایٹمی پروگرام کا بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں زیادہ طاقتور ایٹمی دھماکے کرکے خود کو ایٹمی طاقت تسلیم کروالیا۔ لیکن امریکا اب بھی اس کوشش میں ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے اور اپنی ایٹمی صلاحیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردے۔ امریکی کانگریس نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس بنا رکھی ہے جو اپنے ٹارگٹ پر کام کررہی ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مسلسل ترقی پزیر ہے، وہ آگے بڑھ رہا ہے ایسے میں ہم پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہم پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنی بقا کے لیے ایٹمی پروگرام کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجائے۔

امریکیوں کے نزدیک پاکستان میں ان کی غیر معمولی توجہ اور دلچسپی کا ایک اور اہم سبب اس کی باصلاحیت اور طاقتور فوج ہے جو امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات کو پورا کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئی ہے۔ امریکی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں سابق سوویت یونین کی یلغار کو ذلت و رسوائی کے ساتھ پسپا کرنے کا کارنامہ پاکستانی فوج نے انجام دیا ہے، البتہ جب خود امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاک فوج کے تمام تر تعاون کے باوجود وہ فتح سے ہمکنار نہ ہوسکا اور بیس سال تک افغانستان میں جھک مارنے کے بعد ناکام و نامراد واپس جانا پڑا۔ امریکا اپنی شکست کا ذمے دار بھی پاک فوج کو قرار دیتا ہے۔ امریکی برملا کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان میں امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتی رہی۔ وہ بظاہر امریکا کو سپورٹ کرتی تھی لیکن درپردہ وہ افغان مجاہدین کے ساتھ ملی ہوئی تھی جنہوں نے امریکا کو خاک چٹادی، لیکن اس الزام تراشی کے باوجود امریکا پاک فوج کے ساتھ عدم تعاون پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ فوجی قیادت کے ساتھ کسی وقفے کے بغیر رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ امریکا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاک فوج سے عدم تعاون پاکستان اور پورے خطے میں اس کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ماضی میں اس تلخ تجربے سے گزر چکا ہے جب اس نے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان سے فوجی تعاون روکا تھا اور پاکستانی فوجی افسروں کے تربیتی پروگراموں پر پابندی لگادی تھی، بعد میں امریکی ماہرین نے تسلیم کیا کہ اس پابندی سے خود امریکا کو نقصان ہوا ہے اور پاکستانی فوج میں اس کا اثر رسوخ کم ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے قیام پاکستان کے بعد ہی سے پاکستانی فوج کو اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس میں مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔ اس نے حکومت پر قبضہ کرنے میں جرنیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ان سے اپنے مطلب کا کام لیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں کوئی آرمی چیف بھی امریکا کی مرضی کے بغیر مقرر نہیں ہوسکتا۔ امریکا نہیں چاہتا کہ کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کے لیے تقویت کا باعث بنے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج صلاحیت رکھنے کے باوجود کشمیرکی آزادی کے لیے کچھ نہیں کرسکی۔

پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار رکھنا بھی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں میں سے کوئی بھی امریکا کا فیورٹ نہیں ہے سب اس کے لیے قربانی کے بکرے ہیں۔ وہ جب ضرورت محسوس کرتا ہے کسی بکرے کو قربان کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور ابھی اس سلسلے کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔