پنڈتوں کی کہانی۔۔۔پنڈتوں کی زبانی

شیخ محمد امین

کشمیری مسلم اور اور غیر مسلم برادری دکھ سکھ میں ہمیشہ ایک دوسرے کی شریک رہا کرتی تھی اور کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے۔اگر چہ آر ایس ایس، شیو سینااور بجرنگ دل سے وابسطہ کشمیری پنڈت بھی وادی میں موجود تھے لیکن اکثریت اعتدال پسند اور انسان دوست ہی تصور کی جاتی تھی۔

یہ بھی ایک عیا ں حقیقت ہے کہ سوپور حلقہ انتخاب میں پنڈت برادری کی اکثریت امام سید علی گیلانیؒ کے جلسوں میں شریک ہوا کرتی تھی اور انہیں ووٹ بھی دیا کرتی تھی۔سوپور کے ایک معزز استاد برج کرشن لدو(Brij Krishan Lidu)جو کالج میں میرے استاد رہے ہیں باقاعدہ گیلانیؒ صاحب کے حق میں مہم چلاتے رہے۔میں نے ان سے ایک بار پوچھا کہ گیلانی ؒصاحب میں وہ کونسی صفت ہے جس کی بنیاد پر آپ نہ صرف انہیں ووٹ بلکہ سپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں۔۔ برج کرشن جی کا کہنا تھا کہ گیلانی صاحب انسان دوست ہیں اور انسان دوستی کے پیغام کو عام بھی کر رہے ہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ سنایا۔اور کہا کہ”(غالباََ) 1980میں گیلانی صاحب جیل میں تھے اور اسی دوران میرے والد فوت ہوئے۔گیلانی صاحب سات ماہ بعد رہاہوئے تو رہائی کے فوراََ بعد وہ پہلے میرے گھر تعزیت کرنے تشریف لائے اور پھراپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے “۔۔برج کرشن لدو کا کہنا تھا کہ کیا کوئی اس طرح کی انسان دوستی کی مثال دے سکتا ہے۔

کشمیری پنڈت چونکہ اقلیت میں تھے اس وجہ سے ان کی توجہ تعلیم حاصل کرنے پر زیادہ رہی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ کافی ذہین بھی ہیں۔اکثر کشمیری پنڈ ت خوشگوار اور اطمینان بخش زندگی گذارتے تھے۔کوئی ایسی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی کشمیری پنڈت کو 1990تک کہیں بھیک مانگتے دیکھا گیا ہو۔ پنڈت میاں بیوی کی لڑائی کبھی عدالت کا موضوع نہیں بنی۔پنڈت خواتین کے متعلق یہ مثل مشہور تھی کہ وہ اپنے شوہر کی ہر ادا پرقربان ہونے کا جذبہ رکھتی ہیں اور پنڈت شوہر کے متعلق بھی یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنی بیوی کو گھر کی ملکہ سمجھتا تھا اور اسی انداز میں اس کی عزت کیا کرتا تھا۔بزرگ کشمیری پنڈت گھرانے کے سربراہ کی حیثیت سے معزز تصور کئے جاتے تھے۔۔پورے سماج میں ان کی عزت کی جاتی تھی چونکہ کشمیر کی آب و ہوا اور موسم معتدل ہے اس وجہ سے خوشحال ہندو گھرانوں کے لوگ شکل و صورت کے لحاظ سے بھی خوبصورت تھے۔پنڈت خواتین کی خوبصورتی کا تذ کرہ اکثر و بیشتر مجالس میں ہوا کرتا تھا۔آج اسی خوبصورت اور خوشحال قوم کے تر دماغ لوگ جموں کے تپتے اور راجستھان کے گرم ریگستانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔آج میرے ان ہم وطنوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے،ذرا یہ بھی ملاحظ فرمائیں

گلوبل ہیومن رائیٹس ڈیفنس(GHRD)اپنی رپورٹ میں اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کررہا ہے کہ کشمیری پنڈت سخت تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔اس تکلیف دہ صورتحال سے اکثر کشمیری پنڈت جسمانی طور پر معذور ہوچکے ہیں GHRDکے کاڈنیٹر اور پنن کشمیر تنظیم کے سربراہ اشونی کانگرو نے اس صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری پنڈت جموں کے گرم ترین علاقوں میں ٹینٹوں کے اندر زندگی گذار رہے ہیں۔پردے کا اہتمام نہیں ہے۔خواتین،مرد،بچے،بوڑھے ایک ہی کمرے میں سونے اور کھانے پینے پر مجبور ہیں۔بیماریوں نے انہیں ہر طرف گھیرا ہے۔۔خاندانی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔بعض کیمپوں سے فرار ہوکر ہندوستان کے کئی علاقوں میں روزگارڈھونڈنے جاتے ہیں اور پھر وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔یہ تاثر پختہ تر ہوتا جارہا ہے کہ زبان، تہذیب اور روایات ختم ہوتی جارہی ہیں اور اگلے چند برسوں میں لگتا ہے کہ کشمیری پنڈت نام کی کوئی شے عملاََ باقی نہیں رہے گی۔

ایک ماہر فزیشن ڈاکٹر کے ایل چودھری کا کہنا ہے کہ اپنے وطن سے دور ان لوگوں کی زندگی بالکل ایک عذاب بن چکی ہے۔خطرناک جسمانی و روحانی بیماریوں نے ان لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ڈاکٹر چودھری کا کہنا ہے کہ جنسی جذبات مردوٰ اور عورتوں میں کم ہوتے جارہے ہیں اور جنسی اعتبار سے یہ لوگ انتہائی کمزور ہو چکے ہیں۔بچے بہت کم پیدا ہورہے ہیں اور شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے۔۔بے خوابی کا مرض عام ہے۔نشہ آور ادویات اور شراب نوشی کا استعمال عام ہے۔

کشمیری ہندو تنظیم پنن کشمیر کی ایک سروے (1990-95)کے مطابق تین سو پنڈت خاندانوں کے کل افراد خانہ کی تعداد 1265 تھی جس میں 49 فوت ہوئے اورصرف 16ولادتیں ہوئیں۔معروف انڈین اخبار “ہندوستان ٹائمز “کی 5جولائی 1995کی ایک رپورٹ کے مطابق 350 کشمیری پنڈت خاندانوں میں پانچ سالوں کے دوران 200افراد فوت ہوئے اور صرف 5نوزائید بچوں نے جنم لیا تھا۔ شرح اموات جب شرح پیدائش سے اس قدر تجاوز کررہی ہو تو کیا یہ کہنا بے جا ہوگا کہ یہ کمیونٹی اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہے۔اس ناپید ہونے کے عمل کے اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ان وجوہات کو” رجنی ڈنگر اور وشالی ارورا”ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں “آبادی کی شرح میں کمی کی جو دیگر وجوہات ہیں،ان میں خواتین کا اسقاط حمل،نظام تولید کی خرابی،بانجھ پن،غزائی کمی،سن سٹروک اور سانپ کا کاٹنا بھی شامل ہے۔” میرے یہ ہم وطن جیتے جی موت کی وادیوں میں بے جان لاشوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر کے ایل چودھری اپنی ایک رپورٹ میں اس طرح کی صورتحال بیان کرتے ہیں۔”ایک پوری کی پوری آبادی ہی قبل از وقت بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے۔ان گنت بیماریوں نے ان افراد پر قابو پایا ہوا ہے۔بہت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔اور بہت سے قبر میں پاوں لٹکائے بیٹھے ہیں۔بہت سی عام اور پیچیدہ بیماریوں کی علامات مختلف ذ ہنی اور جسمانی بیماریوں کا موجب بن رہی ہیں “کشمیر میں رہتے ہوئے کشمیری پنڈتوں کی سوسائٹی میں طلاق کا تصور ہی نہیں تھا لیکن اب طلاق عام بات ہو گئی ہے 1995میں جموں شہر کے مہاجر کیمپوں میں 30 طلاقیں ہوئی،2001 میں یہ تعداد 399 تک پہنچی او ر یہ ا ب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔طلاق اب اس شہر میں جرم نہیں رہا ہے۔(جاری)

٭٭٭