یاسین ملک۔۔۔ہم لوگ اقراری مجرم ہیں

متین فکری

قد آور کشمیری لیڈر اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما جناب یاسین ملک نے جب عمر قید اور جرمانے کی سزا سنانے والی بھارتی عدالت کے جج سے یہ کہا کہ مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا اور نہ عدالت سے رحم کی اپیل کرنی ہے، کیوں کہ میرے لیے یہ ساری باتیں بے معنی ہیں۔ تو ہمیں بے اختیار نعیم صدیقی یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا۔

ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری ہم مجرم ہیں
حق گوئی بھی ہے جرم کوئی
تو پھر ہم بھاری مجرم ہیں
پھر ہم کو جوابِ دعویٰ میں
کچھ کہنا بھی منظور نہیں
تعزیر کو ہم خود حاضر ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں

یاسین ملک کو ”ٹیرر فنانسنگ“ کیس میں قید و جرمانے کی سزا دی گئی لیکن ان کا اصل اور سنگین جرم یہ ہے کہ ’بھارت کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں وہ بھارت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور وہ برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں لیکن بھارت کے بزدل حکمران انہیں ان کے اصل جرم میں سزا دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ”جرم“ ہر محکوم و مظلوم کا وہ حق ہے جسے اقوام عالم نے عالمی سطح پر تسلیم کررکھا ہے‘۔ یاسین ملک اس جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں، مقبوضہ کشمیر کا ہر شہری اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ پوری کشمیری قوم کو گرفتار کرکے جیلوں میں نہیں رکھ سکتا اس لیے اس نے پورے مقبوضہ علاقے ہی کو جیل بنادیا ہے اور کشمیریوں کو عمر قید کی سزا دے کر اس میں محبوس کررکھا ہے۔ یاسین ملک کی سزا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ انہیں بڑی جیل سے نکال کر چھوٹی جیل میں رکھا گیا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔

اٹھاون سالہ یاسین ملک کے لیے قید و بند کی صعوبت کوئی نئی آزمائش نہیں، وہ زمانہ طالب علمی ہی سے اس راہ کے شناور ہیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ”جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ“ (جے کے ایل ایف) میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ تنظیم آزاد و خودمختار کشمیر کی حامی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ بھارت کے خلاف عسکری جدوجہد پر بھی یقین رکھتی ہے۔ جے کے ایل ایف کے بانی مقبول بٹ کو بھارت نے اسی جرم میں گرفتار کرکے شہید کیا تھا۔ یاسین ملک بھی ایک طویل عرصے تک اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عسکری جدوجہد سے وابستہ رہے۔ تاہم کچھ عرصہ بعد انہوں نے عسکریت پسندی سے کنارہ کشی کی اور حریت کانفرنس کی ایک اکائی بننے کا فیصلہ کیا۔ یاسین ملک نے حریت کانفرنس کی اکائی بننے کے بعد بھارت کے ساتھ مکالمے کو ترجیح دی اور بھارتی لابی کے ساتھ ملاقاتوں میں واضح کیا کہ بھارت کے لیے آبرومندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ اہل کشمیر کا اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کرے اور مقبوضہ علاقے میں اپنے مظالم سے باز آجائے ورنہ یہ خطہ بدامنی کی آگ میں سلگتا رہے گا اور بھارت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

کشمیری خاندان مقبوضہ و آزاد کشمیر اور پاکستان میں بٹے ہوئے ہیں۔ یاسین ملک کے خاندان کا بھی یہی معاملہ ہے وہ خود تو سری نگر میں رہائش پزیر تھے لیکن اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان آتے رہتے تھے کہ بارہ تیرہ سال پہلے اپنے عزیزوں کے دباؤ پر وہ پاکستان میں ایک کشمیری فیملی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ جس لڑکی نے ان کی رفیقہ حیات بننے کا فیصلہ کیا اسے بھی خوب معلوم تھا کہ یہ کانٹوں بھرا راستہ ہے جس میں جدائی اس کا مقدر بن سکتی ہے لیکن اس نے پورے عزم و حوصلے کے ساتھ یاسین ملک کا ہاتھ تھام لیا اور ڈٹ کر اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ دونوں کی رفاقت کے دن انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور ان دنوں کی نشانی وہ دس سالہ بچی ہے جو اپنے پاپا کے لیے پوری دنیا سے رہائی کی اپیل کررہی ہے۔ ان کی اہلیہ مشعال ملک اگرچہ غم سے نڈھال ہیں لیکن ان کے صبرو استقامت میں کوئی لرزش نہیں آئی۔ وہ جانتی ہیں کہ ظلم کے مقابلے میں صبر ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ پوری دنیا میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ا قوام متحدہ میں بھی اس احتجاج کی بازگشت سنی گئی ہے۔ پاکستان نے دفتر خارجہ میں بھارتی سفارت کار کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام احتجاجاً ہڑتال پر ہیں۔ جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور بھارت کشمیری قائدین کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ بھارت کے خلاف یہ احتجاج بجا لیکن محض احتجاج سے بھارت کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ اس کے لیے قوت کا استعمال ضروری ہے۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

٭٭٭