اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں۔ اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے“ اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا“یا یہ کہ”اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا“۔ محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو ”اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو(تمہارے معبود) ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔پھر کیا تم(اس امرِ حق کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہو“جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ)جو کچھ اِنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
(سورہ ہود آیت نمبر11 تا16 تفہیم القرآن سید ابوالااعلیٰ مودودی ؒ)
دنیا میں پردیسی یا راہ گیرکی طرح رہو!!!
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے میرے کندھے سے پکڑ کر فرمایا:”تم دنیا میں ایسے رہو گو یا تم پر دیسی یا راہ گیرہو۔“
حضرت ابن عمرؓ فرمایا کرتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور اپنی صحت میں بیماری کے لئے اور اپنی زندگی میں موت کے لئے (کچھ) حاصل کرلو۔ (بخاری)
علماء نے اس حدیث کی شرح میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ(اس کا مطلب ہے:) تم دنیا کی طرف زیادہ مت جھکو‘نہ اسے مستقل وطن بناو‘نہ اپنے جی میں زیادہ دیر دنیا میں رہنے اور اس پر زیادہ توجہ دینے کا پروگرام بناو۔ اس سے تم صرف اتنا ہی تعلق رکھو جتنا ایک مسافر اجنبی دیس سے تعلق رکھتا ہے۔اوردنیا میں زیادہ مشغول نہ ہو‘اسی طرح جیسے ایک مسافر‘جو اپنے گھر جانے کا ارادہ رکھتاہو‘دیارغیرسے زیادہ وابستگی نہیں رکھتا۔
فائدہ:
جو شخص دنیا کو ایک مسافر خانہ اور گزگاہ سمجھے گا‘ وہ یقینا زخارف دنیا سے اپنا دامن الجھانا پسند نہیں کرے گا۔ انسان کی غلطی یہی ہے کہ وہ اس کی اس حیثیت کو نہیں سمجھتا اور پل کی خبر نہ ہونے کے سو برس کے سامان کی تیاری میں لگا رہتا ہے جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎
سامان سو برس کا ہے،پل کی خبر نہیں