عارف بہار
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین نیشنز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیائی ممالک بڑی طاقتوں کے لیے مہرے کا کردار ادا نہ کریں۔ خطے کے کئی ممالک پر کسی ایک طرف واضح جھکاؤ کا دباؤ موجود ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے کا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ چینی وزیر خارجہ نے یہ انتباہ اس وقت کیا جب خطے میں بالادستی کی کشمکش میں ملکوں اور قوموں کے اعدادو شمار کا کھیل بہت اہم اور خطرناک مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ مغربی طاقتیں چین اور روس کے مقابل اتحاد کا حصار قائم کرنے کے لیے علاقائی ملکوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اس سفر میں جو حکمران اور ممالک مغرب کے شریک سفر ہونے سے انکار ی ہیں حیلوں بہانوں سے ان کا دھڑن تختہ کیا جا رہا ہے۔ مغرب اپنی ہمنوا اور موافق مقامی قوتوں کو فیصلہ سازی کے مقام پر لاکر صف بندی کر رہا ہے۔ روس کو یوکرین کی دلدل میں پھنسا دیا گیا مگر روسی صدر ولای میر پیوٹن ابھی تک مضبوط اعصابی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ چین کے لیے تائیوان کی صورت میں ہنی ٹریپ تیار ہے۔ یہ چین کا یوکرین ہی ہے۔ مغرب کو انتظار ہے کہ چین تائیوان میں داخل ہوکر اسٹیٹس کو توڑ دے تو مغرب روس کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے اور ناٹو کی طرح کواڈ یہاں چین کو گھیر کر مارنے کا کھیل شروع کر دے۔ یہ تو چین کے ساتھ براہ راست تصادم کا میدان ہے۔ ایک اور میدان چین کو علاقے میں اتحادیوں سے محروم کرنا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان جیسے قریبی ہمسائے اس حوالے سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ بھارت بھی چین کے گھیراؤ میں اہم ہے۔ روس کے معاملے میں بھارت نے مغرب کو خوب چکمہ دینے کی کوشش کی اور امریکا کے دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ تیل کی تجارت جاری رکھی مگر چین سے بھارت خوف زدہ اور اس کے ہاتھوں زخم خوردہ ہے۔ روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات کلی طور پر دوستانہ تھے اس لیے بھارت نے مغرب کے دباؤ کے باوجود روس کے خلاف بروئے کار آنے سے انکار کیا۔ چین کے ساتھ بھارت براہ راست سرحدی اور اسٹرٹیجک کشمکش میں شریک ہے اس لیے تائیوان کا محاذ کھلنے کی صورت میں بھارت کا چین کے خلاف بروئے کار آنا چنداں ناممکن نہیں۔ پاکستان کے حالات چین کے لیے سب سے زیادہ دل آزار ہیں۔

اس سال کے اوائل میں امریکا اور چین نے اپنی عالمی صف بندی کے لیے تھوڑے سے وقفے سے دوسرگرمیاں کیں۔ امریکا نے جمہوریت کانفرنس کے نام پر ایک عالمی سرگرمی کی اور اس کانفرنس میں چین سمیت کئی ملکوں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر بائیڈن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ براہ راست ٹیلی فونک گفتگو سے گریزاں تھے اور اسلام آباد اور واشنگٹن کی حد تک تعلقات میں سرد مہری نمایاں تھی۔ اس کے برعکس راولپنڈی اور پنٹاگون میں پس پردہ رابطے قائم تھے۔ اس کھٹ پٹ کے باوجود صدر بائیڈن نے پاکستان کو جمہوریت کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی مگر نہ تو عمران خان اور نہ ہی شاہ محمود قریشی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ایسی ہی سرگرمی چین نے اپنی عالمی صف بندی کا جائزہ لینے کی غرض سے اولمپک گیمز کے نام پر کی۔ عمران خان اس سرگرمی کا حصہ بنے اور شرکا میں کافی نمایاں رہے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان اب مغربی اتحادیوں کی جھڑکیوں اور طعنوں سے تنگ آکر مستقبل کی ممکنہ صف بندی میں ایشیائی ملکوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کر چکاہے۔ چین کا یہ خواب اس وقت بکھر گیا جب پاکستان میں رجیم چینج ہوئی اور عمومی تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے نئے سیٹ اپ کو امریکا اور مغرب کی مکمل اشیر باد حاصل ہے۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے پہلے پہل طنزیہ اور ملفوف جملوں سے پاکستان میں تبدیلی کے اس عمل کو ہدف تنقید بنایا بعد میں یہ سلسلہ رک سا گیا مگر روسی صدر پیوٹن اب تک اشاروں کنایوں اور ذو معنی جملوں سے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ خیال ہے کہ ان کے طنزیہ جملوں کا رُخ پاکستان کے حالات کی طرف ہوتا ہے۔

سری لنکا میں ایک بدعنوان خاندان اقتدار سے برطرف ہوچکا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان کو چین کی حمایت حاصل تھی اور اس خاندان کے خلاف عوامی بغاوت منظم کرانے میں آئی ایم ایف کی سختیوں کے ساتھ ساتھ سی آئی اے کا ہاتھ بھی ہے۔ اس طرح سری لنکا اور پاکستان مستقبل کی اسکیم میں چین کے دائرہ اثر سے اگر پوری طرح نکلے بھی نہیں مگر ان کے نیوٹرل ہوجانے کا امکان موجود ہے۔ اسی نیوٹریلٹی کا ان سے تقاضا بھی تھا۔ مستقبل کی چین بھارت جنگ میں پاکستان نیوٹرل رہے اور چین کے ساتھ مل کر بھارت کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے۔ قریب ترین ہمسائے کے طور پر یہی تقاضا سری لنکا سے بھی کیا جانا تھا۔ یوں چین کا دلبرداشتہ ہوکر ایشیائی ملکوں کو مہرہ نہ بننے کا انتباہ کرنا فطری ہے۔ یہ تائیوان سے پاکستان اور بھارت سے سری لنکا کے مستقبل کے حکمرانوں تک ان تمام ملکوں کے لیے ہوا میں اُچھالا جانے والا تیر ہے جن پر مغرب اپنا اثر رسوخ قائم کرتا چلا جارہا ہے۔ اس میں بھارت کے لیے بھی خصوصی پیغام ہے جو اعلانیہ طور پر مغرب کے ہاتھوں چین کے خلاف استعمال ہونے کو تیار کھڑا ہے۔

٭٭٭