عالمی مفادات کا ٹکراؤ اور مسئلہ کشمیر

محمد احسان مہر

بھارتی ریاست بے شرمی اور ڈھٹائی کے حوالے سے ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گئی ہے، اور بھارت کا مکروہ چہرہ اور اخلاقی کردار ایک بار پھر عالمی برادری کے سامنے واضح ہو گیا،بھارت 75سال سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور شدہ قراردادیں جسے بھارت کے سابق وزراء اعظم نے بھی تسلیم کر رکھا ہے،اور بھارت عالمی برادری کے سامنے آج ان قراردادوں کا کھلے عام مذاق اڑا رہا ہے اور ان قرار دادوں کی آئینی حیثیت کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے،بھارت سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گیا ہے،اس نے پینترا بدلتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کی فہرست میں اپنے نام کی درخواست دیدی،جسے بھارت کے اہم اتحادی امریکہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ عالمی حالات کے پیش نظر امریکہ کسی نئے رکن ملک کو؛ ویٹو؛ کا حق نہیں دے سکتا، تا ہم اس سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے، امریکہ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں بھارت کی بے جا اور غیر ضروری حمایت کر کے خطے میں موجود پاکستان جیسے مضبوظ اسٹریجک پاٹنر کو کھونا نہیں چاہتا،تاہم وہ پاکستان جیسے ممالک کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اوچھے اقدامات کے اشارے بھی دیتا رہتا ہے۔امریکہ کے بعد ایشیائی ممالک پر نظر رکھنے والے اہم ملک چین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ ایشیائی ممالک پر پریشر ڈالنے سے باز رہے،چین کے وزیر خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ چھوٹے اور کمزور ملک اس وقت شدید دباؤ میں ہیں،علاقے میں غیر ملکی دباؤ کو جانچنے کے لیے ایرانی بیان کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے،جس میں ایران نے بیرونی دباؤ کو ظاہر کرتے ہوئے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ؛؛ میزائیل پروگرام اور علاقائی صورت حال کے علاوہ بات چیت ہو سکتی ہے،؛؛ایران نے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ میزائیل پروگرام اور علاقائی صورت حال پر سمجھوتہ نہی کرے گا عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر چھوٹے اور کمزور ملکوں پر کثیرالجہتی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہیں اور یوں وہ سالہاسال ان ملکوں کا قومی،معاشی، مذہبی استحصال کرتی رہتی ہیں،عالمی طاقتوں کی یہی سوچ اور طرز عمل،اور عالمی برادری کی عدم دلچسپی اور مفادات کا ٹکراؤ مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

عالمی مفادات کے اس کھیل میں بدلتی ہوئی علاقائی حکمت عملی اور زمینی حقائق نے بڑی طاقتوں کو نئے سرے سے صف بندیوں پر مجبور کر دیا ہے،امریکہ اور صہیونی طاقتیں ایک صدی سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے ممالک کا استحصال کرتی چلی آرہی ہیں،اب علاقائی طاقتوں نے باہمی فیصلہ سازی سے خود انحصاری کا فیصلہ کر لیا ہے تو خطے میں اپنے مفادات خطرے میں دیکھ کر امریکہ اور اس کے حواریوں کی سانسیں پھول رہی ہیں۔ روس،چین اور پاکستان کے پر اعتماد اور ڈپلومیٹک فیصلوں سے ایران اور ترکی جیسے دوست ممالک بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں،علاقائی طاقتوں کا یہ اتحاد اور بھارت کامنفی، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور ناجائز خواہشات علاقے میں امریکی مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔دوسری طرف بھارت کے سنجیدہ حلقے بھی اس بات پر غور کریں کہ بھارت کسی طرح بھی یوکرین کی حیثیت کا امریکی اتحادی نہیں ہے،امریکہ اگر یوکرین جیسے اتحادی ملک کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر کھنڈرات میں تبدیل کروا سکتا ہے، ذرا سو چئے؛ بھارت تو پہلے ہی بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے،اس کی ذرا سی غیر ذمہ دارانہ حرکت پورے جنوبی ایشیا ء کو جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔

عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمیں پہلے سے ذیادہ ثابت قدمی کی ضرورت ہے،امریکہ علاقے اپنی بالا دستی کے لیے اگر مزید ہاتھ پاؤ ں مارنا چاہتا ہے تواسے چائیے کہ پہلے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق،حق آزادی۔۔دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے، بصورت دیگرعلاقائی طاقتیں؛ جس مسئلہ کو امریکہ سات دہائیوں میں حل نہ کر سکا،ایک عشرے میں حل کرنے پر یقین رکھتی ہیں،موجودہ علاقائی غیر معمولی حالات بھارتی مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں،بھارتی حکومت اور ذمہ داران ہوش کے ناخن لیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام کریں اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قرادادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حق رائے دہی کا موقع فراہم کریں،ورنہ تحریک آزادی کی کامیابی کی صورت میں کشمیر آزاد ہو گا تو بھارت کو کچھ دوسری ریاستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے؛کہ ضروری نہیں کہ عالمی طاقتیں جس کا م میں ہاتھ ڈالیں وہاں کامیابی کے چشمے پھوٹیں،ضروری یہ ہے کہ غیر مرئی طاقتوں کی ڈور کو ان کے ہاتھ سے لے ناک میں ڈال دی جائے۔اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو، آمین

٭٭٭