شجر ہائے سایہ دار

مسرور احمد ڈار

زمانہ طالب علمی میں میری یہ بھی ایک خواہش تھی کہ میں شاعر انقلاب مشتاق کشمیریؒ صاحب کا دیدار کروں۔آزاد کشمیر ہجرت کرنے کے بعد میری یہ خواہش اُس وقت پوری ہوئی جب میں نے سنا کہ مشتاق صاحب بھی آزاد کشمیر آئے ہوئے ہیں۔دراصل موصوف پچھلے پچاس سال سے بھارتی ایجنسیوں کے نشانے پرتھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی آزاد کشمیر کی جانب ہجرت کرنے کو غنیمت سمجھا۔لیکن آزاد کشمیر اور پاکستان میں کئی سال قیام کرنے کے بعد وہ واپس وادی لوٹ گئے۔خیر ان سے ملاقات کا ذکر ہورہا تھا۔مجھے پتہ چلا کہ موصوف ڈھوک کشمیریاں راولپنڈی میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔بغیر وقت ضائع کئے ان سے ملنے گیا۔موصوف نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا۔بوسیدہ دیواریں،ٹپکتی چھت اور پھر دماغ کو سُن کرنے والی نالیوں کی بدبو۔سردی کا موسم تھا اور موصوف نے نیچے خاکی رنگ کے دو کمل بچھائے تھے۔جو فوجی لوگ دوران بارش اپنے گھوڑوں کے اوپر رکھتے ہیں۔مشتاق صاحب کی شاعری اور مشتاق صاحب کا رہن سہن ایک دم آپس میں میل کھارہا تھا۔ایسی پُر سوز شاعری سونے کے پلنگوں پر بیٹھ کر،چاندی کے محلوں میں نہیں کی جاسکتی ہے۔میں کچھ دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔یار آخر یہ کیا ہورہا ہے۔اتنی بڑی شخصیت اور اتنا گھٹیا پروٹوکول لیکن پھر مجھے مشتاق صاحب کی شاعری یاد آگئی جو انہوں نے وقت کے نمرودوں کے درمیان رہ کر کشمیری نوجوانوں کو جگانے کے لئے کی ہے۔میں دوران طالب علمی ہی ان کی ساری کتابیں پڑھ چکا تھا مجھے خوب اندازہ تھا کہ اس شخص کی خوددار ی کا قد قطب میناراور مینار پاکستان سے بھی اونچا ہے۔1970 ء کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا۔

جنت چھنہ کانسی گومت شیشہ محلن منز بہتھ حاصل
یہ گوژ یتی از صہیبؓ آسن،بلال ؓ آسن،خطاب ؓ آسن
خدایا عشق نبی ؐ عطا کرتہ مشتا قس
نہ گژھ تس زندگانی منز نیندر آسن نہ خواب آسن

اشعار کا اردو ترجمہ اس طرح ہے کہ شیشے کے محلوں میں بیٹھ کر جنت حاصل نہیں ہوتی۔یہ حضرت حضرت صہیبؓ،حضرت بلال ؓ اور حضرت خطاب ؓ سے سیکھنا چاہیے۔آخری بند میں کہتے ہیں۔

اے اللہ مشتاق کو اللہ کے نبیؐ کی محبت عطافرما۔بے شک اس کو زندگی میں نیند اور خواب سے بھی محروم رکھ

یوں تو کشمیری شاعری میں بڑے بڑے نام ہمارے سامنے آتے ہیں۔لیکن میرے خیال میں حضرت شیخ نورالدین ولی ؒ کے بعد اگر کشمیری زبان میں کسی نے نظریاتی اور انقلابی شاعری کی ہے تو وہ مشتاق کشمیری تھے۔حضرت شیخ نورالدین ولیؒ کی شاعری میں توحید اور عشق الٰہی اور عشق رسول نمایاں تھا لیکن مشتاق کشمیری کی شاعری میں عشق،توحید کے علاوہ حمد،نعت،مزاح،انقلاب اور بغاوت کا پہلو بھی شامل تھا۔موصوف پُر کشش شخصیت کی مالک تھے۔سستا مگر صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے تھے۔ خوش آمدکرنا اور چاپلوسی انہیں نہیں آتی تھی۔اگر ایسا ہوتا تووہ شاعر سے ایک لیڈر بن گئے ہوتے اور آج اپنے پیچھے ایک وسیع جاگیر چھوڑ کرجاتے۔وہ فنا فی اللہ تھے۔اللہ کی یاد میں مگھن رہتے تھے۔میں نے ان کے منہ سے کبھی غیبت اور بد گوئی نہیں سنی۔

بھارتی ظلم کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کو پاکستان بلایا او ر ان کی شادیاں یہاں پر کرالیں۔لیکن خود یہاں پر ایڈجسٹ نہیں ہوسکے۔پاکستان میں جو حالات گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے چل رہے ہیں وہ موصوف کو راس نہیں آ ئے۔لہٰذا انہوں نے وقت کے فرعونوں اور نمرودوں میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔وہ اُردو میں شاعری نہیں کرتے تھے۔لیکن کشمیر واپس لوٹنے سے قبل انہوں نے اُردو میں بھی شاعرانہ کلام لکھا جسے خونابہ کشمیر کے نام سییک کتابچہ کی صورت میں شائع کیا گیا۔اس کتاب میں موجودہ تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی ہے۔ایک جگہ فرماتے ہیں۔۔۔

جلایا ہے کشمیر کا گوشہ گوشہ۔۔۔جہاں بھر میں رسوا ہوئی گاندھیائی
برہمن ہے نازاں بارود بم پر۔۔سہاراسہارا ہمارا سدا مصطفائی

مشتاق صاحب کا ایک بیٹا احمد کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہوتے ہی جہادی کارواں کا حصہ بنا اور اسی تحریک کے ابتداء میں اپنی نذر پوری کردی۔مشتاق صاحب نے اپنے پیچھے جو اثاثہ چھوڑا۔اس میں کشمیری شاعری کی تصانیف،شور محشر،ارمغان حرم اور صور اسرافیل، خونابہ کشمیر شامل ہیں۔

شے ارزاں نہیں ایمان،کہ ہم نے
لٹایا گھر،دیا لخت جگر ہے
امتحان پر امتحان مشتاق ہم دیتے رہے
کہنہ سالی میں دیا لخت جگر کا امتحان

مایوس نہیں تھے۔اللہ پر مکمل ایمان تھا اور یقین تھا کہ انہی کا سہارا کا فی ہے۔۔۔ایک شعر میں لکھتے ہیں کہ

کون کہتا ہے جنیوا کا سہارا چائیے
ہم مسلمانوں کو اللہ کا سہارا چائیے

مہاجرت کی زندگی کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں

تحریک نے مشتاق بنایا ہے مہاجر
انصار میں رہنے کو مکان ڈھونڈ رہا ہوں

یہاں مجھے ایک بات یاد آتی ہے کہ مشتاق صاحب ہمارے دوسرے عظیم بھائی نجم الدین خانؒ کا جیسا مزاح رکھتے تھے۔ مشتاق صاحب نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی عملی تصویر تھے۔ برادرم نجم الدین گرم دم گفتگو،گرم دم جستجو والے قائد تھے۔وہ پچھلے سال 24اگست کو ہم سے جدا ہوئے۔نجم صاحب ا یک حریت پسند اور انقلابی انسان تھے۔ایک انقلابی کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ مال و زر سے زیادہ محبت نہیں رکھتا ہے۔نجم الدین خان میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔ وہ بھی جب ہم سب رخصت ہو ئے تو انہوں اپنے پیچھے کوئی اثاثہ جات نہیں چھوڑے۔اللہ پاک دونوں مرحومین کو اپنی اعلیٰ جنتوں میں جگہ دے۔آمین

٭٭٭

یہ کون تھا جو خا ک میں روپوش ہوگیا

تحریر:شیخ محمد امین

ہر ذرہ جیسے آئینہ بر دوش ہوگیا
یہ کون تھا جو خا ک میں روپوش ہوگیا
ایک شخص ٹوکتا تھا بہت اہل شہر کو
مژدہ کہ آج رات وہ خاموش ہوگیا

ؒ پیدائشی باغی۔تقلید کے بجائے قائدانہ کردار اور وقت کا دھارا بدلنے کیلئے ہمیشہ سرگرم۔جسمانی طور پر معذور لیکن ایمانی قوت سے بہرہ ور۔لا الٰہ اللہ کی عملی تفسیر۔جسے حق سمجھتا تھا،اس پر ڈٹ جاتا تھا اور جسے باطل سمجھتا تھا۔اسے بغیر کسی لاگ لپٹ کے باطل کہتا تھا۔فلاح عام ٹرسٹ کے تحت قائم تعلیمی اداروں میں جب استاد رہا توواقعی استاد ثابت ہوا۔صدر مدرس تعینات ہوا تو منتظم اعلیٰ کے نام سے شہرت پائی۔عسکری مزاحمت شروع ہوئی تو یہ شخص پیش پیش تھا۔معذور ہونے کے باوجود،دشمن کیلئے لوہے کا چنا ثابت ہوا۔ہجرت کا حکم ملا،تو سر تسلیم خم کرکے اس راستے کا بھی راہی بنا۔ہجرت کے ایام کے دوران کئی ذمہ داریاں نبھائیں اور اس طرح نبھائیں کہ تاریخ انہیں سنہری حروف میں یاد کرے گی۔

امید کا دامن کبھی نہ چھوڑنے والا اور صرف اور صرف اللہ کی ذات پر توکل کرنے والا یہ عظیم انسان 65سالہ حضرت نجم الدین خانؒ،24اگست 2021 اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔تب سے کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرا جس میں مجھے اس کی کمی محسوس نہ ہورہی ہو۔رازدان کی حیثیت سے میرا وہ اس مہاجرت کی زندگی میں آخری دوست تھا،جو چلا گیا۔تب سے بس زندگی کے ایام اس امید کے ساتھ گذار رہا ہوں کہ وہاں ان کے ساتھ ضرور ملاقات ہوگی (ان شا ء اللہ)۔اللہ تعلی ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

٭٭٭