متین فکری
اس میں شک نہیں کہ بہت سی قوموں نے اپنی آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کی ہے اور کئی نسلوں تک اس معرکے کو جاری رکھ کر اپنی منزل سے ہمکنار ہوئی ہیں لیکن عہد ِ حاضر میں کشمیر اور فلسطین میں آزادی کی جدوجہد ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ عہد وہ ہے جس میں عالمی سطح پر انسانی حقوق، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور قوموں کی آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ عالمی طاقتوں نے اقوام عالم کو ایک لڑی میں پرو کر اقوام متحدہ کے نام سے ایک عالمی ادارہ بھی بنا رکھا ہے جس کے منشور میں مظلوم و مغلوب قوموں کی حمایت اور انہیں آزادی دلانا بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے پوری دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکا بھی لے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود نہ دنیا میں امن ہے، نہ انسانی حقوق کی پاسداری ہے، نہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی مظلوم قوموں کو آزادی نصیب ہوئی ہے۔ عالمی امن کی دعویدار قوتیں خود پوری دنیا میں بدامنی اور انتشار کو فروغ دے رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے متعصبانہ رویے کے ذریعے قوموں میں مایوسی پھیلارہی ہے۔ اگر صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی ہے۔

ایک بلاک میں کفر کی تمام طاقتیں مجتمع ہیں اور ”الکفر ملت ِ واحدہ“ کا منظر پیش کررہی ہیں۔ دوسرے بلاک میں تنہا اسلام کھڑا ہے اور اس کے ماننے والے انتہائی کمزور ایمانی قوت اور زوال آمادہ اخلاقی طاقت کے ساتھ کفر کے مقابلے پر ہیں۔ اگرچہ کفر کی طاقتوں میں بھی باہمی شدید اختلافات ہیں، آپس میں رسہ کشی ہے، ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے پنجہ آزمائی ہے لیکن اس بات پر کفر کی تمام طاقتوں میں کامل اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ اسلام کو کسی صورت بھی آگے نہیں بڑھنے دیں گی اور اس کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں کا قدم قدم پر راستہ روکیں گی، انہیں تمام حقوق سے محروم رکھیں گی اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گی۔ یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے جس کا نظریہ مغربی مفکر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے پیش کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب نے اپنے مدمقابل کمیونزم سمیت سب تہذیبوں کو شکست دے دی ہے اب اسے اسلامی تہذیب کا واحد چیلنج درپیش ہے جسے مٹانے کے لیے اسے ایڑی چوٹی کا زور لگادینا چاہیے۔

تہذیبیں قوموں سے پہچانی جاتی ہیں، جہاں جہاں مسلمان قومیں آزادی کی جدوجہد کررہی ہیں انہیں اسی تہذیبی چیلنج کا سامنا ہے، کشمیر ہو، فلسطین ہو، چیچنیا ہو، برما ہو، سنکیانگ ہو یا بھارت ہو۔ ہر جگہ مسلمان اپنی آزادی یعنی تہذیبی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں شدید خطرات کا سامنا ہے۔ کشمیر میں آزادی کی جنگ ہمارے لیے اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ خطہ پاکستان کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی بقا کا انحصار کشمیر پر ہے۔ اس کے تمام دریا کشمیر سے آتے ہیں اور پاکستان کا دشمن ان دریاؤں کا پانی روک کر اس کی سرسبز زمین کو بنجر بنارہاہے۔ پانی زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنی بقا اور اپنی زندگی کے لیے بھی کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد کا ساتھ دینا چاہیے۔ وہ اس جدوجہد میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کی اس حیثیت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی میدان میں کشمیر کا مقدمہ بے جگری سے لڑا بھی ہے لیکن کشمیریوں کو گلہ ہے کہ جب بھی کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم اُٹھانے کا مرحلہ آیا تو پاکستانی قیادت (خواہ وہ سول ہو یا فوجی) پیچھے ہٹ گئی اور کشمیریوں کو بے سہارا چھوڑ دیا۔ یہ غلطی لیاقت علی خان سے بھی ہوئی، جنرل ایوب خان سے بھی ہوئی، جنرل پرویز مشرف سے بھی ہوئی، نواز شریف اور عمران خان سے بھی ہوئی اور اب جنرل باجوہ بھی یہی غلطی کررہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی ہماری سول یا فوجی قیادت میں سے کسی کا نصب العین نہیں رہا، پاکستانی قیادت نے ہمیشہ کشمیریوں کو مایوس کیا ہے، انہیں اُمید ہے تو پاکستانی عوام سے ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے۔اب کشمیری عوام محض اللہ کے سہارے اپنی قوت بازو پر اپنی آزادی اور اپنی تہذیبی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب کہ پاکستانی قیادت بھارت سے دوستی اور تجارت کی باتیں کررہی ہے۔ یہی حال فلسطین کا ہے، فلسطینی اپنی آزادی کے لیے جانیں دے رہے ہیں اور عرب ممالک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کے حوصلے بھی بلند ہیں اور کشمیری عوام کے بھی۔ پچھلے مہینے کشمیر کے دونوں حصوں اور پاکستان میں برھان وانی کا چھٹا یوم شہادت منایا گیا۔ اس نوجوان کے بھی بہت سے خواب تھے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا، بہت اچھا کرکٹر بننا چاہتا تھا، ایک شاندار کیریئر اس کا منتظر تھا لیکن وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے 2011میں قابض بھارتی فوجوں کے خلاف میدان جہاد میں آگیا اور مسلسل چھے سال تک دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارتا رہا۔

آخر 8 جولائی 2016ء کو ایک جھڑپ کے دوران مرتبہ شہادت پر فائز ہوگیا لیکن اہل وطن کو یہ پیغام دے گیا۔ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔اسی اُجالے کی آرزو میں ہزاروں تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان برھان وانی کی پیروی کرتے ہوئے میدان جہاد میں اُترے ہوئے ہیں۔ ان کا زادِ راہ یقین ِ محکم اور عمل ِ پیہم کے سوا کچھ نہیں ہے وہ آزادی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ خواب پورا ہونا ہے کہ نہیں، اس بحث میں پڑے بغیر ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں نے ایک تاریخ رقم کردی ہے جس پر کوئی بھی مورخ قلم نہیں پھیر سکے گا۔ یہی ان کی کامیابی ہے، کامیابی کا تعلق ہار جیت سے نہیں بلکہ اس ”یقین ِ محکم“ سے ہے جو آدمی کو ہر حال میں سرخرو رکھتا ہے۔
٭٭٭