شاعر اسلام۔۔۔مشتاق کشمیری ؒ

اویس بلال

عظیم شاعر،عالم باعمل اور تحریک اسلامی سے وابستہ کشمیری مزاحمتی ادب کے روح رواں مشتاق کشمیری علامہ اقبال ؒ کے طرز کے کشمیری ز باں کے شاعر تھے۔مشتاق کشمیری ؒ علامہ اقبال کے معتقد تھے، تحریک اسلامی کے دیرینہ کارکن اور ایک شہید کے وارث بھی تھے۔ آپ بچپن سے ہی باطل نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے داماد جو راولپنڈی پاکستان میں مقیم ہیں ایڈوکیٹ اویس الاسلام کے مطابق مشتاق کشمیری آٹھ جولائی بروز جمعہ 2022ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب ان کی کتاب شور محشر 1970 ء میں منظر عام پر آ گئی تو اس وقت کے امیر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر سعدالدین صاحبؒ ؒنے فرمایا اس کتاب میں ادبی اور فنی لحاظ سے جدید طرز کا انداز اختیار کیا گیاہے اس میں قوم کے لئے پیغام ہے۔شور محشر عالم انسانی کے منزل جاوداں کی اوّلین منزل ہے اور یہاں کچھ موجود نہیں۔یہاں آہ و بکا ہے فغاں ہے جلن ہے درد ہے سوز اور تپش ہے.جون 1970 ء میں امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر غلام محمد بٹ کنوینیر اسلامی ادارہ فکر و ادب جموں وکشمیر نے کتاب شور محشر کے بارے میں کہا کہ مشتاق صاحب سے کون واقف نہیں ہمارے جوان شعراء کرام کے سر خیل ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد میں غایت درجہ اہم اور نمایاں ہیں۔ مشتاق کشمیری رحم اللہ کو ریاست جموں و کشمیر کے اسلام پسند ادباء اور شعراء حضرات کی صلاحیتوں کو دین حق کی راہ میں استعمال کرنے کی غرض سے قائم اسلامی ادارہ فکر وادب کے نام سے اپنی نوعیت کا پہلا چئیرمین ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ مشتاق صاحب اپنے انقلاب آفرین کلام کی بدولت ریاست جموں وکشمیر کے طول و عرض میں ایک معروف اور مقبول شخصیت ہیں۔ مشتاق کشمیری ؒ کا کلام اپنی اثر آفرینی کے ساتھ باطل نظریات پر کاری ضرب لگا کر نظام حق کے خدوخال کی واضح طور نشاندہی کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے،زبان سادہ اور عام فہم ہے اور ایک ان پڑھ بھی کسی ادنیٰ دقت کے بغیر کلام کو سمجھ سکتا ہے صاحب کلام کی اپنی اپنی زندگی ایک نمونہ ہے۔

چند یوم قبل چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم نے شاعر کشمیر مشتاقِ کشمیری مرحوم و مغفور کے حوالے سے کچھ لکھنے کو کہا تو مجھے1986 ء کا جماعت اسلامی جموں کا صوبائی اجتماع یاد آیا۔یہ اجتماع قصبہ کشتواڑ نزد ہڑ تالاب میں منعقد ہوا۔تین دن کے اس اجتماع میں اسلامی تحریک طلبہ کے نوجوان سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔اجتماع کے آخری روز مشاعرہ کی نشت ہوئی جس میں ریاست بھر کے شعراء کرام شریک ہوئے جن میں ہندو مسلم سکھ شعراء بھی شامل تھے۔ آخر پر مشتاق کشمیری اسٹیج پر پہنچے تو شرکاء اجتماع کی پوری توجہ شاعر کشمیر مشتاق کشمیری کی طرف مرکوز ہوئیں انہوں نے موجودہ صورتحال پر اپنے کلام میں منظر کشی کی۔ کٹھ پتلی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ان کے ضمیر کو جگانے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ مشتاق کشمیریؒ نے اپنے قلم و زباں کے ذریعے توحید باری تعالیٰ سیرت النبی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین بزرگان دین کی زندگی پر جس انداز میں قلم اٹھایا ہے یقیناً ان کے لیے دنیاوی عزت و اخروی نجات کا باعث بنے گا انشاء اللہ۔

موجودہ صورتحال کی بھی انہوں نے صحیح منظر کشی کی ہے آج کی نئی نسل اگر ان کی صرف ایک کتاب شور محشرکامطالعہ کرے تو وہ اپنے آپ کو تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گی،انکی نعتیہ اور منقبت پر مشتمل شاعری سے شاعر اسلام مشتاق کشمیری کے اندر کا سچا مسلمان اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ کس قدر حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہیں۔ نمونے کے طور پر انکی ایک نعت کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لائے ہوئے دین کے لیے آج مسلمانوں کو اسے قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں َسب آپ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن دعویٰ صرف زبان تک محدود ہیں، آپ کے صحابہ کرام نے آپ کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھائیں آج کے مسلمان آپ کی محبت میں چراغ تو جلاتے ہیں مگر آنکھیں نہیں بچھاتے ہیں قرآن مجید پڑھنے کے باوجود ہمارے دل روشن نہیں ہو رہے، َمسجدوں کے در و دیوار اشک بار ہوے َلیکن آج کل کے مسلمانوں کے اندر فتنہ پروری پنپ رہی ہے، آج بھی مسلمانوں کی راہ میں احزاب وطائف حائل ہیں اور آج بھی آپ کی رحمت پر سنگ باراں ہو رہا ہے، آج کل شہر مصر میں پھر سے فرعون خدائیت کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن آپ کی محبت میں اخوانی آج بھی پھانسی کے پھندوں کو چوم رہے ہیں۔“

بیسو یں صدی کے عالم اسلام کے دانشور مفکر اسلام عالم باعمل کی سینکڑوں کتابوں کے مصنف سید ابو الاعلی مودودی ؒ کے متعلق مشتاق کشمیری نے اپنی کتاب شور محشر میں انکی دینی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا خوب فرمایا جس کا ترجمہ یوں ہے۔ ”آپ کے پیغام سے میری آرزوؤں اور تمناؤں کو شباب مل گیا،آپ کو دیکھ کر ہی میری امیدوں کو حوصلہ مل گیا،اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا سایہ کرے اور راضی رہے جیسے کہ ظالم اور دین دشمن آپ کو دیکھ کر ہی حواسِ باختہ ہوگئے ہیں، میرے دل کی کائنات میں ایک نئی چہل پہل کا باعث آپ ؒ کا پیغام ہے، آپنے صبح کی اذان کی طرح مجھے بیدار کر دیا، آپ نے میری آرزوؤں اور خیالات کی ترجمانی کر کے رسول رحمت ؐکے مشن کی آبیاری سے قرآن وحدیث کا پیغام عام لوگوں تک پہنچایا۔

قارئین کرام شاعر اسلام مشتاق ؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے عام دنیا دار شاعروں سے ہٹ کر دین حق کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے شاعری کی صنف کو اپنایا،تحریک اسلامی کے نصب العین کو اپنا کر ادب کے محاذ پر دین حق کی ترجمانی کی،شرک و بدعت اور باطل نظریات کے خلاف اپنے مقدس مشن پر ڈٹے رہے۔ اگر چہ اس راستے میں انہیں شدید مشکلات تکالیف اسیری ہجرت یہاں تک کہ اپنے لخت جگر کی شہادت بھی پیش کرنی پڑی لیکن انہوں نے اپنے مشن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی باطل کی خوشامد پر آمادہ ہوئے۔ مشتاق کشمیری ؒ نے زندگی کے ہر موضوع پر دین ہو سیاست ہو عدالت ہو پر قلم اٹھایا اور زندگی کی آخری سانس تک اس نصب العین اور منشور کی آبیاری کی جس کے ساتھ انہوں نے 1965ء میں اپنے آپ کو وابستہ کیا۔

مشتاق کشمیری ؒ کی پہلی ہی نظم نے کشمیری نوجوانوں میں بیداری پیدا کردی۔ ’مرد مسلمانس کرو آلو‘اور دوسری نظم جو مجھے بہت پسند ہے’َکنڈیو پژء پار کری دامن گولابن ہنز کتھا کرتو َ‘۔مشتاق صاحب کو مجھ سے زیادہ نزدیک سے جاننے والے عامر عمار بھائی کہتے ہیں کہ مشتاق کشمیری صوبائی اور ریاستی سطح پر ہونے والے اجتماعات عام میں اپنے شیریں کلام سے مجمع کو گرماتے تھے۔وہ شاعر انقلاب تھے۔ دوست فرحان سرینگر سے کہتے ہیں کہ جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا مرحوم مشتاق کشمیری نے اپنے لخت جگر احمد بھائی کومیدان کارزار میں اتارا جس نے جیل میں بھی کافی اذیتیں برداشت کیں رہا ہونے کے بعد دوبارہ میدان کارزار میں داد شجاعت دینے کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ بھارتی ایجنٹوں نے آپ کے گھر پر بھی حملہ کر کے آپ کی ایک بیٹی کو گولیوں سے شدید زخمی کیا اتنی تکالیف کے باوجود مشتاق کشمیری استقامت کا پہاڑ دکھائی دئیے۔شبیر ابن یوسف کہتے ہیں مشتاق کشمیری عظیم انسان تھے انہوں نے جہاد باالقلم کے ساتھ ساتھ جہاد بااللسان بھی کیا۔ مرحوم مشتاق کشمیری ؒ کے داماد ایڈوکیٹ اویس الاسلام کہتے ہیں کہ میں نے انہیں صابر وشاکر پایا، انہوں نے اپنے کلام سے بہت سے مردہ دلوں کو زندہ کردیا،اپنے قلم سے وہی بات لکھی جسے وہ حق سمجھتے تھے وہی بات کہی جو وہ معاشرے میں دیکھتے۔انکی جدائی تحریک اسلامی کے لئے ایک صدمہ عظیم سے کم نہیں۔اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

٭٭٭