کشمیری صحافت کی حالت زار

روہنی سنگھ،نئی دہلی

مئی کے مہینے میں جب بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کی ایک عدالت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی تو اس کیس کی تفصیلات جاننے کے لئے میں نے سری نگر سے شائع ہونے والے اخبارات سے رجوع کیا۔مگر یہ کیا اکثر اخبارات نے بس مختصر ایک یا دو کالم میں اس خبر کو شائع کیا تھا۔اس سے بہتر کوریج تو دہلی کے اخبارات نے دی تھی اور ٹی وی چینلوں نے پرائم ٹائم پر اس پر خاصی بحث بھی کی تھی۔میں نے سوچا چلو اداریہ کے صفحات پر تو کچھ تفصیلات مل جائینگی۔ایک کثیرالاشاعت اردو روزنامہ کے ادارتی صفحات پر قارئین کو اس دن ٹیکنالوجی کے اثرات اور پھل کھانے کے فوائد سے روشناس کرواریاجارہا تھا۔یہ سب کچھ مجھے انتہائی عجیب سالگا۔میں نے پھر موقراخبارات کے آرکائیوز کو کھنگال کر تفصیلات نکالنے کی کوشش کی تو اس پر بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ ماضی میں اس موضوع پر شائع اسٹوریز بھی غائب تھیں۔

کشمیر میں پریس کی صورتحال کا اندازہ تو اسی دن لگ گیا تھا،جب پچھلے سال سرینگر کا پریس کلب بند کردیا گیا تھا،مگر صورت حال اس قدر خراب ہے،اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ جب میں نے سرینگر میں کام کرنے والے ایک صحافی دوست کو فون کیا،تو اس نے دل کھول کر قہقہہ لگا کر پوچھا:”کہ دہلی کے ایک صحافی کو آخر آج اتنا وقت کیسے ملا کہ کشمیر کے صحافی کی خیروخیریت دریافت کرے؟“اس صحافی نے کہا کہ وہ صحافت کو دفنانے پر مجبور ہوچکے ہیں اور بس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سبھی اخبارات پر غیر اعلانیہ اور سخت سنسر شپ عائد ہے۔اس حد تک کہ ان اخبارات نے یاسین ملک کی عمر قید جیسی اہم خبر کو چھاپنے اور اس کو معقول جگہ دینے سے حتی الامکان گریز کیا۔

ان اخبارات کا سرسری مطالعہ کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان صحافتی اداروں نے خود کو سیلف سنسر کررکھا ہے یا پھر کوئی نادید ہاتھ انہیں صحیح رپورٹنگ کرنے سے روک رہا ہے۔ جب میں نے ایک اردواخبار کے ایڈیٹرسے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ صحافت کرنا نہیں بھولے ہیں،مگر وہ فی الوقت اپنے گھرکسی مصیبت کو دعوت نہیں دینا چاہتے ہیں۔کسی انڈسٹری وغیرہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے کشمیر میں اخبارات اپنے اداروں کو چلانے کے لیے زیادہ تر سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں اور معمولی سی بھول چوک سرکاری اشتہاروں کا حصول ناممکن بنا دیتی ہے۔سرکاری اشتہارات بند ہوجانے سے اخبار کا گزارا مشکل ہوتا ہے اور پھر صحافیوں اور دیگر عملہ کی چھٹی کرنی پڑتی ہے۔

دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گذشتہ سال ستمبرمیں بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا انتقال ہوا تو سرینگر کے اکثر اخبارات میں ان کی موت کی خبر ایک ہی کالم میں چھپی،جب کہ دہلی کے اخبارات اور بین الاقوامی میڈیا نے اسے تفصیل سے کور کیا۔سرینگر کے ایک انگریزی ہفتہ روزہ نے جٗرأت کرکے مرحوم لیڈر کا تصویر کے ساتھ پروفائل چھاپا،تو اگلے روز سے سزا کے طور پر اسکے اشتہارات بند کردئیے گئے اور ابھی تک جاری نہیں کئے گئے۔گیلانی کے دست راست محمد اشرف صحرائی اس سے قبل جیل میں انتقال کرگئے تھے۔وادی کشمیر کے اکثر اخبارات میں اسکو رپورٹ تک نہیں کیا گیا۔

گذشتہ ماہ ایک کشمیری صحافی شاہد تانترے جو کاروان میگزین کے لیے لکھتے ہیں،نے ایک خط میں انکشاف کیا کہ پولیس ان کو باربار تھانہ طلب کرتی ہے۔اس کے والد کوبھی پولیس اسٹیشن میں بلا کر گھنٹوں انتطار کروایا گیا۔تانترے کو پولیس افسران نے بتایا کہ کشمیر میں رہ کر انکو حکومت کے خلاف لکھنا نہیں چاہیے،ورنہ ان کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ ان کے پاس کشمیر چھوڑنے کا آپشن موجود ہے۔تانترے کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی تنظیم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

اگست 2019 ء میں جموں و کشمیر سے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیری صحافیوں کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ حکومت پر تنقید برداشت نہیں کی جاتی ہے۔جب ہلاکتوں کی خبر یں آرہی ہوں تو اخبارات کو گل لالہ کے باغ کی تصویروں سے صفحات کو مزین کرنے پڑتے ہیں۔بس یہ لگنا چاہیے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔کشمیر کے وہ اخبارات جو برسوں سے دنیا کے لیے بطور ایک ایسی کھڑکی کا کام کرتے آرہے ہیں جس کے اندر جھانک کر کشمیر کو دیکھا جاتا تھا،اب ایک بندروشن دان کی مثال پیش کرتے ہیں۔

ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کے دروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں اور یہ منظر خود بخود دوسروں کے ذہنوں میں خوف پیدا کردیتا ہے کیونکہ اگلی باری ان کی ہوسکتی ہے۔خیر ایک ایک کرکے سبھی کی باریاں آرہی ہیں۔ نیو یارک کی صحافتی تنظیم کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹ کے مطابق اب کشمیری میڈیا ایک بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ گیا ہے،جہاں صحافی سوچ رہے ہیں کہ اس پیشے کو زندہ اور جاری رکھنا کب تک ممکن ہے اور اس مصنوعی زندگی کو جینا اور پھر دنیا کو دکھانا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے کب تک جاری رہ سکتا ہے۔اخبارات کے مالکان بھی اپنی سرکولیشن کے لگاتار گرنے سے پریشان ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب حقیقی صحافت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔کشمیر کی چار بڑی یونیورسٹیاں نئی پود کو صحافت سکھانے کا کورس پڑھا رہی ہیں۔کشمیری صحافت کی اس حالت زار کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کی ایک پرانی فلم کا گانا یاد آرہا ہے۔۔

سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے
حال چال ٹھیک ٹھاک ہے
کام نہیں ورنہ یہاں،آپ کی دعا سے سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے
آب و ہوا دیش کی بہت صاف ہے
اللہ میاں جانے کوئی جئے یامرے
آدمی کو خون وون سب معاف ہے

بشکریہ:m.thewireurdu.com

٭٭٭