
زندہ گیلانی سے ہمیشہ خوف کھانے والا بھارت ان کی لاش سے بھی خوفزدہ رہا
انہوں نے امریکی دبائو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے ’’پیس پروسیس ‘‘میں پیشگی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بغیر شامل ہونے سے انکار کیا تھا
تحریک آزادی ٔ کشمیر کے بانوے سالہ راہنما سید علی گیلانی ایک سال قبل گیارہ سالہ نظربندی کو ٹھکراتے ہوئے زندگی کی آخری سانس لے کر ابد کی آزاد راہوں اور جنت کی آزاد فضائوں کی جانب کوچ کرگئے تھے ۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے قومی پرچم سرنگوں کرنے اورآزادکشمیر حکومت نے ایک روزہ تعطیل اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بیانات میں سید علی گیلانی کی تاریخی جدوجہد کو خراج پیش کیا تھا ۔بھارتی حکومت نے سید علی گیلانی کی وفات کی خبر پھیلتے ہی گھر کا محاصرہ کر لیا اور بھارتی فوج اور پولیس کے افسروں نے گھر میں ڈیرے ڈال دئیے ۔لوگوں کو سید علی گیلانی کی رہائش گاہ تک پہنچنے سے روکنے کے جابجا رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور وادی میں کرفیو لگا کر انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ۔سید علی گیلانی نے مزار شہدا میں تدفین کی وصیت کی تھی اس وصیت کی تکمیل سے خوف زدہ بھارت نے ان کے اہل خانہ پر رات کی تاریکی میں تدفین کے لئے دبائو ڈالنا شروع کیا اور یہ دھمکی دی اگر ان کی ہدایت پر عمل نہ کیا گیا وہ فوج جنازے کو اپنی تحویل میں لے کر کسی نامعلوم مقام پر تدفین کر ے گی جس طرح گزشتہ برسوں سے شہدا کے جنازوں کے ساتھ کیا جا تا ہے ۔سید علی گیلانی تین عشرے سے جاری مزاحمت کے مقبول ترین لیڈر شمار کئے جاتے تھے ۔وہ ایک جرأت مند ،دلیر اور آہنی عزم اور اعصاب کی حامل شخصیت تھے جس بات کو حق سچ سمجھتے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہ کرتے۔ ان کی مقبولیت کا گراف دوہزار کی دہائی میں اچانک اس وقت بلند ہونا شروع ہوا جب انہوں نے امریکی دباؤ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی ’’پیس پروسیس ‘‘میں پیشگی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بغیر شامل ہونے سے انکار کیا تھا۔ان کا موقف تھا کہ بھارت اشارتاََ ہی سہی جب تک کشمیر کو متنازعہ تسلیم نہیں کرتا حالات اور زمینی حقائق میں تبدیلی ممکن نہیں۔حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان کے قد آور ساتھیوں کی اکثریت ’’پیس پروسیس ‘‘ کے نام سے اس مشق کا حصہ بن گئی اور یوں علی گیلانی بظاہر تنہا رہ گئے ۔یہ وہی زمانہ تھا جب وادی کشمیر میں سیاسی قیادت اور دانشور حلقوں میں جنرل پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا چرچا تھا اور اس فارمولے کو امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھا جا رہا تھا ۔سید علی گیلانی رجائیت کے اس طوفان کی لہروں کے اُلٹے رخ تیر رہے تھے ۔اسی معاملے پر جنرل پرویزمشرف کے ساتھ دہلی میں ان کی ایک ملاقات بہت ناخوش گوار انجام کو پہنچی تھی ۔سید علی گیلانی کا خیال صحیح ثابت ہوا ۔اسلام آباد دہلی ،لاہور اور امرتسر کے ہوٹلوں میں سیمیناروں اور مشرکہ محفلوں کی حد تک پیس پروسیس پورے عروج پر رہا مگر جس سرزمین کے نام پر امن کایہ کھیل شروع کیا گیا تھا اور جسے امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اس کے حقیقی ثمرات سے محروم رہی ۔ امن عمل کے شروع ہونے کے باوجود وادی میں بھارتی فوج کا جبر ، جماؤ اور دباؤ کسی طور کم نہیں ہوا ۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پوری رفتار سے جاری رہیں اور وادی کے طول وعرض میں روز لاشے اُٹھتے رہے۔جس سے نوجوان طبقے کا اس پیس پروسیس سے اعتماد اُٹھتا چلا گیا۔

سید علی گیلانی نے امن کے عالمی کارواں کا حصہ بننے کی بجائے وادی کے زخمی دل اور پرنم آنکھوں کے حامل لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا راستہ اپنایا ۔وہ شہد ا کے جنازوں میں شریک ہوکر لوگوں کا غم بانٹنے لگے اور پیس پروسیس کو ہدف تنقید بناتے رہے ۔وادی کے آمادہ ٔ بغاوت نوجوان علی گیلانی کی آواز کو اپنے دل کا سازسمجھ کر اس کا ساتھ دینے لگے اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ نوجوانوں میں ان کی مقبول بڑھتی چلی گئی ۔وادی میں نبض زندگی پر ان کا ہاتھ آگیا ان کی اپیل پر زندگی بند بھی ہوتی رہی اور رواں بھی۔ان کے گھر کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو کران کا خطاب سنتے رہے اور ان میں ننانوے فیصدشرکاء نوجوان ہوتے ۔سید علی گیلانی کی مقبولیت درحقیقت ان کے موقف کی پزیرائی تھی یہ وادی میں نسل در نسل منتقل ہونے والا موقف ہے ۔پیرانہ سالی اور عارضوں نے سید علی گیلانی کو مضمحل کرنا شروع کر رکھا تھا مگر ان کے لہجے کی گھن گرج کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی تھی ۔بعد میں یہی حالات وادی میں مقبول مزاحمانہ تحریکوں کی بنیاد بنتے چلے گئے ۔بھارت نے بارہ برس قبل سید علی گیلانی کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کرکے گھر میں نظر بند کر دیا تھا ۔انہیں قریبی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔ ان کی بے پناہ عوامی مقبولیت ،ڈھلتی ہوئی عمر اورگرتی ہوئی صحت کے تناظریہ سوال برسوں سے سوشل میڈیا میں موضوع بحث رہا کہ سید علی گیلانی کا جانشین کون ہوگا؟ انہوںنے پارٹی کی قیادت اپنے دست راست محمد اشرف صحرائی کے حوالے کی جو ان کی وفات سے تین ماہ قبل جموں کی ایک جیل میں شہید ہو گئے۔ قیادت منتقل کرتے ہوئے سید علی گیلانی نے اعلان کیا کہ مسلسل نظر بندی کی وجہ سے وہ عوام اور پارٹی کارکنوں سے رابطہ قائم نہیں کر سکتے جس کا اثر پارٹی کی کارکردگی پر بھی پڑتا ہے ۔پارٹی میں عملی شرکت کے بغیر اتنا بڑاعہدہ اپنے پاس رکھنا بددیانتی ہوتا کیونکہ یہ محض عہدہ نہیں بلکہ ضمیر بھی ہے ۔آج میں نے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے پارٹی کو متبادل قیادت کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جانشین اشرف صحرائی کو گلے لگا کر ان کا ماتھے پر بوسہ دیا۔ کئی برس سے سید علی گیلانی شدید علیل تھے


۔بھارتی حکومت ان کے گھر کا مسلسل محاصر ہ کئے ہوئے تھی۔ان کے گھر آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی اور سخت پوچھ گچھ کی جاتی۔بھارت نے سید علی گیلانی کو جھکانے کے لئے ان کی کئی قریبی افراد کو قتل کرایا جن میں ان کے قرینی عزیز حسام الدین ایڈووکیٹ بھی شامل تھے مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔زندہ گیلانی سے ہمیشہ خوف کھانے والا بھارت ان کی لاش سے بھی خوفزدہ رہا اور رات کی تاریکی میں کڑے فوجی پہرے میں انہیں گھر کے قریب ہی ایک قبرستان میں سپرد خاک کرکے کشمیر کی کہانی کا آخری موڑ لکھنے کی کوشش کی گئی مگر حقیقت میںبھارت نے اس حرکت سے ایک نئی کہانی کا عنوان لکھ دیا ۔
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں