
اس کے چاروں طرف پہرہ ہے یہ دیکھو کہ انڈین سیکورٹی فورسز نے کس طرح سے اس مقبرے کا محاصرہ کررکھا ہے
گیلانی صاحب کو رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کیا گیا
ظالم کتنا بزدل ہوتا ہے کہ ہاتھ پائوں باندھ کر بھی اسے چین محسو س نہیں ہوتا
تم مجھے سولی پر چڑھادو ، ہمارے گھر جلا دو ، لیکن کشمیر کا بھارت سے الحاق میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
نہ صرف کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ حریت پسندی کی پوری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہیں
سید علی گیلانی اس صدی کے ایک ایسے ہیرو ہیں جو بار بار پیدا نہیں ہوتے ہیں
میں جب جب کشمیر جاتا تھا تو سالار حریت مرحوم سید علی شاہ گیلانی سے ملاقات سفر کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ مگر جب میںآج اس راستے سے گزرا تھواڑی دیر اس راہ کے کنارے رک گیا اور بہت دیر تک سوچتا رہا کیا گیلانی صاحب بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے اپنے کو یتیم سا محسوس کیا۔ حب آگے بڑھا تو کسی نے اشارہ کیا کہ گیلانی صاحب تو یہاں سے قریبا ایک میل کے فاصلے پر دفن ہیں۔ حب ہم قبرستان کے قریب پہنچے تو دل نے چاہا کہ گاڑی سے اتر کر اس عظیم انسان کو سلام کے ساتھ دعائے مغفرت بھی کروں لیکن گاڑی میں بیٹھے دوست نے کہا کہ یہاں رکنا مناسب نہیں کیونکہ اس کے چاروں طرف پہرہ ہے یہ دیکھو کہ انڈین سیکورٹی فورسز نے کس طرح سے اس مقبرہ کا محاصرہ کررکھا ہے۔ میں نے گاڑی کو چند لمحہ روک کر گاڑی میں بیٹھکر مغفرت کی دعا کی۔پھر اس سوچ میں پڑگیا کہ ظالم کتنا بزدل ہوتا ہے کہ کسی کے مرنے کے بعد بھی انہیں ڈر لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا اپنا ہی نظام ہے گیلانی صاحب کو جہاں دفن کیا گیا ہے یہ بھی انڈین فورسز کے لیے درد سر ہی ہے کیونکہ یہ راستہ سرینگرائیر پورٹ کو جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے مصروف رہتا ہے اس لیے اس راستے جو بھی گزرتا ہے اسکی نظر اس مرد حر کی اس ابدی قیام گاہ پر پڑتی ہے اور ان کے دونوں ہاتھ خود بخود اس جانب اٹھ جاتے ہیں اور مرد آہن کے لیے بے ساختہ ان کی زبان سے اس کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
تحریک جدو جہد آزادی کشمیر کے ایک عظیم رہنما اور سپہ سالار سید علی شاہ گیلانیؒ گرچہ یکم ستمبر2021ء رات دس بجے اس فانی دنیا سے عالم جاوداں کی جانب کوچ کرگئے۔ مگر کشمیریوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ وہ یتیم ہوگئی ۔ انکی وفات کے بعد یقینا کشمیر میں کوئی ایسالیڈر نظر نہیں آتا ہے جو ان مشکل حالات میں اس مظلوم قوم کی رہنمائی کرنے کے قابل ہو۔اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین) ۔

محترم گیلانی ؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں ‘ وہ اسلامی انقلاب اور آزادی کے نقیب‘ برصغیر کے منجھے ہوئے سیاست دان ‘ شعلہ بیان مقرر ہی نہیں بلکہ وہ موجودہ دور کے ان چند گنے چنے افراد میں سے تھے جو نہ صرف دین اسلام پر بلکہ دنیاوی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ 29 ستمبر 1929ء میں سرینگر سے پچپن میل دور مشہور و معروف جھیل ولر کے کنارے زوری منز نامی گائوںمیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گرچہ کشمیر میں ہوئی مگر اعلی تعلیم لاہور پاکستان میں حاصل کی۔ وہ گزشتہ گیارہ سال سے بھارتی ملٹری کے کڑے پہرے میں گھر کے اندر محصور و مقیدتھے۔ 5 اگست 2019ء کو جب بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ہند یونین میں تبدیل کرنے کے لیے پوری ریاست کو ایک بڑے جیل خانہ میں تبدیل کردیا۔ اس کے بعد جبکہ تمام کشمیری ایک شاک سے گزرہے تھے اور گیلانی صاحب کے چاروں طرف کا پہرہ سخت کردیا گیاتھا سوائے اہلہخانہ کے اور کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ گیلانی صاحب کے لیے جیل کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہ گذشتہ چھ دہائیوں سے بھارتی تعذیب خانوں کے ظلم و بربریت کا ہمیشہ شکار رہے ہیں۔
گیلانی صاحب اب نوے کی دہائی سے گزر ہے تھے۔مگر انکی داڑھی اور سر کے بالوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی تھی انکا چہرہ آج بھی ہشاش بشاش نظر آتا تھا۔انکا چھریرا پن ان کی سبک رفتاری اور تیزگامی میں انکا معاون رہاہے،حالانکہ وہ اپنے واحد آدھے گردے پر اپنی زندگی گزارہے تھے،لیکن اس کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے کہ کہ میں صحت کے اعتبار سے تکلیف دہ لمحات گذار رہا ہوں۔ کسی دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔
ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقت
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاو گے
گیلانی صاحب کو رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ظالم کتنا بزدل ہوتا ہے کہ ہاتھ پائوں باندھ کر بھی اسے چین محسو س نہیں ہوتا۔سید علی گیلانی کا آبائی گھر تو کئی سال قبل بم دھماکوں کے ذریعہ زمین بوس کردیا گیا تھا ۔حکومت انکے اعزاء رشتہ داروں کو گذشتہ پندرہ سالوں سے ا س طر ح ستارہی تھی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ موصوف کو تو دشمنوںنے پہلے ہی معذور بنا رکھا تھا‘ انکے مشیر پہلے ہی ان سے چھینے گئے تھے۔ لیکن اپنوں نے بھی کئی مواقع پرانکے پر نوچنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پاکستان جن کی محبت انکے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کی وہ وکالت کرتے رہے ایک زمانے میں یہاں کے حکمرانوں نے بھی بظاہر ان سے اپنی برات کا اظہار کیا ۔مشرف دور میں انکا دفتر واقعہ اسلام آباد میں بھی سربمہر کردیا گیا۔ انہیں اس سے کتنی اذیت پہنچی ہوگی اسکو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتاہے ۔
آج کے دن نہ پوچھو‘ مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بخت بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دست قاتل میں ہیں
یہ سب دراصل اس بنا پر ہو تا رہا تاکہ سید علی گیلانی کو جھکایا جائے اور وہ اپنی پالیسی میں کوئی نرم رویہ اختیار کریں مگر پاکستان اور بھارتی حکمرانوں کو غالبا اس کا علم نہیں کہ سید علی گیلانی کوئی عام طرح کے سیاست دان نہیں تھے جو وقت کے ساتھ اپنا پنترا بدلتے رہتے ہیں وہ ایک فکر ، ایک نظریہ اور ایک تحریک کے علمبرادار تھے اور جس راستے کا انہوں نے انتخاب کیا وہ تو بڑے بڑے صابر اور اولوالعزم انسانوں کا راستہ ہے۔ گیلانی صاحب سے میں نے ایک بار پوحھا کہ کیا حرج ہے اگر آپ اپنے موقف میں تھوڑی سے لچک پیدا کرتے ۔ اسلئے کہ زمینی حقائق تو اس وقت آپ کے حق میں نہیں، اور پھر پاکستان بھی ایک مخصوص نرغے میں گھیرا ہوا ہے،بین الاقوامی برادری بھی مسئلہ کشمیر کوحل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے،وادی کی صورت حال بھی دن بہ دن بدلتی جارہی ہے حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں، انکا جواب تھا کہ میں اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں ہوں، اگر یہ سب سہارے بھی ختم ہوجائیں اور پاکستان بھی اپنی حمایت واپس لے لیے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے میں نے اللہ پرتوکل کیا ہے وہی میرا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اور ہم نے کسی فر د یا کسی خاص گروہ کے لیے یہ تحریک شروع نہیں کی ہے ۔ گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے۔
اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے ۰
سیدعلی گیلانی 1965ء سے ہی گوناگوں بیماریوں اور مختلف عوارض سے نبرد آزما رہے مگر اس کے باوجود ان کا کشیدہ قامت کبھی خم ہوتے نہ دیکھا گیا، اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ ان کی ظاہری استقامت اور تیرکی طرح سیدھا جسم ان کے اندرونی پختگی، اصابت رائے اور سلامت روی کا مظہر ہے ۔
جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے قطعی طور فیصلہ کرلیا کہ کہ اپنی بقیہ زندگی اسی کے ساتھ مل کر اعلائے کلمۃاللہ کی جدوجہد میں گزاردیں گے۔ یہ عظیم کام گویا آپکا منتظر تھا آپ نے شبانہ روز محنت سے دلوں میں آزادی کی ایسی جوت جگادی کہ راکھ میں دبی ہوئی جنگاریاں سلگ اٹھیں۔ وادی کے طول و عرض میں بستی بستی اورکوچہ کوچہ گھوم کر اپنی شعلہ نوا تقریروں سے سید محترم نے نوجوانوں کے اندر اضطرا ب پیدا کردیا۔ سوپور کو سید علی گیلانی نے اہم پلیٹ فارم کے طور استعمال کیا۔یہاں کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر آپکا ساتھ دیا۔ آزادی کشمیر کا بنیادی ایندھن یہیں سے فراہم ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ منی پاکستان کہلانے والا یہ قصبہ بار بار بھارتی استعمار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوا۔
1961 سے ہی آپ حکومت وقت کے تعذیب و عقوبت کا نشانہ اور جیلوں کی زینت بنتے رہے حق گوئی اور بیباکی کے جرم میں آپ کئی بارجیل کی زینت بنے، آپ نے ہمیشہ وقت کے نمرود اور فرعون کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کی ہے یہی وجہ ہے کہ سید گیلانی کا جرات وہمت دیکھ کر وقت کے ایک کشمیری نژاد وزیراعظم مرحوم بحشی صاحب نے آپ کو خریدنے کی کوشش کی ، لیکن آپ نے اسے غیر مبہم الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا ( جسے تم خریدنا جاہتے ہو اس نے اللہ کے ساتھ سودا پہلے ہی طے کیا ہے)۔
سید علی گیلانی ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے ایک قدآور شخصیت تھے ایک صاحب وقار انسان ، عظمت اور بلندی ان سے عبارت ہے وہ اقبال کے مرد مومن کا ایک حسین اور دل آویز مرقع ہیں۔
نگہہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے۰
28اگست1962ء میں آپ کوپہلی بار گرفتار کیا گیا اس موقعہ پر آپ نے اعلان کیا کہ اگر حق کے لیے سو بار بھی گرفتار کیا جائے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ سنٹرل جیل سرینگر سیل نمبر 3 میں ڈال کر دروازہ مقفل کرنے والوں نے شاید سوچا ہو کہ حق کی آواز محبوس ہوگی مگر انہیں کیا معلوم کہ سید گیلانی کیا ہیں وہ تو اس مکتب کے استاد ہیں جہاں انہوں اپنے جیسے لاکھوں شاہین صفت شاگرد تیار کئے، وہ تو میدان عمل کے ایک مجاہد ہیں جہاں لاکھوں انکی ایک آواز پر اپنا سرجھکانے کے لیے تیار صرف اشارے کے منتظر ہیںانکے تیار کردہ شیدائی جیل کے باہر بھی بہت ہیں ،آپ زبان حال سے حکومت کو للکار رہے تھے۔
زندان کے علاوہ بھی دیوانے بہت سے
کس کس کو وہ پابستہ زنجیر کریں گے
تیرہ ماہ کی طویل اسیری کے بعد آپ ایک پختہ کار سیاسی انسان بن کر ایک بار پھر میدان میں اترے، اس دوران آپ کے والد محترم بھی اس دارفانی سے کوچ کر گئے مگر حکومت وقت نے آپ کو انکے جنازے میں شرکت کرنے کی بھی اجازت نہ دی، مگر رہا ہوتے ہی آپ نے وادی کشمیر کے طول و عرض کا طوفانی دورہ کرکے عوام کو شیخ عبداللہ مرحوم اور بخشی غلام محمد مرحوم کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔
فرد جرم
آپ پر ہمیشہ جو الزامات لگائے گئے وہ ہمیشہ ایک ہی طرح کے رہے ہیں کبھی کہا گیا کہ آپ ملک دشمن ہیں ، کبھی کہا گیا کہ آپ کا تعلق جماعت اسلامی سے ، کبھی کہا گیا کہ آپ کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ سمجھتے ہیں،کبھی یہ کہا گیا کہ آپ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے لیے لوگوں کو ابھارتے ہیں۔یہا ں پر نمونے کے لیے میں صرف چند ایک درج کرتا ہوں۔
ڈسٹرک مجسٹریت بارہ مولہ کی فائل میں لگی ہوئی ایف آئی آر کے مطابق سید علی گیلانی کے جرائم حسب ذیل ہیں۔
ؔؓؒ آپ جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے رکن ہیں جو ایک قوم دشمن جماعت ہے، آپ پارٹی کے اہم اور سرگرم رکن ہیں جن کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کو چلینج کرنا ہے ۔ آپ لوگوں اور قوم دشمن اور سماج دشمن عناصر کو تشدد کی ترغیب دیتے ہیںجس سے امن درہم برہم ہوتاہے۔آپ کے خلاف بہت سے کیس درج اور زیرسماعت ہیں۔ پھر بھی آپ قوم دشمن اور غیر قانونی حرکات سے باز نہیں آتے۔(ایف آئی آر سے)
٭ 6فروری 1985ء کو آپ نے اقبال مارکیٹ سوپور میں ایک جلسہ سے خطاب کیا جس میں آپ کو موٹر کار قوم دشمن حرکات تیز کرنے کے لیے بطور تحفہ پیش کی گئی۔ اس موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے نئے عزم کا اظہار کیا ہے اس لیے آپ کی جماعت کوئی بھی حد پار کرسکتی ہے۔ لہذا آپ کے خلاف مقدمہ علت نمبر 51سال1985ء بجرائم 13،2یوایل ایکٹ تھانہ پولیس سوپور میں رجسٹر کیا گیا۔(ایف آئی آر)
8دسمبر 1984ء کی رہائی کے بعد سوپور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئئے آپ نے اپنی گرفتاری کو غیر قانونی بتایا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ عوام کی مرضی سے حل ہونا چاہیے۔ آپ نے اس جلسے میں مقبول بٹ کو شہید کہا اور اس کی پھانسی کی مذمت کی ہے۔آپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ آپ اور آپ کی جماعت کشمیر کی آزادی کے لیے زندگیاں نچھاور کرے گی۔
حق گوئی و بیباکی
اس کے بعد درجنوں مقدمات جناب گیلانی پر قائم کئے گئے۔1985ء میں گرفتاری کے بعد رہا ہوکر آئے تو سرینگر میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے عزم کو دہرایا۔ بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کرلیا ہے اور ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ حق خودارادیت کے اس مسئلے کے حل کیلئے سیاسی انداز میں جدوجہد کی جائے۔بھارتی حکمرانوں کا مفاد بھی اسی میں ہے لیکن اگر انہوں نے مزید ٹال مٹول سے کام لیا تو کشمیری کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔
1975ء کشمیریوں کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوا جس میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے ایک رسوا کن معاہدے کے تحت کشمیری عوام کی قسمت کا سودا کرنے کی جسارت کی اور انتہائی گھٹیا اور شرمناک شرائط پر وزارت اعلی قبول کی شیخ صاحب مرحوم کی اس گھٹیا حرکت پر سید علی گیلانی کا بلند آہنگ نعرہ مستانہ ایک بار بھر بلند ہوا۔ شیخ صاحب کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ اگر گیلانی اسی طرح عوام کو للکارتے رہے، عوام کے سامنے انکے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہے تو اس کے اقتدارکو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ صورت حال کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے مرحوم شیخ صاحب نے بھارت میں نافذشدہ ایمرجنسی کو کشمیر درآمد کیا اور اسی دوران ان تمام فرزانوں کو زندان کے حوالے کردیا جو انکی نظر میں انکے لیے خطرہ کی ایک علامت تھے۔ اس نے بزعم خود تحریک آزادی کے تمام رہنمائوں کو پس دیوار زندان ڈال کر کچل دیا تھا ، مگر کوئی دیوار زندان،کوئی زنجیر اور کوئی ہتھکڑی اس آواز کو ختم نہ کرسکی۔جو عوام کے دل کی ترجمان تھی۔حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ جس شخص کو انہوں نے جیل میں ڈالا ہے وہ باہر سے زیادہ اندر خطرناک ثابت ہوا ہے چنانچہ ایک بار بھر انہیں رہا کردیا گیا۔
1979مرحوم بھٹو کی پھانسی کے بعد کا دور اگرچہ پوری وادی میں دین پسند طبقے کے لیے ایک ابتلاء و آزمائش کا دور ثابت ہوا مگر جماعت اسلامی کے لیے یہ ایک بہت ہی زیادہ خطرناک دور تھا انکی کروڑوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کردی گئیں، عمارتیںنذرآتش کردی گئیں، باغات کاٹے گئے ۔۔۔لیکن سید علی گیلانی اس وقت بھی بستی بستی اور قریہ قریہ جاکر عوام کے حوصلے بلند کرتے رہے کہ ان حالات سے دل برداشتہ یا پست ہمت ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور انہیں حوصلہ دیاکہ ان قربانیوں سے بہت جلد انقلاب کی صبح طلوع ہوگی۔
ظلم ڈھانے والے چاہیے افراد ہوں یا حکومتیں انہیں شاید معلوم نہ ہو کہ ہر بوسیدہ نظام جو کھوکھلی قیادت کے سہارے چل رہا ہو اعلی اصول و مقاصد اخلاقی معیارات اور تہذیب سے محروم ہو، وہ اصلاح اور تعمیر کے آگے ٹھہرنہیں سکتا۔انہوں نے جس قیادت کو ختم کرنا چاہاتھا وہ پوری قوت سے میدان میں کھڑی رہتی ہے۔سید علی گیلانی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ جب اور جس وقت انہیں موقع ملا انہوں نے کشمیریوں کی ہر وقت وکالت کی ہے مجھے انکی وہ تقاریر اور خطبے یاد ہیں جو بالکل موضوع کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھیں مگرہر موضوع کے اختتام پروہ ضرور اپنی مظلوم قوم کے حق میں اپنی آواز بلند کرنے سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے دیتے تھے۔
اعلان جنگ
مجھے پوری طرح یاد ہے کہ مئی 1980 جمعہ المبارک کا دن تھا اور میں سوپور کے ایک مقامی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ آزادی کے حق میں آواز اٹھانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارے تھے اسی دوران سوپور کا ایک نوجوان بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا تھا، معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب حج کرکے واپس آگئے ہیں اور جامع مسجد سوپور میں انکا خطاب ہے، اللہ تعالی نے گیلانی صاحب کو ایک فصیح و بلیغ انداز بیان سے نوازا تھا اور جب بولتے تھے تو روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے اختتام تک ایک ہی طرز میں اپنی تقریر ختم کردیتے تھے دور دراز سے لوگ آپ کی تقریر سننے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ یہ تقریر دراصل بھارت کی بالادستی کے خلاف ایک کھلا اعلان جنگ تھا۔
وقت کے لیڈر نے عوام سے کہہ دیا کہ وہ اب بیلٹ کے بجائے بلٹ پر انحصار کریں۔ حکومت وقت کی نظریں مسلسل سید علی گیلانی پر لگی ہوئیں تھیں۔ چنانچہ ان کی شعلہ نوائی اور باغیانہ انداز کو وہ کیسے برداشت کرلیتے۔ اس لیے ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور انہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔رہائی کے فورا بعد آپ نے سرینگر میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ’’تم مجھے سولی پر چڑھادو ، ہمارے گھر جلا دو ، لیکن کشمیر کا بھارت سے الحاق میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا۔
13اکتوبر1983ء کو آپ نے سرینگر میں جس تاریخی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس کے تذکرے کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ آپ نے الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
الیکشن استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ یہ محض ایک انتظامی مسئلہ ہے ، جہاںتک عوام کے مستقبل کا تعلق ہے تو اس کیلئے رائے شماری کا ایک واضح طریقہ موجود ہے ۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست کے عوام سے پوچھا جائے ۔ اگر لوگ ہندوستان کے حق میں ہی رائے کا اظہار کریں گے تو وہ بھی ساری دنیا کے سامنے آئے گا اور اگر بھارت کو کشمیریوں کے جذبات کی ایسی روش پر اعتماد ہے تو وہ استصواب رائے کے مطالبے سے کیوں سیخ پا ہوجاتا ہے‘۔
سید علی گیلانی نہ صرف کشمیریوں کی حقوق کے لیے جدجہد کے لیے سرگرم رہے بلکہ امت مسلمہ کا درد آپ کے دل میں ہمیشہ موجود تھا یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال پر وہ انتہائی رنجیدہ تھے اامریکہ اور اسکے اتحادیوںپر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔ یہ صورت حال پوری ملت کے لیے بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے اور دنیا کے ہر ملک میں آباد ہونے والی ملت ، عالمی سطح پر پیدا ہوجانے والی صورتحال میں کوئی مشترکہ موقف اختیار کرسکنے کے قابل نہ ہو اور دنیا کے دوسرے ممالک ان کو اپنے Dictation پر عمل کرنے پر مجبور کریں درآغا لانکہ ان کے پاس بے پناہ مادی اور افرادی قوت اور تیل اور معدنیات کی دولت ہے۔ اہم ترین جغرفیائی پوزیشن اور حیثیت ہونے کے باوجود پھر بھی اپنا وزن محسوس نہ کرواسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سارے مسلم ممالک کی حکومتیں استعماری قوتوں کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہیں‘ معاشی لحاظ سے کمزور اور بین الاقوامی اداروں کے قرض پر انحصار رکھتی ہیں۔ نظریاتی لحاظ سے اسلام کے ہدایت بخش نظام سے ذہنی اور عملی طور پرکٹ کررہ گئے ہیں۔ باطل اور غیر اسلامی نظریات سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ اکثرو بیشتر مسلم ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے علی الرغم چل رہی ہیں۔ وہ محض حکومتی ذرائع اور وسائل کی بنیاد پر عوام پر سوار ہیں۔ ان کے اور عوام کے درمیان کوئی ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہے۔
9/11 ستمبر کے خونین واقعات کے بعد پیدا ہوجانے والی صورت حال نے امت مسلمہ کے اس زوال اور فکر و عمل کے انتشار کو اور زیادہ واضح کردیا ہے۔ سید فرماتے ہیں کہ طاقت کا بے جا استعمال جیسے11 ستمبر کے واقعہ میں قابل مذمت اور خلاف انسانیت و اخلاق تھا۔ برابر اسی طرح ۸ اکتوبر2001ء کے ہوائی حملوں کو بھی دہشت گردی کے بغیر کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی یکطرفہ کاروائی کی اگر پوری دنیا بھی حمایت کرے تو اس کی بنیاد پر اس کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔

افغانستان کے ضمن میں پاکستانی موقف اور عوام الناس کے جذبات کی جس طرح ترجمانی سید علی گیلانی کرتے رہے میرے خیال میں خود پاکستانی حکمران بھی اسطرح اپنے ملک کا دفاع کرنے سے معذور نظر آرہے تھے۔ سید علی گیلانی نے بہ بانگ دہل کہا کہ امریکہ پر انحصار رکھتے ہوئے اس مسئلے کے دائمی پائیدار حل کی امید رکھنا60 سالہ تجربات کی بنیاد پر خیال خام ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان نے سیٹواور سینٹو میں امریکہ کا حلیف بن کر روسی استعمار کو اپنے خلاف کرلیا۔ اور اس نے ویٹو کا استعمال کرکے مسئلہ کشمیر کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سویت یونین نے بھارت کے جابرانہ اور ظالمانہ قبضہ کو جس طرح Legetimacy عطا کردی ہے۔ امریکہ نے کبھی اس طرح کی جرائت مندی کا اظہار کرکے پاکستان کے جائز اور مبنی بر صداقت موقف کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ اس کو ہر مرحلے پر اپنی قومی ، معاشی اور سیاسی مفادات کا ہی خیال رہا۔ اس نے کبھی مسئلہ کشمیر کو تاریخی شواہد حق و صداقت اور جموں و کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت کی عظیم اور بے مثال قربانیوں کی بنیاد پر اپنا اثررسوخ استعمال کرکے اس کے دائمی اور پائیدار حل میں مدد دینے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ آج جب کہ وہ دہشت گردی کا بزعم خویش افغانستان کو مجرم قرار دے رہا ہے اور اس کو اپنی طاقت کا مزہ چکھا نے میں پاکستان کے شانوں پر سوار ہوکر تاخت و تاراج کرنے کی کوششوں میں نہ صرف خود بلکہ پوری دنیا کو اپنی پشت پر کھڑا کردینا چاہتا ہے وہ کیسے چاہیے گا کہ مسئلہ کشمیر اس کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں حل ہوکر برصغیر ہند و پاک میں تعلقات استوار ہوجائیں۰۰۰۰۰۰ وہ تو اب بھی اس مسئلے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہیگا۔ پاکستان سے بھی اور بھارت سے بھی اس کے حوالے سے اپنے عزائم کی تکمیل چاہیے گا۔
سید علی گیلانی کی دوراندیشی داد دینے کے قابل ہے انہوں اسی موقعہ پر کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں تربیتی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ کررہا ہے اور اس کے نزدیک یہ دہشت گردی کی تربیت گاہیں ہیں۔کل کو امریکہ پاکستان سے کہئے گا کہ جموں و کشمیر کے آزاد حصے میں آزادی کی سرگرمیاں ختم کردی جائیں ، کیونکہ وہ بھارت کو بھی راحت پہنچانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت اس کے لیے تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے ۔مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کو سدراہ قرار دیکر مذاکرات کے ذریعہ اس کو حل کروانے میں مدد کرنے کا وعدہ کرے گا ۔ آج گیلانی صاحب کی یہ باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ سید علی گیلانی نہ صرف کشمیر بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک دردمند دل رکھتے تھے انہوںنے چیچنیا، بوسنیا،فلسطین، سوڈان وغیر ان تمام مملک کے حق میں ہمیشہ اپنی آواز بلند کی جنہیں غیروں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔
الیکشن کا آخری معرکہ
جناب گیلانی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اور کشمیریوں کو انکے حقوق دلوانے کے لیے ہر طرح کے طریقے اختیار کئے۔1987ء میں جب ایک بار پھر الیکشن کا بگل بجا تو آپ نے اپنی شبانہ روز محنتوں سے ریاست کی اسلام پسند جماعتوں اور تحریک آزادی سے متعلق گروپوں کو مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اس اتحاد نے بھارتی سامراج کی نیدیں اچاٹ کرکے رکھ دیں۔ جب بھارت پہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ مسلم متحدہ محاذ بھاری اکثریت سے جیت جائے گا۔ اس کی جیت کے نتیجہ میں کیا ہونے والا ہے‘ اس سوال کا جواب بھی بھارتی استعمار کو نوشتہ دیوار کی طرح سامنے نظر آرہا تھا۔ انتخابات ہوئے لیکن بھارت سرکار اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے رسوائی سے بچنے کے لیے وہ شرمناک دھاندلی کی کہ شیطان بھی شرماکررہ گیا۔ نتائج کے اعلان سے قبل ہی محاذ کے تمام اہم رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے باوجود بھارت کے حکمران عوامی جوش و جذبے اور زبردست قوت کی وجہ سے سید علی گیلانی کو نہ ہراسکی۔ صاف نظر آتا تھا کہ کشمیر میں ووٹ کے محاذ پر یہ آخری معرکہ تھا۔ اس کے بعد بلٹ کا دور شروع ہوگیا جو فطری طور کے راستے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
تاریخی خطاب
سید علی گیلانی اس کے بعد پھر میدان میں آئے اور عوام الناس سے کہہ دیا کہ اب یہ دور ختم ہوچکا ہے ہم نے اسمبلی میں دیکھا، انتخابات اور پرامن ذرائع سے بھی ہم اپنی بات نہیں منواسکے۔ بیلٹ کا دور ختم ہوگیا۔ چونکہ نوجوان بھی بے قابو ہوچکے تھے ۔ عوام بھی بھارت اور کشمیری حکمران طبقے سے نالاں تھا۔ اس موقعہ پر سوپور میں ایک جم غفیر کے سامنے تقریر کرتے ہوئے آپ نے ملت اسلامیہ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ، آپ کب تک صابروں میں شمار ہوتے رہیں گے۔ یہ فلک بوس سینما ہال، یہ عریاں رقص و سرود کی محفلیں، تمہاری تہذیب و روایات تم سے چھینی جارہی ہے۔ نوجوانوں کی روح کس نے قبض کرلی ہے۔ تمہیں کب تک اپنی کرسیوں کے لیے گولیاں کھانے اور قربانیاں دینے کے لیے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ کیا آپ میں مومنانہ بے تیغ لڑے کا جذبہ اور عزم ختم ہوگیا ہے۔ یاد رکھیے کہ’’ غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے کہ آدمی آزادی اور اسلام کی خاطر ایک دن کی زندگی قبول کرے،،۔
آپ نے ایک طرف تو کشمیری نوجوانوں کو مزاحمت کے لیے تیار کیا اور جدوجہد میں مصروف تنظیموں کو باہم متحد کرکے بھارت کے خلاف کھڑا کردیا۔ دوسری جانب جدو جہد کی حمایت اور سیاسی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے تحریک حریت کشمیر کے نام سے ایک اتحاد کو منظم کیا۔ مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی اتحاد کی پوری قیادت کو حوالہ زندان کردیا گیا اور حکومت وقت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اس نومولود اتحاد کوبکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جسکی بنا پر یہ نومولود اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد ایک اور اتحاد قائم ہوا جو کہ حریت کانفرنس کے نام سے کشمیر کی سرزمین اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا مگر دشمنوں نے اس اتحاد سے بھی خوف کھایا اور یہ بھی پارہ پارہ ہوگیا۔
گویا سید گیلانی نے راہ حق میں عمر قید سے بھی زیادہ مدت جیل کی بلند و بالا اور آہنی زنجیروں اور کنکریٹ دیواروں کے پیچھے گزار دی۔ بار بار آپ کو نعرہ حق ، حق خودارادیت سے باز رہنے کے لیے مختلف قسم کی پیش کش بھی کی گئیں‘ مگر آپ نے ان تمام ترغیبات کو پائے استحقاق سے ٹھکرا دیا ۔
ریاست جموں و کشمیر کی حدتک شیخ محمد عبداللہ مرحوم کے بعد اگر کوئی فرد اٹھا تو وہ سید گیلانی ہی ہیں جن کے عزم و ہمت کو کوئی توڑ نہ سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے انکو نہ پہچانا بلکہ انہیں اپنوں کے طنزوں و تیروں کا نشانہ بننا پڑا۔ گیلانی صاحب کی بہت سی باتوں سے اختلاف ممکن ہے۔ مگر انکی استقامت اور پامردی قابل داد ہے۔ وہ مشرف کے تیار کردہ فارمولے کو مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل تصور نہیں کرتے ۔غالبا وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح سے مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل بھی ممکن نہیں‘ بلکہ اس سے ہمارا کیس مزید کمزور ہوگا اور ہم ایک ہزار سال پیچھے چلے جائیں گے۔ آپ نے بھارتی سامراج کے خون آشام اور جبری ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جس جرات و بے باکی اور عزیمت و استقامت کے انمٹ اور درخشاں نقوش چھوڑے ہیں وہ نہ صرف کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ حریت پسندی کی پوری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ برصغیر کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے اس نابغہ روزگار شخصیت کا اپنی شاہ سرخیوں جگہ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ موصوف جیل کے اندر بھی اپنی قوم اور وطن کی آزادی کے لیے لڑتے رہے اور مسلسل اپنے قلم سے اپنی جدوجہدد جاری رکھی۔ کشمیر کے ضمن میں انہوں نے کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ جن میں قصہ درد اور انکی آپ بیتی ولر کنار کے تین حصے قدرے زیادہ مشہور ہیں۔ آج جبکہ وہ ہم میں نہیں ہیں مگر انہوں نے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ مگر میں نے اپنی زندگی اسلام کی بالادستی اورمسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وقف کی تھی ۔آپ بھی اس مشن کے ساتھ پیوستہ رہیں ۔جو تھک چکے ہیں وہ بیٹھیں ،آرام کریں لیکن قوم کو غلامی کی زندگی گذارنے پر آمادہ نہ کریں ‘‘ “