
ایک بحر بیکراں جو بے حسی کی چٹانوں سے ٹکراتا رہا ،کلمہ حق کہتا رہا آزادی کے گیت گاتا رہا
کشمیر کب آزاد ہوگا؟فرمایا ’’یہ تو میرے رب کا وعدہ ہے ہمیں جد وجہد کرنی ہے جب وہ ہم سے راضی ہوگا تب ضرور ملے گی
ان کا عزم فولادی تھا ،ان کا حوصلہ ہمالیہ برابر،ان کا صبر بے مثال اور ان کی جد وجہد تاریخ ساز تھی
سید علی گیلانی اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ بے شک ان سے کہے گا’’well done Mr. Geelani ‘‘ہم سے اگر رب نے پوچھا توہم کیا جواب دیں گے
زبان لڑکھڑاتی ہے قلم لرزتا ہے اور دل خون کے آنسو روتاہے جب سید علی گیلانیؒ کے بارے میں آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ایک بحر بیکراں جو بے حسی کی چٹانوں سے ٹکراتا رہا ،کلمہ حق کہتا رہا آزادی کے گیت گاتا رہا۔لیڈر شعور پیدا کرتا ہے آزادی کی امنگ جگاتا ہے حریت کے خواب بنتا ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے لیکن امید کے دئے جلائے رکھتا ہے۔
اس مرد حُر کی آواز پہلی مرتبہ 1991 ء میںسنی جب ایک پریس کانفرنس میں وہ سری نگر سے فون پر صحافیوں سے مخاطب ہوئے۔بیچ میں 31 برس کا سفر ہے نہ جانے کتنے لوگ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ،کتنے معتوب ہوتے پس دیوار زنداں دھکیل دئے گئے لیکن سید کی گونجدار آواز کا سحر آج بھی مجھے جکڑے ہوئے ہے۔سوال ہوا کشمیر کب آزاد ہوگا؟فرمایا ’’یہ تو میرے رب کا وعدہ ہے ہمیں جد وجہد کرنیہے جب وہ ہم سے راضی ہوگا تب ایک روز سورج آزادی کی نوید دے گا‘‘۔
کیا رب ہم سے راضی نہیں ہے؟بس یہی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ہے ۔ہم نے کہاں کہاں دھوکہ کھایا؟کہاں کہاںسمجھوتے کئے؟کونسی غلطیاں دہرائیں؟سید ہمیںبتاتے رہے۔ہم نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا لیکن وہ اپنا فرض ادا کرتے رہے ۔کبھی ملاقات کا شرف بھی حاصل نہ ہوسکا ۔دلی کے پاکستانی سفارت خانے میں ہم ان کے منتظر رہے لیکن بھارتی سرکار خائف رہی کہ صحافیوں سے ان کی ملاقات نہ ہو۔اس روز یقین ہو گیا کہ پاکستانی حکمران جتنی چاہیں چھلانگیں لگا لیں سید علی گیلانی کی قیادت میں کشمیریوں کو شامل کئے بغیر آزادی ممکن نہیں۔

کیا وہ نیلسن منڈیلا تھے ؟قید و بند کے ماہ و سال شمار کریں تو دورانیہ افریقی رہنما سے کہیں زیادہ ہے ۔وہ برماکی آنگ سان سوچی سے بھی قد آور شخصیت کے مالک تھے۔افریقی راہنما وں یا برماکی خاتون حریت پسند، دونوں کو عالمی حمایت اور مدد حاصل رہی۔ذرائع ابلاغ ان کے گن گاتے رہے ۔عالمی فورمز پر ان کے لیے آواز بلند ہوتی رہی لیکن سید علی گیلانی وہ راہنما ہیں جس کا اللہ اور کشمیری عوام کے سوا کوئی نہیںتھا۔وہ تن تنہا یہ لڑائی لڑتے رہے۔عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی حقوق البشر کے ادارے ان کے حوالے سے تعصب برتتے رہے۔اس لئے وہ بڑے لیڈر تھے۔انسانی حقوق کے اداروں سے بھی بڑے۔اقوام متحدہ کے نام نہاد حقوق اصولوں اور قراردادوں سے بھی بڑے۔
حریت فکر کے سب سے بڑے علمبردار اور دنیا کی سب سے بڑی وحشی فوج کے سامنے سینہ سپر ۔ان کا عزم فولادی تھا ،ان کا حوصلہ ہمالیہ برابر،ان کا صبر بے مثال اور ان کی جد وجہد تاریخ ساز تھی۔کیا ہم نے سید علی گیلانی سے وفاکی؟یہ بہت تلخ سوال ہے ۔اس کا جواب اس سے بھی زیادہ کڑواہے۔ہم نے انہیں مقتل میں بے سہارا چھوڑا۔ہم نے انہیں درندوں کے سامنے کھڑا کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے۔دراصل ہم نے سید علی گیلانی نہیں پوری کشمیری قوم سے عہد و پیماں کئے۔عہد کیا تھا؟پیمان یہ تھا کہ آپ ہماری شہ رگ ہیں اور اس پر ہم کسی کو نوک خنجر نہیںرکھنے دیںگے۔ہم لڑیں گے آپ کو آزاد کرائیںگے۔بے وفائی یہ ہے کہ ہم کشمیریوں کو بار بار ابھارتے رہے ۔جب وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوئے تو ہم پیچھے ہٹ جاتے۔یہ کھیل تماشا 75 سال سے جاری ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ کشمیریوں کے اعصاب ٹوٹنے لگے ہیں ان کی ہمت جواب دینے لگی ہے۔لوگ اس قبضے کوہی بھولنے لگے ہیں آج کے بچے یہ بھی نہیں جانتے کہ بھارت نے تقسیم ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ممکن ہے چند برس بعد ہمارے یہ بچے کشمیر کو بھارت کا ہی حصہ شمار کرنے لگیں۔

حال ہی میں کیرن سیکٹر میں مجھے سفر کے دوران یہ حیران کن منظر دیکھنے کو ملا کہ دریا پار سو میٹر دور بھارت کے پرچم لہرا رہے ہیں ۔یہ ترنگا ہمارا منہ چڑارہا ہے ۔بھارت کو یہ حوصلہ کیسے ملا کہ وہ سیز فائر لائن پر کشمیرکو اپنا حصہ قرار دے کر ترنگا لہرائے ۔کیا ہم حالت امن میں ہیں ؟کیا ہم نے کشمیر کو بھارت کا حصہ قبول کرلیا ہے ؟لوگ یہاں اپنی گاڑیاں روک کر تصویر کشی کرتے ہیںاور نفسیاتی طور پر کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔یہ تبدیلی اور تغیر ہے ہم نے اسی سیز فائر لائن پر گولہ باری سے گھر اجڑتے دیکھے خود کئی بار فائرنگ کی زد میں آئے لیکن بھارتیوں کو اس خونی لکیر سے اتنا دور رکھا کہ ہمیں کبھی ان کی صورتیں نظر نہ آئیں۔آج وہ اس مقام پر جھنڈے لہراتے ہیںکہیں چھتوں پر نعرے لکھتے ہیں’’ہندی ہیں ہم ہندوستان ہے ہماراوطن‘‘

میں نے پاکستانی میڈیا میں اس ایشو پر کوئی شور ہنگامہ نہیںدیکھا ہم داخلی سیاست کے بکھیڑوں میں یہ بھول گئے کہ ایک بچہ برہان وانی پوری قوم کو جگا کے ابدی نیند سوگیا ۔اس جیسے ہزاروں نوجوانوں کے لہو کو ہم بحر ہند کے پانیوں کی نذر کررہے ہیں۔سید علی گیلانی اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ بے شک ان سے کہے گاwell done Mr. Geelani ہم سے اگر رب نے پوچھا توہم کیا جواب دیں گے یہی کہ ہم پانچ فروری کو یوم کشمیر مناتے تھے؟
٭٭٭
جناب حمید اللہ عابد پاکستان کے معروف صحافی ،دانشور اور ماہر ابلاغ ہیں۔اسلام آباد میں اس وقت این ٹی وی جاپان کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔مقامی اور عالمی سطح کے اخبارات اور جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ انہوں نے خصوصی طور پریہ تحریرکشمیر الیوم کیلئے لکھی ہے