آغا شورشؔ کشمیریؒ نے ایک موقعہ پر سید مودودی ؒکو ایک نہایت ہی جذباتی خط لکھا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا میں لوگوں کی اکثریت حق کا ساتھ دینے کے بجائے باطل کے ساتھ ہی کھڑی ہوجاتی ہے اور یوں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے‘‘۔ شورش کشمیری کے خط کا جواب مولانا ؒ نے کچھ یوں دیا ’’حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ہے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے۔ جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہو جائے۔۔ تب بھی وہ حق ہی ہے؛ کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے، دنیا کا ماننا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔۔ دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے۔۔ بلکہ ناکام وہ دنیا ہے۔۔ جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا…ناکام وہ قوم ہوئی۔۔ جس نے انھیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے۔۔ جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں۔۔ اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں۔۔لیکن لوگوں کا رد و قبول ھر گز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔۔لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے۔۔تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہے “
سید علی گیلانیؒ نے سید مودودی کی حق کی اس تشریح کومن و عن نہ صرف قبول کیا بلکہ زندگی کی آخری سانس تک اس پر ڈٹے رہے اور الحمد للہ کا میاب ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ا نہوں نے پوری زندگی سختیاں، جیل،تشدد اسی امید میں برداشت کیں کہ حق کا بول بالا ہوگا اور ریاست جموں و کشمیر غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوگی۔ وہ ایک پرعزم، پروقار اور ایک موقف پر ڈٹے رہنے والے قائد تھے۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزرا جبکہ زندگی کے آخری 11 برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہے۔دوران اسیری انہیں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوئے ۔ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔لیکن کبھی بھی باطل قوتوں سے رحم کی بھیک نہ مانگی۔ بقول نعیمہ مہجور جس طرح ان کی زندگی گذشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر حاوی رہی اس سے زیادہ ان کی موت اگلے دسیوں دہائیوں تک پورے بر صغیر پر حاوی رہے گی۔سید گیلانی ؒ جیسا میں خود انہیں بہت قریب سے جانتا ہوں ۔وہ کبھی بھی کسی کی طاقت یا شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔پرائے تو پرائے اپنے بھی کبھی کبھار ان سے خائف رہتے تھے لیکن وہ جسے حق سمجھتے تھے اس پر ڈٹ جاتے تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق پاکستان جس کے ساتھ وہ رائے شماری کی بنیاد پر ریاست کا الحاق کرنے کے حق میں تھے،کی طرف سے بھی اگر وہ اسلام اور تحریک آزادی کے حوالے سے کوئی غلط اقدام دیکھتے تو کھلے عام اس کی سرزنش کرتے۔ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ ان کے کہنے یا ان کے مشورے پر وہ شاید کسی وقت اپنے موقف میں لچک بھی لا سکتے ہیں لیکن ان کی یہ سوچ وقت اور تاریخ نے غلط ثابت کی۔ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں پر واضح کردیا کہ بش ،بلیر اور شیراک کی کہانیاں کسی اور کو سناو ،ہم نے اپنا سودا اللہ کے ساتھ کیا ہے ۔اور پھر وہی ہوا۔بش ،بلیر اور شیراک پر ایمان لانے والے نشان عبرت بن گئے ۔اور سید ؒ سرخ رو ہوکر حق کی علامت بن گئے ۔
وہ مایوس انسان نہیں تھے ۔حق کی خاطر جدوجہد کی اور اسی حق کے راستے میں جاں جاں آفرین کے سپرد کردی ۔وہؒ سید تھے ۔سید مودودیؒ کے شاگرد اور امام عالی مقام امام حسین ؓ کے مشن کے راہی ۔ان کے بے جان لاشے کے ساتھ جو سلوک ہوا ،اس نے امام عالی مقام ؓ کی یاد تازہ کی ۔یزیدوں اور کوفیوںکا چہرہ بے نقاب کیا اور اس حقیقت کی واشگاف اندازمیں تصدیق کی کہ۔۔۔ جس طرح ان کی زندگی گذشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر حاوی رہی اس سے زیادہ ان کی موت اگلے دسیوں دہائیوں تک پورے بر صغیر پر حاوی رہے گی ۔۔وہ زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے ۔ان شا ء اللہ
٭٭٭