امام گیلانی ؒ کا ایک تاریخی خطاب

اویس بلال

مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظالم وسفاک اور مجرمانہ ذہنیت کا مالک مودی جو کچھ آج بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے اس کی پیش گوئی تحریک آزادی کشمیر کے قائد سید علی گیلانیؒ کئی سال پہلے کر چکے ہیں۔ سید علی گیلانی ؒ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے مزموم بھارتی اقدامات کی پیشگی نشاندہی بھی کی تھی کہ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کبھی بھی مسلمانوں کا بھارت میں ان کا وجود اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے طور قبول نہیں کرے گی ۔ مقبوضہ کشمیر میں مزموم عزائم کے بارے میں قاید حریت سید علی گیلانی کی پیش گوئیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایک کر کے سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ برسوں پہلے ہندو توا کے اقدامات کوبے نقاب کرنے کے لئے دنیا سید علی گیلانی ؒ کے ویژن کو سلام پیش کرتی ہے ۔ سید علی گیلانی ؒ بھارتی تسلط سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کی جو امنگ روشن کی تھی اسے بھارتی بندوقوں اور گولیوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام کی بنیاد پر۔۔۔ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے کا نعرہ سید علی گیلانی نے لگایا تھا۔ اس عظیم شخصیت نے تنازعہ کشمیر پر اس مضبوط موقف کی وجہ سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ بھارتی جیلوں میں گزارا جبکہ زندگی کے آخری گیارہ برس اپنے گھر میں نظر بند ی کی حالت میں گذارے اور اسی دوران گزشتہ برس یکم ستمبر 2021 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔

سید علی گیلانی ؒکی پوری زندگی تحریک آزادی کے لیے قربانیوں سے عبارت ہے ۔طالب علمی کے زمانے سے ہی انہوں نے تحریر وتقریر کے ذریعے بھارتی غلامی اور جبر واستبداد کے خلاف آواز اٹھائی۔ مقبوضہ عوام کی اس توانا اور ترجمان آواز کوخاموش کرانے کے لئے بھارت سامراج اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے ہر ہتھکنڈہ آزمایا لیکن تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کے قائد سید علی گیلانیؒ صبر و استقامت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ بھارتی استعمار نے امام سید علی گیلانی ؒکو مسلسل نظر بند رکھ کر آخر کار ان کو شہادت کے مقام پر پہنچایا تاہم سید علی گیلانی کی تعلیمات ان کی جدوجہد، تحریریں اور تقاریر جموں وکشمیر کے عوام کے لئے مشعل راہ ہیں ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی نوجوان نسل امام سید علی گیلانی ؒ کے ادھورے مشن کی تکمیل کے لئے پر عزم ہے۔ امام گیلانی ؒ جموں کے عوام سے ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے ۔جب بھی جیل سے باہر آتے تھے تو صوبہ جموں کے دورے کا ضرور پروگرام بناتے اور یہاں کے آزادی پسند عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے انہیں حوصلہ دیتے اور ان کی جدوجہد آزادی کو سلام پیش کرتے ۔ایک ایسے ہی دورے میں ایک تاریخی خطاب کا ذکر کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں جموں کے عوام کی قربانیوں کا کتنا احساس تھا اور کس طرح وہ ان قربانیوں کی قدر کرتے تھے ۔

2003 میں حریت راہنما ایاز اکبر نے قاید تحریک سید علی گیلانی کے ہمراہ صوبہ جموں کا دورہ کیا تھا اس دوران انہوں نے سفر جموں کی روداد لکھی..من و عن پیش خدمت ہے ۔”مقبوضہ جموں کے ضلع راجوری میں اپنی تقریر کا آغاز قرآن مجید کی ان آیات مبارکہ سے کیا تھا جن میں کفار کے مقابلے میں صبر و استقامت کے دکھانے کا حکم دیا گیا ہے یہ قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ جب آپ اس کی آیات کو کسی صورتحال پر چسپاں کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جیسے یہ آیتیں ابھی ابھی نازل ہورہی ہیں۔ ہم ایک صورتحال سے دو چار ہیں جہاں پے درپے ہمیں اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ ہمیں قتل کیا جارہا ہے ہمارے مکانوں کو بلاسٹ اور نذر آتش کیا جارہا ہے، ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں،شوہروں کو باندھ کر کمروں میں بند کر کے ان کی بیویوں کی آبروریزی کی جارہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو انٹروگیشن سنٹروں میں ایسی اذیتیں دی جارہی ہیں کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ راجوری پونچھ ڈوڈہ بھدرواہ کشتواڑ تک محدود نہیں ، یہ جموں کشمیر کے چپے چپے پر ہو رہا ہے ۔ آپ لوگوں کو شکایت ہے کہ آپ پر 1947، 1965 اور 1971 میں جو زیادتیاں ہوئی ہیں یاہورہی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مشتہر نہیں ہوتیں، آپ کیا بھول گئے ہیں کہ یہاں کا پرنٹ میڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو آپ پر یہ سب مظالم ڈھارہے ہیں۔ آپ ان سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اتنا بڑا احسان کریں گے۔ دنیا کی تاریخ کا یہی تسلسل رہا ہے کہ

تاریخ پر امم کا یہ پیالہ ازلی ہے
صاحب نظر نشہء قوت ہے خطرناک

ہر دور میں چنگیزوں کے ہاتھوں حضرت انسان کی قبا چاک ہوتی رہی ہے ۔ یہ نشئہ قوت ہے جس نے بھارت کی قیادت کو دبوچ لیا ہے۔ نشئہ قوت نے ان کی انسانی قدریں پامال کردی ہیں۔ نشہء قوت نے ان کا سب کچھ ان سے چھین لیا ہے ، نصف صدی سے زائد عرصہ میں خود بھارت میں بے شمار ہزاروں مسلم کش فسادات رونما ہوئے، جن میں مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا، تاریخی بابری مسجد کو ڈھایا گیا، سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر یلغار کی گئی ،ہزاروں سکھوں کو قتل کر دیا گیااور ہزاروں کو غائب کر دیا گیا۔

میرے جموں کے مظلوم بھائیو!اس حوالے سے ہمیںسوچنا ہے کہ اس ظلم کا مقابلہ ہم کیسے کرسکتے ہیں۔اس ظلم کے خلاف ہم عرصہ دراز سے جد وجہد کررہے ہیںاور اس جد وجہد کا آغاز صوبہ جموں سے ہی ہوا ہے ۔ہماری تحریک آزادی نے جموں میں جنم لیا ہے ،پونچھ راجوری ڈوڈہ کشتواڑ بھدروہ کے لوگوں نے اس کی آبیاری کی ہے۔یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ اس تحریک آزادی کا وادی کشمیر میں جاکر سودا ہوا۔یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ایک لمحے کی سزا ہم گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے بھگت رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پاکستان کا ایک قدرتی حصہ تھا۔بھارت جس فارمولے کے تحت تقسیم ہوا اس کے مطابق ہی اس ریاست کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھالیکن ایک بڑی سازش کے تحت ایسا نہیں ہونے دیا گیاجس کی وجہ سے یہاں آج بے یقینی کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ہمارے اس وقت کے قائدین نے عوامی اکثریتی رائے کے خلاف فیصلہ کرکے ہماری ساتھ غداری کی اور لوگوں کی مرضی کے خلاف جموں و کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیاگیا۔ان پر نیشنلزم کا بھوت سوار ہوگیا تھاجس کا نیتجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں،صرف بارہ تیرہ برسوں میں اسی ہزار نوجوان شہید ہوگئے ہیں۔ہماری بستیوں کو خاکستر کردیا گیا، ہماری عزتیںاور عصمتیں پامال کی گئیں۔ہم سے سب کچھ چھین لیا گیالیکن میں آپ کو بتادوں گا کہ بھارت جموں و کشمیر کی غالب اکثریت کا حوصلہ توڑنے میںناکام ہوچکا ہے اور یہی حوصلہ ہماری کامیابی ضمانت فراہم کرتا ہے ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے یہ حوصلہ برقرار رہا تو آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بھارت ہمیںنہیں ہراسکتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کو نجات
خودی کی پرورش ولذت نمود میں

آپ نے وادی کشمیر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تکالیف اٹھائی اور بہت زیادہ ستم برداشت کئے جن کو تاریخ نے محفوظ کرلیا ہے۔حقیقت یہ ہے جب کہ تحریک آزادی نے جموں ہی میں جنم لیاپونچھ کے عوام نے اس کی آبیاری کی لیکن اس کے ساتھ فریب کاری ہوئی۔ وہی فریب 1938 ء میں ہواپھر 1947 ء میں اور آخر ی بار 1975 ء میں اس تحریک کو نیلام کیا گیا۔ہمیںغور کرنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ یہ فریب کاریاںکیونکر ہوئیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے قائدین پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا۔ہم نے کبھی جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ یہ لیڈر ہمیں کس طرف لے جارہے ہیںاور قدرت کا یہ قانون ہے کہ وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتی ہے جو خود اس کے لئے کوشش اور جد وجہد کرتا ہے ۔ہم نے ماضی میں اس معیار کو نہیں اپنایا۔ ہم نے ان حوصلوں کی حمایت نہیں کی جو اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ہمارے لئے مقرر فرمائے ہیں۔آج ہم اس کا انجام دیکھ رہے ہیں آج ہمارے سامنے پھر ایک دوراہا آن پہنچا ہے جہاں سوچ سمجھ کر فیصلہ نہیںکیاتو مستقبل میں بھی ہمیں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ہمیں ڈنکے کی چوٹ پر کہنا ہوگا کہ ہاں یہ مسلمانوں کی تحریک ہے مسلمان ہی اس کے لیے مر کٹ رہے ہیں ۔اور مسلمان ہی بھارت کی بربریت اور سفاکیت کے شکار ہورہے ہیں۔رہے جموں کشمیر میں رہنے والے غیر مسلم بھائی تو ہم ان کے جان و مال کو تحفظ دینے کے پابند ہیں۔سرن کوٹ پونچھ کے سٹیج سے میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب بھارتی فوج کا یہاں سے انخلاء ہوجائے اور ہم مکمل طور پر آزاد ہوجائیں گے تو ہمارا نظام حکومت ہمار سسٹم اور ہماری حکومت کی بھاگ ڈور اسلام کے ہاتھوں میں ہوگی اور اسلام کے ہاتھوں میں ہونے سے مراد یہ ہے یہاں کا کوئی باشندہ من مانی نہیں کرسکتا۔کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرسکتا ۔اور ہر کوکوئی شہری مقررہ حدود و قیود کی حد تک اپنی اپنی جگہ آزاد ہوگا۔اپنے غیر مسلم بھائیوں سے اپیل کروں گا کہ انہیں اسلام کے نام سے گھبرانہ نہیں چاہیے بلکہ آگے آکر ہمارا ساتھ دے کر ہمارے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے ۔ اس مرحلے پر ہمیں بحیثیت قوم متحد ہونے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اتحاد و اتفاق میں ہی ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ہمارا منتشر رہنا ہماری تحریک آزای کے لئے سم قاتل ہے۔

ہمیں 1947 ء کی تاریخ کو مد نظر رکھنا ہوگا جب صوبہ جموں میں ایک مکروہ سازش کے تحت لاکھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔میں اپنی طرف سے آپ کو یقین دلانا چا ہوں گا کہ میری رگوں میں جب تک جاں باقی ہے میں کسی کو ہرگز یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ آپ کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں سے الگ کرے یا آپ کے ساتھ کوئی امتیازی برتائو برتنے کی کوشش کرے۔میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہوں گا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر ضرور بھارت کے چنگل سے آزاد ہوگا ۔ان شااللہ

ہمیں یقین محکم کے ساتھ جد وجہد جاری رکھنی چاہیے کہ یہی ہمار ا ہتھیار ہے۔

غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صحرائے شب میں مجھکو ملے راہنما بہت
ہر ہاتھ میں ایک چراغ تھا لیکن بجھا ہوا

امام گیلانی ؒ ۔۔۔ہم سے جدا ہوئے لیکن جموں اور سری نگر کے درمیان انمٹ رشتہ قائم کرگئے،ایسا لا زوال رشتہ جسے دشمن کبھی ختم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ رشتہ سید علی گیلانیؒ نے نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا ہے ۔۔۔الحمد للہ