
امام سید علی گیلا نی ؒ ۔ ایک کارواں، ایک تحریک اور ایک نصب العین
راکھ کے ڈھیر کو آتش فشان بنانے والا سید علی گیلانی ہی تھا!!!
ایک مرد مجاہد کی طرح قلم کا ہتھیار اور بیان کی تیز دھار لئے وہ حق کے ترجمان‘ انصاف کی زبان اور مظلوموں و مقہوروں کے پشتی بان بنے رہے
تو رہ نورد شوق ہے ‘ منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے ‘ حق لا شریک
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
برصغیر ہند پاک کی تاریخ میں سید علی گیلانیؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔سید علی گیلانی ذرے کو مہتاب کرنے والی ایک کرشماتی شخصیت تھی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر آج بھی ایک آتش فشاں ہے۔ جو وقفے وقفے سے اپنا لاوا اگل رہا ہے ۔ راکھ کے اس ڈھیر کو آتش فشان بنانے والا سید علی گیلانی ہی تھا۔دشمن نے اس مرد آہن کو بار بار پس دیوار زنداں رکھ کر توڑنا چاہا لیکن ہر بار ا ن کو اس منصوبے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قدرت کاملہ نے انہیں کندن بنانے کے لئے دل ‘ سرطان و دیگر ناقابل برداشت سنگین امراض میں مبتلا کرکے آزمایشوں سے گذارا۔ زمانہ گواہ ہے کہ مرد آہن و مرد قلندر سید علی گیلانی ؒکوہ ہمالیہ سے بڑھ کر صبر و استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ایک مرد مجاہد کی طرح قلم کا ہتھیار اور بیان کی تیز دھار لئے وہ حق کے ترجمان‘ انصاف کی زبان اور مظلوموں و مقہوروں کے پشتی بان بنے رہے۔سید علی گیلانی گلی گلی‘ قریہ قریہ ‘ شہر شہر گونجنے والی مضبوط آواز حق تھی۔ ان کی آواز سے ایوان بھی لرز گئے اور دربان بھی سہم گئے ‘ بت خانوں میں بھی سناٹا چھایا اور بت پرست بھی لرزاں و ترساں رہے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی انکا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی رہبر انقلاب اور امام تھے۔ جو ہمیں عملی طور پڑھا کے گئے
یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسبان تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ‘ عدالت کا ‘ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امات کا


سید علی گیلانی اسلام کے داعی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی کے شاگرد تھے ۔ تمام باطل نظریات خاص طور پر کیمونزم‘ کیپٹل ازم‘ سکیولرازم اور لادین جمہوریت کے تباہ کن نتائج کے سامنے بندھ باندھتے رہے۔ مقبوضہ ریاست کے طول و عرض میں اقامت دین کے لئے راہ ہموار کرنے کی جدوجہد میں جماعت اسلامی کے ساتھ 51 برس تک وابستہ رہے ۔ 1953سے 2004 تک کی طویل رفاقت کے دوران جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کو منظم و مستحکم کرنے میں سید علی گیلانی کا قائدانہ اور کلیدی رول ایک سنہری باب ہے ۔ اس دوران جماعت کے منڈیٹ پر سید علی گیلانی صاحب کئی مرتبہ حلقہ سوپور سے مقبوضہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ان کی پرسوز‘ پر وقار ‘ باادب اور پر زور آواز حق سے قانون ساز اسمبلی کے در ودیوار نہ صرف مانوس ہوئے بلکہ آج بھی انکی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو بین الاقوامی قرار دادوں کی روشنی میں اجاگر کرنے‘ بھارتی نیتائوں کو اپنے کئے ہوئے وعدے یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ایک منظم ‘ مربوط اور مسلح جدوجہد کے لئے ملت کے نوجوانوں میں آزادی حاصل کرنے کی روح پھونک دی ۔ جماعت کے اکثر جلسوں ‘ جلوسوں اور اجتماعات میں یہ کہہ کر لہو گرماتے تھے کہ
جس میں نہ ہو انقلاب ‘ موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
گرم ہوجاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہاں چار سؤ و رنگ و بو
ضربت پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بت سنگین دل و آئینہ رو
قائد انقلاب سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر کے ” اقراری ملزم” نے عدالت میں حقائق اور دلائل کی بنیاد پر مقدمہ کشمیر بھی جیت لیا۔
امت مسلمہ کا درد ا ن کے دل میں ہر وقت موجزن تھا وہ اسلام ‘ آزادی اور اتحاد ملت کے نصب العین کی آبیاری کرنے اور کاروان حق کو منزل مقصود تک لے جانے کی سعی و جہد اپنی آخری سانس تک کرتے رہے۔سید علی گیلانی اور مفاد۔۔ دو متضاد چیزوں کا نام تھا۔امام گیلانی ؒ کے مقابلے میں دنیا کی ہر شئے خریدنا آسان تھا۔ دشمن اور دوست دونوں نے خریدنا چاہا لیکن سبھوں کی تجوریاں خالی (ہلکی) ثابت ہوئیں۔
سید علی گیلانیؒ خود نشان پاکستان تھے۔ وہ نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبالؒ کی اُمنگوں اور بانی جماعت اسلامی سید مودودیؒ کے مقدس مشن کے پاسبان تھے۔ گن گرج اور گولی بارود کے سائے تلے دشمن کو چارسُو للکارتے ہوئے سوز دل سے نعرہ لگایا ـ” ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے” ۔
انکا یہ سوز جگر سے بھرپور نعرہ مقبول عام ہوا۔ یہ نعرہ اتحاد ملت کی عکاسی کا ترجمان بنا۔
رابطہ عالم اسلامی کا ممبر سید علی گیلانیؒ ایک سیاسی‘ سماجی‘ دینی‘ جہادی‘ علمی اور روحانی شخصیت تھی۔آر پار ہند و پاک کے تمام چانکیائی سیاست دانوں کو سید علی گیلانیؒ کے آئینے میں اپنا عکس صاف نظر آرہا تھا۔ انکے دلائل کے سامنے ہر ایک ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ ” تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند” کے مصداق اس مرد آہن و مرد قلندر رہبر انقلاب نے احکام الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے یکم ستمبر 2021ء داعی اجل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈا لکر اس دنیائے فانی کو یہ کہتے ہوئے الوداع کیا
اسلام‘ آزادی ‘ پاک سرزمین
اسلام ‘ آزادی ‘ پاک سرزمین
حسینی انداز میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔انا للہ و انا الیہ الراجعون۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

رہبر انقلاب کے اس مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر ستم ‘ ہر قہر ‘ ہر مصیبت کوصبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کا عزم دہرانا ہی انہیںخراج عقیدت ہے ۔
ترے جانثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغبان کیسے کیسے
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس مقدس مشن کے ساتھ وفا نبھانے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین
٭٭٭