کعبہ اوّل بیت المقدس کی پکار

عروج آزاد

عرض پاک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ بیت المقدس محبت و امن کا گہوارہ جس کی طرف رخ کرکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً 17 ماہ تک نماز پڑھی اور یہی وہ مسجد اقصیٰ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تو یہ مقام آپ کی پہلی منزل بنا اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام کی امامت کروائی اس عرض پاک میں انبیاء کرام کے مزار بہت ہیں اس لیے اس کو القدس کا نام دیا گیا ہے۔القدس نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

یہودی اور عیسائی اس علاقے کو یروشلم کا نام دیتے ہیں۔بیت المقدس کی پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی اور پھر اس کے بہت عرصے بعد اپنے وقتوں میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ القدس کو مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح کیا پھر عرصہ دراز تک مسلمانوں کے پاس رہا۔

القدس کی حرمت پر لاکھوں لوگوں نے جانیں قربان کی اور مال ودولت لٹایا۔ صلیبیوں نے اس کو چھیننے کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں اور ایک مرتبہ وہ کامیاب بھی ہو گے مگر فرزند اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں زبردست معرکہ آرائی کے بعد یہاں سے نکال باہر کیا 1516ء میں فلسطین ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے حصے میں آیا پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا سلطنت عثمانیہ کے زوال کے دنوں میں صہیونی لیڈروں کا اجلاس ہوا آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید خان تھے۔یہودیوں نے فلسطین پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کے سبب اجلاس میں طے کر لیا تھا کہ فلسطین میں صہیونی ریاست تشکیل دینی ہے۔اس لیے انھوں نے مال ودولت کے ذریعے اپنا کام نکالنے کی کوشش کی۔سلطنت عثمانیہ غیر ضروری اخراجات کے سبب مقروض ہو چکی تھی۔یہودیوں نے سلطان کو پیش کش کی کہ اگر وہ فلسطین کا علاقہ ان کے حوالے کر دیں تو وہ نہ صرف یہ کہ سلطنت پر چڑھا ہوا سارا قرض چکا دیں گے بلکہ اس کے علاؤہ بھی کثیر مقدار میں سونا پیش کریں گے ۔عثمانی کسی بھی حال میں ہوں مگر ان کی رگوں میں فاتحین کا خون دوڑ رہا تھا۔سلطان عبد الحمید خان نے اپنے پاؤں کے ناخن سے مٹی کھرچی اور یہودیوں کو کورا جواب دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے۔

اگر تم اپنا سارا مال ودولت لا کر میرے قدموں میں ڈھیر کر دو تو پھر بھی میں فلسطین کی اتنی مٹی بھی نہ دوں گا۔ یہودیوں نے مایوس ہو کر کسی عالمی طاقت کو ہمنوا بنا کر اس کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔قرآن کریم کی پیشن گوئی ہے کہ یہودی کسی طاقت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں محض اپنے زور بازو پر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔اس زمانے میں پہلی جنگ عظیم جاری تھی امریکہ اور برطانیہ اتحادی طاقتوں کے سربراہ تھے۔لندن صہیونی تنظیموں کا مرکز تھا جنگ کے اختتام پر جب انفرٹکو فتح ہوئی تو یہودیوں کی دیرینہ مراد بر آئی۔قصہ مختصر جنگ عظیم میں اتحادیوں کی کامیابی کے بعد انگریز 1917 ء میں جنرل ایلن بی کی قیادت میں فلسطین میں داخل ہو گے۔9 دسمبر 1917 ء میں انہوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس دن فلسطین کی حکومت انگریزوں کے پاس آ گی یہاں سے مسلمانوں کے زوال کا دور شروع ہوا۔

فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ کیوں اور کیسے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی برادری کی مشاورت سے ہی اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین میں کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم کریں جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کردیا۔یہودیوں نے 14 مئی 1948 ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگیں چھڑ گئیں۔یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔جنگ شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر،شام لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔بیت المقدس کا مشرقی علاقہ جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سیمت مقدس مقامات ہیں،اردن کے قبضے میں تھا۔یہ صورت حال 1967 ء تک قائم رہی 1967 ء کی عرب،اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہو گیا۔مقدس مقامات پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضہ میں آگے۔یہ تاریخ بیان کرنے کا مقصد مسلمانوں کی توجہ بیت المقدس فلسطین کی طرف مبذول کروانا ہے۔ اس وقت پورے اسرائیل خصوصا القدس میں صورت حال یہ ہے کہ پوری اسرائیلی قوم مسجد اقصی کے انہدام اور وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے جنون میں پاگل ہوچکی ہے۔ ہماے ہاں جس طرح مزارات کے عرس کے لیے چندہ کرنے والے پینڈو بہروپیئے رنگین جھنڈا اٹھا کر اور سبز چادر بچھا کر ڈھول کی تھاپ پر چندہ مانگنے نکلتے ہیں اور رقص و نعروں سے عوام کے جذبات بھڑکا کر ان کی جیبوں میں نقب لگاتے ہیں اسی طرح آج اسرائیل کی سڑکوں پر ربّیوں کی مستانہ ٹولیاں گھومتی ہیں۔ ان کا ایک پسندیدہ نعرہ جو ان کے دماغی خلفشاء کی نشاندہی کرتا ہے یہ ہے “ماش……..ماش یعنی ہم اسی وقت مسیح کو چاہتے ہیں۔ ابھی، اسی لمحے اور اسی وقت اسرائیلیوں کی گندی کھوپڑی میں یہ غلیظ بخارات کیوں چڑھ گئے ہیں؟ اس کی وجہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ دراصل ان کو بہت پہلے سے اس کی امید تھی۔ ایک دعوتی کارڈ جو کتابوں کے ایک پرانے ذخیرے سے ہاتھ لگا ہے اس میں آج سے نصف صدی قبل مسیحا کے استقبال کی بات کی گئی ہے لیکن آج اسرائیل کے قیام کو 56 برس گزر جانے اور دنیا بھر میں فتنہ و فساد کی آگ لگانے کے باوجود مسیح دجال ان کو اپنا دیدار کروا کے نہیں دے رہا۔ یہود کی تمام تر کوششوں اور شیطانی تدبیروں کے باوجود اور عالم اسلام کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے کی خاموشی، جانبداری اور کلی اطاعت کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم امہ بطور خاص عراق، کشمیر، فلسطین اور دنیا کے مسلمان اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے عامۃالمسلمین میں مغرب سے نفرت، دینی رجحان اور دین کی خاطر جان دینے سے شعور میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے یہود کو حواس باختہ، برافروختہ اور مزید ظلم و تشدد اور خوفناک غیر انسانی حرکتوں پر آمادہ کر دیا ہے لیکن مسلمانوں کے قتل عام، نسل کشی، جلا وطنی، عصمت دری، بائیکاٹ، اذیت رسانی اور ہمت توڑ کر بے عزت کر دینے والے پروپیگنڈے کے باوجود وہ دیکھ رہے ہیں کہ امت کے عزم میں لچک کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ حال ہی میں انڈونیشیا میں پھانسی کی سزا سننے والے نوجوان نے جس ایمان افروز رد عمل کا اظہار کیا ہے اس کی تازہ ترین اور بہترین مثال ہے۔ اس نے خوشی میں بے خود ہوکر نعرہ تکبیر لگایا اور شہادت کی نعمت ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہود اپنی بے لگام شیطانی طاقت، بے حساب سودی سرمایہ، پہاڑوں کو ہلا دینے والی سازشیں اور قوموں کا نام مٹا دینے والی تخریب کاریاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھونک دینے کے باوجود دیکھ رہے ہیں کہ ان کے حسب منشا نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔

جاری ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ جتنا نقصان عالم اسلام کو پہنچنا چاہیے تھا نہیں پہنچ سکا اور اس کی بنیادی، ایمانی اور نظریاتی طاقت محفوظ ہے اور اگر مزید مظالم کیے گئے تو وہ ایسا رخ اختیار کرسکتی ہے جسے روکنا بزدل خارش زدہ لومڑی جیسے یہودیوں کے بس کی بات نہ ہوگی، لہذا اگر نئے عالمی نظام کو فوری طور پر اور پوری قوت سے نافذ نہ کیا گیا تو یہود کا برپاکیا ہوا نظام ہمیشہ کے لیے مر جائے گا۔

اسرائیل نے سالوں سے فلسطین پر ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس وقت صورتحال روز بروز گھمبیر ہو تی جا رہی ہے آئے دن ہزاروں بچوں،نوجوانوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کیا جا رہا ہے گھروں کو لوٹا جا رہا ہے مظالم کی انتہا ہو چکی ہے۔سر زمین فلسطین سے آواز آتی ہے،عرض پاک پکار اٹھتی ہے کہ کوئی ہے عمر ثانی،کوئی ہے دوسرا صلاح الدین ایوبی جو ہمیں یہودیوں کے چنگل سے نکال سکے،جو ہمارے دل وجان سے عزیز قبلہ اول کو ناپاک عزائم اسرائیلیوں سے چھڑا سکے؟ لیکن شاید اس پکار کو ہم سن نہیں پا رہے یا ہم دنیا کی محبت میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ اس پکار کو سننا نہیں چاہتے اور امن امن کا رٹ لگائے ہوئے ہیں

صدا دے رہا ہے میرا قبلہ اول
کہاں گے ایوبی کہاں گے عمر
تڑپتے تھے جو میری تکلیف میں
کہاں گے وہ میرے لخت جگر

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے اس کا حل ہو سکتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا اہے کہ مذاکرات میں تو دلیل سے بات کی جاتی ہے اگر متشدد یہودی دلیل کی زبان مانتے تو آج آگ و خون کا یہ کھیل فلسطین میں جاری ہی کیوں ہوتا؟اگر محض دلیلی طاقت سے حقدار کو اس کا حق مل جاتا تو دنیا میں اسلحہ ایجاد ہی نہ ہوتا۔لوگ زبان سے کہ سن کر اپنا حق وصول کر لیتے۔حقیقت یہ ہے کہ دلیل جتنی بھی سچی اور کھری ہو اس کے منوانے کے لیے طاقت ضروری ہے۔انصاف کا حصول اور حقوق کا تحفظ طاقت کا مرہون منت ہے ورنہ امن میں پولیس اور زمانہ جنگ میں فون کی ضرورت بے معنی رہ جاتی ہے۔اور اگر ہم اپنی تاریخ پر ذرا غور کریں تو ہمیں لاکھوں واقعات جہاد کے ملتے ہیں۔کیا اس وقت دلائل نہیں دیے جاتے تھے مذاکرات نہیں ہوتے تھے؟ بالکل ہوتے تھے لیکن جہاں معاملات نہ سلجھ پائیں وہاں تلوار کو اٹھانا پڑتا تھا۔مسلمان پر جہاد فرض ہے اب جہاد کے علاؤہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روش اختیار کرتے ہوئے جہاد کرنا ہے تبھی ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر سکیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب وہ منظر سامنے آنے والا ہے کہ جب ان گندے ذہنوں کے مالک یہود و نصارٰی کی مصنوعی طاقت ریزہ ریزہ ہو جائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔بس ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے ایمان کی طاقت کو اول ترجیح دیتے ہوئے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو مضبوط ترین بنا دے ایسا مضبوط کہ ہمیں جہاد کی راہ میں کوئی دنیاوی محبت روک نا پائے۔ آمین ثم آمین

٭٭٭