بے وجہ موت

دانش رفیق گجر

گائوں میں جہاں تعلیم کا فقدان تھا۔ وہاں اکثر اوقات شرطیں لگانا لوگوں کامعمول تھا۔ گائوں میں جب بھی کوئی تقریب ہوتی تو وہاں کے سرداران شرطیں لگاتے اور لوگوں کے دلوںمیں پیسوں کا لالچ ڈالتے ۔لوگ اس جوئے کے نشے کے دلدل میں بے بس ہاتھی کی طرح پھنسے جارہے تھے۔ ایک دفعہ گائوں میں شادی کی تقریب تھی۔ہر طرف جشن کا سماں تھا۔شادی میں گائوں کے پانچ سردار بھی مدعو تھے۔سرداران آئے تو لوگوں نے اُن کابھر پور استقبال کیا۔کھانے کا وقت ہو گیا۔سرداران کے لیے کھانا لایا گیا ۔میٹھے میں سوجی کاحلوہ بنا ہواتھا۔اُن میں سے ایک سردار ،سردار شہباز علی نے سوچتے ہوئے کہا :ــــــــ ’’اے گاؤں والو ! تم میں سے جو شخص ڈیڑھ کلو سوجی کابناہوا حلوہ کھائے گا ،اسے میری طرف سے 50سونے کے سکے دیے جائے گے ۔ہاںتو سرداران ! کیا کہتے ہیںآپ سب‘‘۔سب سردارا خوش ہو گئے اور ہر ایک نے اپنی طرف سے 50 ، 50 سونے کے سکوں کا اعلان کیا۔ گائوں کا دوسرا سردار ، سردار کامران نے بلند آواز میں کہا ـ:ـ’’ــــــــــہاںتو گائوں والو ! تم میں سے ہے کوئی شخص جو 250سونے کے سکے حاصل کرنا چاہے‘‘۔ سب گائوں والے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے کون آگے بڑھے گا لیکن ایک کو بھی ہمت نہ ہوئی۔گائوں کے تیسرے سردار،سردار فیضان چوہدری نے مایوس ہو کر کہا: ’’مجھے نہیں لگتا ان میں سے کوئی ہمت کرے ۔اب کچھ اور ہی سوچنا پڑے گا ،شرط کے بغیر کسی تقریب میں لطف نہیں‘‘۔اس گائوں میں ایک انتہائی خطرناک پہاڑی تھی،جس کانام ’’علی شیروالا‘‘ ڈنہ تھا ۔ یہ پہاڑی اس قدر خطر ناک تھی کہ لوگ دن کو بھی وہاںجانے سے ڈر تے تھے۔گائوں کا چوتھا سردار ،سردار دانش گجراچانک خوش ہو گیا اور بلند آواز میں صدا دی: ’’ہاں تو ہے کوئی شیر کا بچہ اس گائوں میں جو تاریک رات میں پہاڑی پر جاکے واپس آسکے ۔اگر وہ پہاڑی سے واپس آگیا تو اسے یہ جمع شدہ 250سونے کے سکے دیے جائے گے‘‘۔گائوں والے سب سوچنے لگ گئے اور سرگوشیاں کرنے لگے 250سکے،250 سکے ۔ان میں سے ایک نوجوان نے ہمت کی جس کا نام ر یحان اسلم تھا اور آگے بڑھا ۔ ’’میں اس تاریک رات میں پہاڑی پر جانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔سب انتظام ہو گئے نوجوان جانے کو تیار تھا۔ گائوں والے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اگر پہاڑی سے زندہ واپس آیا تو سونے کے سکے لے گا ناں! پہاڑی خطروں سے بھری تھی مختلف قسم کے جنگلی جانور پہاڑی پر موجود تھے۔ان میں سے پانچویں سردار ،سردار فداکاظمی نے کہا:’’لیکن ہمیں معلوم کیسے ہو گا کہ یہ نوجوان پہاڑی پر گیا بھی تھا یا نہیں‘‘ ؟

سب سرداران آپس میں مشورہ کرنے لگے اور یہ فیصلہ کیا ،کہ اس نوجوان کوجھنڈا دیا جائے اسے یہ جھنڈاپہاڑی پر لگا کر آنا ہے۔ہم صبح ہوتے ہی دیکھ آئیں گئے اگر جھنڈا پہاڑی پر موجود ہوا تو اس نوجوان کو 250 سونے کے سکے دیئے جائیں گے۔ نوجوان محفل سے پہاڑی کی جانب نکل پڑا۔ گائوں سے پہاڑی تک تین گھنٹے کا پیدل سفر تھا۔ سرداران ساری رات نوجوان کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نوجوان واپس نہ آیا۔ لوگ سوچنے لگے کہ شاید کوئی جنگلی جانور نوجوان کو کھا گیا۔ صبح ہوتے ہی تمام سرداران اور گائوں والے پہاڑی پر گئے۔ سب کے سب یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ جھنڈا تو پہاڑی پر لگا ہوا تھا لیکن نوجوان مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔ اس نوجوان نے ایک بڑی چادر پہنی ہوئی تھی۔ اور وہ چادر جھنڈے کے ڈنڈے میں پھنسی ہوئی تھی۔ سب سوچ میں پڑ گئے کہ آخر یہ شخص مرا کیسے؟ اُن لوگوں میں ایک ذہین شخص موجود تھا۔ اُس نے کہا کہ نوجوان کسی طرح پہاڑی پر تو پہنچ آیا لیکن اُس کے دل میں خوف تھا۔ جب نوجوان نے جھنڈا زمین میں گاڑھا تو اس نوجوان کی چادر کا کنارہ جھنڈے کے ڈنڈے کے ساتھ زمین میں دھنس گیا۔ جب نوجوان واپس آنے کے لیے اُٹھا تو اس کی چادر کو کھچائو لگا۔ اُس نوجوان کے دل میں خیال آیا کہ مجھے کسی چیز نے پکڑ لیا ہے۔ وہ نوجوان اس ڈر سے مر گیا۔ اس طرح پیسوں کی لالچ میں آکر نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اور اس کے دل کا ڈر اس کی موت کی وجہ بنی۔

٭٭٭