مسئلہ کشمیر اور ہمارے ادیب

ڈاکٹر طاہر مسعود

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ مرحوم کے مشہو ررسالے ترجمان القرآن کے ان دنوں عملََاکرتا دھرتا سلیم منصور خالد ہیںجو دائیں بازو کے نہایت روشن خیال دانشور اور بہت سی کتابوں کے مصنف ‘مرتب اور مولف ہیں۔ ان کی تازہ مرتبہ کتاب کشمیر پر چھپی ہے۔’’کشمیر 5 اگست 2019 کے بعد‘‘ 534 صفحات پر مشتمل اس معلومات افزا کتاب میں 66 مضامین ہیں جو ترجمان میں شائع ہوئے اور جنہیں سلیم منصور خالد نے اشاریہ کے ساتھ نہایت سلیقے سے مرتب کر کے اسے ایک قابل مطالعہ کتاب بنا دیا ہے ۔ یوں تو کتاب میں کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے تازہ ترین پہلوئوں پر ہر طرح تجزیاتی اور مطالعاتی مضامین شامل ہیں لیکن سلیم منصور صاحب نے اس خاکسار کو کتاب بھجواتے ہوئے اس کے چند صفحات کی نشان دہی اس ہدایات کے ساتھ کی کہ انہیں ضرور پڑھیں اور جب میں نے ان صفحوں کو پلٹا تو گہری سوچ میں پڑ گیا۔

اس کالم کا موضوع ہی چند صفحات ہیں جن میں اس سوال سے بحث کی گئی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ادیب ‘ شاعر اور دانشور حضرات مسئلہ کشمیر سے لا تعلق اور بیگانہ ہیں۔ اس لا تعلقی اور بیگانگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے مضمون میں اشفاق احمد کے ایک دل دہلانے دینے والے افسانے کا حوالہ دیا ہے۔ افسانہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ایک مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اردو کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے پاس باری باری جاتی ہے اور ان سب سے کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا تذکرہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اس مسئلے پر قلم اٹھائیں لیکن ہر ادیب شاعر کوئی نہ کوئی وجہ بیان کر کے اس انسانی مسئلے سے پہلو تہی کرتا ہے۔ مثلا کوئی ادیب کہتا ہے ’’میں انسان دوستی پر یقین رکھتا ہوں اور سیاسی مسئلے مسائل پر نہیں لکھتا ۔‘‘ کوئی جواز پیش کرتا ہے میں ساختیات اور علم عروض کا آدمی ہوں۔مسئلہ کشمیر سے میرا کیا تعلق؟ شازیہ ادیبوں و شاعروں سے مایوس ہو کر فلم سازوں کے پاس جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے پر فلم بناکر قومی اور عالمی ضمیرکو جھنجوڑیں لیکن وہاں سے بھی اسے ٹکا سا جواب مل جاتاہے ۔آخر میں شاز یہ افسانے کے واحد متکلم یا افسانہ نگار اشفاق احمد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے ’’آپ کو تو اس بات کا خوف نہیں ہے انکل کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانیوں کے حق میں کچھ لکھا تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے؟ آپ کو تنگ نظر‘ کوتاہ بیں‘ ‘ قدامت پسند اور بنیاد پرست کہہ کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کردیں ؟ افسانہ تو یہاں پہنچ کرختم ہو جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ جاتاہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ادیب ہمارے دانشوار ان قومی مسائل سے جو ہمارے سلگ رہے ہیں‘ ان پر قلم نہیں اٹھاتے ۔مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ افغانستان ڈھاکہ میں پھنسے ہوئے ڈھائی لاکھ مظلوم بہاری ( پاکستانی ) ہوں یا ملک کے بے شمار زندہ مسائل ان پر ہمارے ادیب و دانش ور قلم اٹھاتے ہیں اور نہ ان پہ مختلف فورموں پہ آواز بلند کرتے ہیں ۔سلیم منصور خالد کی اس کتاب میں بھی اکثر یت ان صحافیوں‘ دانشوروں اور رہنمائوں کی ہے جو کشمیر یا بھارت سے یا مغرب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجھے جب یہ کتاب موصول ہوئی اور ساتھ میں سلیم منصور خالد کا خط کہ فلاں فلاں صفحات کو ضرور پڑھیے اور جب ان صفحوں پر میں نے یہ گلہ شکوہ پڑھا تو میں نے جواباََسلیم منصور کو صاحب کو واٹس ایپ کیا کہ اب سے کئی برس قبل جب میں بچوں کے مقبول رسالے آنکھ مچولی کا ایڈیٹرتھا تو رسالے کا کشمیر نمبر نکالا تھا جو خاصا ضخیم تھا اور جسے ایواڑ بھی ملاتھا لیکن یہ سچ ہے کہ بحیثیت کالم نگا ر یا مضمون نگار میں نے مسئلہ کشمیر پر کبھی کچھ نہیں لکھا ۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ میں اپنے دل میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے کشمیری بھائیوں نے تقسیم کے وقت پاکستان میں شمولیت کی تحریک نہ چلا کر اور قائد اعظم کی دعوت شمولیت کو شیخ عبداللہ نے ٹھکرا کر کشمیر کی غلامی پر دستخط کر دئیے تھے ۔ یہی وہ موقع تھا جس کے بارے میں شاعر نے کہاہے کہ لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزا پائی۔

اس کے جواب میں سلیم منصور خالد صاحب نے لکھا:’’بلاشبہ کشمیری بھائیوں نے بہت تاخیر کردی اور وہ زمانہ جو آزادی کی تحریکوں کا گولڈن عہد تھا،وہ معاہدہ تاشقند و شملہ اور شیخ عبداللہ کے ٹرائیکا کی نذر کردیا اور 1989 ء میں کروٹ لی تو معاملہ یہ بنا۔‘‘۔۔۔چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔۔ ایک طرف سرد جنگ ختم ہوئی تو دوسری طرف نائن الیون کا ملبہ آن گرا۔یوں لاکھوں قربانیوں کے باوجود مشق ستم طویل تر ہوتی گئی۔ہمارے مقتدر حلقوں کی بدحواسیوں اور لاپرواہیوں نے ظلم و زیادتی کی دیوار کو مضبوطی عطاکی ۔ اللہ روشنی کاروزن کھولے توکوئی بات بنے۔

سلیم خالد منصور کے اس چشم کشا جواب کے بعد مزید کچھ لکھنے کو نہیں رہا تھا لیکن یہ سوال اپنی جگہ پھر موجود ہے کہ ہمارے ادیب و شعر اء ،ہمارے ناول نگار کیوں قومی مسائل سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔فتح محمد ملک اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوراََ بعد ہندوستانی ادیبوں نے کشمیر کی بابت ہندوستانی حکومت کے نقطہ نظر کی تائید میں ایک بیان جاری کیا تھا۔ اس کے جواب میں محمد حسن عسکری ،محمد دین تاثیر ،صوفی تبسم ،فیض احمد فیض اور احمد شاہ پطرس بخاری نے پاکستانی ادیبوں کی طرف سے حکومت پاکستان کے نقطہ نظرکی حمایت میں مسئلہ کشمیر کی بابت جاری کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد حسن عسکری نے پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کا بھی اردو ادب میں ڈول ڈال رکھا تھا۔لیکن جیسے جیسے ادب پر زوال و انحطاط کی گھٹائیں چھائی گئیں ،ادیب و شعرا حضرات کی دلچسپی بھی فقط ذہنی اور جذباتی مسائل کی دنیا تک محدود ہوتی گئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ کشمیر سے تمام تر جذباتی وابستگی کے باوجود مسئلہ کشمیر کی بابت اجتماعی سطح پر ایک یخ بستگی پائی جاتی ہے۔اسکی وجہ غالباََ یہ ہے کہ بحیثیت قوم جس طرح کے گھمبیر سیاسی ،معاشی اور تہذیبی مسائل میںگھرے ہوئے ہیںاور جن بحرانوں کا ہم شکار ہوتے چلے گئے ہیں کہ ہم پہلے اپنے گھر کی فکر کریں یا دوسرے کے مسئلے میں پڑیں۔

ہر چند کہ ہمارے عوام کے دل آج بھی کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایک کشمیری ہی کیا افغانستان ،چیچنیا اور بوسنیا اور فلسطین بھی ، ان سارے خطوں کے دکھ درد میںہمارے عوام برابر کے شریک ہیں لیکن اپنی درماندگی کے باعث ہم خود اپنی پریشانیوں اور اذیتوں ہی سے نہیں نکل پاتے۔تیرہ بختی کے اس دلدل سے نجات ملے تو دور پرے کے بھائیوں کی بھی مدد کریں۔ کیونکہ اس میں کیا شبہ ہے کہ اہل وطن میں مسلم امہ کا جیسا درد پایا جاتا ہے شاید ہی کسی اور برادر اسلامی ملک میں ہو،ترکیہ اورسعودی عرب کو چھوڑ کے۔ سلیم منصور خالد کی یہ کتاب نہایت لائق مطالعہ اورسلیقے و نظم وترتیب سے مرتب کی گئی ہے جسے منشورات نے شائع کیاہے۔

بشکریہ 92نیوز

٭٭٭