ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما

عبدالہادی احمد

ہمارے ایک بھائی ضیاء قریشی نے بڑی تحقیق و جستجو سے مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کے اساتذہ اور درس گاہوں کا سراغ لگایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کسی کو بھی یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کا استاد کون تھا اور ان کا شاگرد کون ہے؟ اب کوئی ہمیں یہ بتاکر کتنا ثواب کمالے گا کہ صاحب تفہیم القرآن نے کس یونیورسٹی سے یا کون سے مدرسے سے سند فضیلت حاصل کی؟ مولانا مودودیؒ تو وہ ہستی ہیں کہ جن کا کام دنیا کی تمام نامور یونیورسٹیوں سے بڑھ کر ہے۔ ایسے لوگوں کو استادوں کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ان حضرات کے دم قدم سے اساتذہ اور درس گاہوں کو اعتبار ملتا ہے۔ کیا سید مودودیؒ کے حق میں یہی سند کافی نہیں کہ وہ اپنے دور کے ایک بہادر داعی اسلام تھے۔ پورے زمانے کے سامنے سینہ تان کر یہ کہنے کی ہمت رکھتے تھے کہ اگر تم نے اسلام کے نفاذ کی جدو جہد میں حصہ نہ لیا،تو تمہاری دیگر عبادات بھی رائیگاں جائیں گی۔ سید مودودیؒ ایک عظیم مفکّر اسلام تھے؛ یہ الگ بات کہ اپنی عظمت کے فسانے سننے سنانے سے ان کو کبھی رغبت نہیں رہی۔

میں اس مجلس میں موجود تھا کہ جب چند طلبہ نے پہلی بار ”سیدی مرشدی” کا نعرہ لگایا، تو مولانا نے ان کو سختی سے منع فرمایا۔ ہم سب جانتے ہیں ان کو تختہ دار سے واپسی کا شرف ملا،مگر کبھی بھول کر بھی کسی سے اپنی اس عظیم الشان قربانی کا تذکرہ نہ فرمایا۔ وہ تو ایک ایسے شخص کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ لیتے تھے کہ جو ان کی موجودگی میں ان پر گمراہی کے فتوے لگایا کرتا تھا۔ ایمان سے کہیے کوئی شخص جو آپ کو گالیاں دیتا ہو آپ اس کے پیچھے نماز ادا کر سکتے ہیں؟

ان کے حاسد بے شمار رہے۔لیکن مولانا مودودیؒ نے کسی کا نام تک نہیں لیا۔ بہت سے لوگوں کو مولانا مودودیؒ بننے کی آرزو بھی رہی۔ مجھے الیکشن 1970ء کے موقعے پر ایک عالم دین جناب رضوی(یہ لاہور میں قومی اسبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے) کے الفاظ کبھی نہیں بھولتے۔ انہوں نے ایک انتخابی تقریر میں فرمایا تھا۔۔”پیپلز پارٹی والوں نے آج راستے میں مجھے گھیر لیا اور ” مودودی ٹھاہ” کے نعرے لگائے۔ ارے بدبختو کیا ہوا تمہیں ۔ کیا ہم اسلام کی خدمت نہیں کرتے؟”

یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

”کئی عشرے پہلے کی بات ہے آغا باقر نامی ایک صاحب جو نوائے وقت میں کالم لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کی وفات پر ایک پورا کالم یہ بتانے کے لیے لکھا کہ جب مولانا مودودی اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامیات پڑھاتے تھے تو میں بھی وہاں استاد تھا۔ایمان سے کہیے آج کتنے لوگ آغا باقر کا نام بھی جانتے ہیں۔ حافظ شیرازی نے بھی بڑے لطیف انداز میں یہی بات کی، جب اپنا تقابل مجنوں سے کیا :

ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
اُو بہ صحرا رفت و مادر کوچہ ہا رسوا شدیم

(مدرسہ عشق میں مجنوں اور میں ہم سبق تھے۔ اس کے بعد وہ صحرا کی جانب نکل گیا اور میں گلیوں میں رسوا ہو رہا ہوں)

میرے بہت سے کم عمر بھائیوں کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ آج سے چند عشرے پہلے مولانا مودودیؒ پر فتوے لگانا فیشن تھا۔ مگر اب وہ دور ختم ہوگیا ہے، آج سے تیس چالیس برس پہلے مولانا مودودیؒ کو ضال و مضل

کہنے والا بڑا عالم کہلاتا تھا، اگرچہ دبے الفاظ میں آج بھی ان پر تنقید بلکہ ان کی تنقیص کی جاتی ہے۔ لیکن یہ دور تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب علوم دینی کی ٹکسال میں صرف مولانا مودودیؒ کا سکہ ڈھالا جایا کرے گا۔ کسی کو یاد نہ ہو گا،کون ان پر تنقید کرتا تھا، کون ان کے خلاف فتوی بازی کیا کرتا تھا، کئی شیخ الاسلاموں اور شیخ الحدیثوں کا نام بھی کسی کو یاد نہ ہو گا۔

جماعت اسلامی کے پہلے امیر کا حلف اُٹھاتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے فرمایا تھا کہ میرا دفاع کوئی بھی نہ کر ے۔وہ فرمایاکرتے تھے، میرے لیے میرا رب کافی ہے۔میں بھی اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ سید مودودیؒ کا دفاع نہ کریں۔ مولانا ؒ کے لٹریچر میں اپنا دفاع کر نے کی قوت موجود ہے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ مولاناؒ کے پیغام کو عام کریں۔ آپ دیکھ لیں گے کہ بہت جلد مولانا مودودیؒ کے مخالفین جھاگ کی طرح بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ ازلی قانون ہے کہ بقائے دوام صرف ان انسانوں کے لیے ہے جو نفع بخش ہیں۔جو نفع بخش نہیں ہیں وہ قانون الہٰی کے مطابق جھاگ کی مانند بے حقیقت ہو جائیں گے:

تو جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ سورۃ الرعد:17