غیب کا علم صرف اللہ ہی جانتا ہے

مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو ۔اور اے قوم، اگر میں ان لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟ اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔ اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔آخرکار ان لوگوں نے کہا کہ’’ اے نوح ؑ ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا ۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو‘‘ ۔نوح ؑنے جواب دیا ’’وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو ۔اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب کہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو وہی تمہارا ربّ ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو ’’ اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمّہ داری ہے ، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘

  سورہ ہود آیت نمبر30 تا35 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

اچھے اعمال کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کا انعام ہے!!!

سعید بن عبدلعزیز ،ربیعہ بن یزید ،سے وہ ابو ادریس خولانی سے ،وہ حضرت ابو ذر جندب بن جنادہ ؓسے بیان کرتے ہیں کہ نبی ؐ اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے میرے بندو !اگر تمہارے پہلے اور پچھلے ،انس و جن ،سب ایک کھلے میدان میں جمع ہوکر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق عطاکردوں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی ہوگی جتنی کمی سوئی کو سمندر میں ڈال کرنکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔ اے میرے بندو ! یقینا تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے گن کر رکھتا ہوں،پھر تمہیں ان کا پورا بدلہ دیتا ہوں ،پس جو بھلائی پائے ،وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے علاوہ پائے ،وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔‘‘ ( مسلم )

فوائد و مسائل:اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وطاقت کا بیان ہے ،اس لیے ہر چیز صرف اسی سے مانگی جائے۔انسان کے اچھے برے اعمال کا ریکارڑاللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہے اور روز قیامت وہ نوشتہ کھل کر انسان کے سامنے آجائے گا،اس لیے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ کل کو اس کا حساب دینا ہے۔اچھے اعمال کی توفیق اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ،اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جبکہ انسان بُرے اعمال اس کے نفس امارہ کے باعث سرزد ہوتے ہیں،اس لیے بُرے اعمال کے ارتکاب میں تقدیر کا سہارا لینا ناجائز ہے۔