ڈاکٹر عبدالروف
قسط نمبر 01..
نام اور معنیٰ
دجال کے لفظ کا مادہ د،ج،ل (دجل)ہے۔ لفظِ دجال اس مادے سے دَجَلَ کا فاعل اور فعّال کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔دجل میں دو معانی اپنی پوری انتہا کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
1.پہلا معنی جھوٹ، فریب، دھوکہ اور نظر بندی۔
2 جبکہ دوسرا معنی ڈھانپا، چھپانا لپیٹنا اورملمع سازی کرنا کے ہیں۔
اس اعتبار سے دجل کا معنی ہوا جھوٹ، فریب اور دولت کے ساتھ حق کو باطل سے اس طرح چھپانا کہ دیکھنے والا جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق سمجھنے لگے۔ عقل پر ایسا پردہ ڈالنا کہ غلط بات عین صحیح اور عین صحیح بات غلط لگنے لگے۔ دجل کے معانی میں سحر اور خمر سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ عقل پر باطل کی ملمع کاری کا مفہوم موجود ہے۔
دجال کے اصل نام کا کسی کو علم نہیں۔ نہ اس کا نام کسی الہامی کتاب میں ہے نہ کسی مذھب میں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں اس کا نام لیا گیا ھے۔ اس لیے کہ دجال ایک صفت ہے۔ دجال کا لغوی معنٰی ہے۔ بدرجہ اتم دجل کرنے والا۔ سب سے بڑا جھوٹا،بہت بڑا فریبی اور دھوکے باز، سب سے بڑھ کر اپنے کفر کو چھپا کر بظاہر منہ سے حق، حق الاپنے والا، حق کو باطل کے ذریعے چھپا دینے والا باطل کو اس دھوکے اور فریب کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے والا کہ لوگ اس کی زبان پر اس حد تک یقین کر لیں کہ حق کو باطل کہنے لگیں اور باطل کو حق کہنے لگیں۔ اس شدت اور مہارت کے ساتھ جھوٹ بولنے والا کہ اگر آگ کو پانی اور پانی کو آگ ثابت کرنا چاہے تو کر دے۔ اور لوگ اس کی بات کو مان لیں۔ عربی زبان میں دجال اس جوہری کو بھی کہا جاتا ہے جو جعل سازی کرے اور نقلی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اس طرح پیش کرے کہ لوگ دھوکہ کھا جائیں۔ دجال اس تلوار کو بھی کہا جاتا ہے جس پر زہر کا پانی چڑھایا گیا ہو۔
دجال کا ایک معنی میک اپ بھی ہے۔ انگلش میں میک اپ سے مراد دھوکہ اور چھپانا ہے چہرے کے عیب چھپانے کے لیے استعمال ہونے وہ کریم یا استر یا فاؤنڈیشن جو شکل کی ہیت کو بدل کر دکھائے اس کو بھی دجال کہا جاتا ہے۔ گویا لغوی تشریح سے پتا چلا کہ دجال پر دجل کی دو صفات بدرجہ اتم غالب ہیں۔ 1. جھوٹ اور 2. حق کی باطل کے ذریعے چھپانااصطلاحی معانی میں دجال ایک بڑے فتنے کا نام ہے۔ جو بدرجہ اتم،جھوٹ،باطل، فریب اور دھوکے کے ذریعے حق کو شکست دے گا۔ اور حق کو چھپائے گا، اپنی دجالی حقیقت کو چھپا کر لوگوں کا مسیحا بنے گا، لوگوں کو انسانیت پسندی، مالی مدد، ھمدردی،محبت،اور خود داری جیسے فریب دکھا کر ان کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔
یہودیوں کے ہاں اس دجال اکبر کا صفاتی نام ”یوبیل”, یا ”یوبل”یا ”ہبل” ہے جس کا معانی طاغوت،نجات دھندہ شیطان یا بت یا بڑے خدا کے ہیں۔ان کے ہاں صفاتی نام مسیاہ یا مسیحا ہے۔ یہود جس قدر اس فتنے سے مسلمانوں کو خوف زدہ دیکھتے ہیں اسی قدر یا اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ دجال کے منتظر ہیں اور کئی صدیوں سے مسلسل دجال کے لیے ساری دنیا میں راہ ہموار کر رہے ہیں۔
فتنہ دجال کی علامات کے متعلق اسلام، یہودیت، عیسائیت اور ہندوازم میں قریب قریب مشترک مواد ملتا ہے۔لیکن میرے خیال میں جس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ دجال کی حقیقت اور دجالیت کو یہودیوں نے سمجھا ہے کسی دوسرے مذہب نے نہیں سمجھا۔ اس بات کی وضاحت آگے چل کر از خود ہو جائے گی۔ہمارے ہاں کتب احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی صورت میں مسلمانوں کو فتنہء دجال سے متنبہ کیا گیا ہے۔ اور اس ضمن میں دجال کو وسیع معنوں میں بیان کرنے کے لیے مال ،تمثیلی انداز میں بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ سمجھنے والا کسی شک و شبہ میں نہیں رہتا۔اور ان علامات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اس تمثیلی انداز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور فتنہ دجال کی تباہ کاریوں کا وہ خوف رکھتا ہو جو خود دلانا اسلام کا مقصود ہے۔
تعجب ہے کہ ان احادیث صحیحہ کی پر زور اور خوفناک سراحت کے باوجود مسلمانوں کے ہاں فتنہ دجال کا خوف نہیں پایا جاتا۔ میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
مسلمان دجال کو محض ایک فرد سمجھتے ہیں۔ جو کسی کے گھر پیدا ہو گا، جوان ہو گا، اکیلا ہو گا لمبا تڑنگا ہو گا، مافوق الفطرت طور پر تخلیق کیا جائے گا۔ ماتھے پر کافر لکھا ہو گا۔ اس لیے جب تک مسلمان کوئی ایسا عجیب الخلقت کانا شخص اپنی کھلی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں، دجال کو ماننے والے نہیں۔
شاید مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ چونکہ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو اس فتنے سے متنبہ کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں اس سب کے باوجود تاحال دجال نام کا کوئی شخص دنیا میں آیا نہیں اس لیے اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دجال کا ظہور ابھی دور ہے شاید دجال سے اس بے خوفی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے آباؤ و اجداد اور علماء نے اس امت کو فتنہء دجال کے متعلق آگاہی نہیں دی۔ہمارے گھروں میں دین کے متعلق گفتگو نہیں ہوتی۔ اگرایسا ہوتا بھی ہے تو صرف چند مسلکی رسومات تک ہی محدود ہے۔۔ لیکن ہمارے جمعے کے خطبے اور دینی محافل اس کے تذکرے سے تا حال خالی ہیں۔ ہم اپنے اپنے مسالک اورفقہی اختلافات میں الجھے رہے اور دجال سے بے خبر ہو گئے۔ گویا ہمارا یہ بے خبر ہونا بھی دجال ہی کی چال تھی جس کا ہم نا دانستہ شکار ہوئے۔بہر حال وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہم مسلمان دجال اور اس کی حقیقت کو اتنا نہیں جانتے، جتنا جاننا ضروری تھا۔اب وقت کا اشد تقاضہ ہے کہ ہم خود بھی اس فتنے سے کما حقہ آگاہ ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی باقاعدہ اس کی تعلیم دیں۔
شاید دجال کے متعلق ذخیرہ احادیث کو ہم نے قرآن و سنت کے مزاج اور یہودی عادات اور تاریخی اقوام کے انداز فتن کو سامنے رکھ کر نہیں سمجھا۔ اس لیے حدیث کے مفاہیم کو کافی حد تک غلط لے لیا۔ جس سے دجال کی اصل حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی اور نتیجتاََ دجال کا وہ خوف اور ڈر ہم سے جاتا رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ہم نے دجال کو ایک فتنے سے زیادہ محض ایک ایسا شخص سمجھ لیا ہے جس کا توڑ ہم نے نہیں کرنا بلکہ یہ کام حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ذمہ ہے۔ لہٰذادجال جانے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جانیں، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس تعبیر کی غلطی نے ہمیں احادیث کے محض سطحی اور لغوی معانی تک محدود کر دیا۔اور دجالیت کا خوف دلوں سے جاتا رہا۔(جاری )
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں
مجاہدوں کو ہمارا سلام کہہ دینا
ام عبداللہ ہاشمی
ہمارا بچپن خالص جہادی ماحول میں گزرا۔ایک طرف ہمارے غازی نانا جان تھے جو اکثر گن گرج سے جہادی اور انقلابی ترانے گنگناتے ۔۔ ہمارابھی بے اختیار جی مچلتا تھاکہ ہم بھی مجاہد ہی بنیں گے۔دوسری طرف ہمارے سکول او رگھر میں مجاہد رسالہ اور جہاد کشمیر آتا تھا ۔ سلیم ناز بریلوی کے لہو گرمادینے وا لے ترانے الگ سے۔ اکثر مجاہدین گھر میں آتے جاتے تھے ۔ماموں کی وجہ سے ہم سے سوال پوچھا جاتا کہ بڑے ہوکر کیا بنیںگے۔تو ہم یہ جواب دیتے کہ مجاہد بنیںگے۔مگر نائن الیون کے بعدرفتہ رفتہ یہ ساری چیزیں اور نام متروک اور مشکوک سے ہونے لگے ۔مجاہد،جہاد اور دہشت گردی کو جوڑ دیا گیا ،امریکہ اور اس کے حواریوں نے لفظ جہاد اور مجاہد کو اتنا بدنام کردیا کہ یہ مقدس ترین نام مشکوک سے لگنے لگے۔۔۔حالانکہ ۔۔۔۔۔ہمارے دین کی بنیاد ہی جہاد ہے۔جہاد کو وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے مگر دین اسلام میں اس کا مطلب دین کی سربلندی اور اللہ کے راستے پر چلنے کا نام ہے۔جہاد کشمیر کی وہ داستانیں جب مجاہد مقبوضہ وادی سے آزاد کشمیر آتے تو برفانی راستے ،گہری گھاٹیاں ان کا راستہ روکنے اور بیچ میں لگی باڑ ان کا عزم و حوصلہ کم کرنے کی ہزار جتن کرتے مگر سلام ہے ان مجاہدوں پر کہ ان کے عزم میں ذرہ بھی لغزش نہ آئی ۔آج بھی کشمیر میں مجاہدین دیوانہ وار و پروانہ وار آزادی کی شمع پر قربان ہورہے ہیں ۔ شمشیر نہ سہی ،پتھر تو ہر جگہ موجود ہے ۔۔۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
سلام ہے ان سب مجاہدین پر جو امت مسلمہ کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں ۔
مجاہدوں کو میرا سلام ، میرا خلوص بھراسلام%٭
٭٭٭