نومبر 6، جب چناب اور توی خون سے بھر گئے

غلام اللہ کیانی

مقبوضہ جموں و کشمیر کو 5اگست2019کو دو کالونیاں بنا کر انہیں بھارت میں ضم کرنے کے بعد قابض بھارتی استعمار کی سنگین جبری پابندیوں، لاک ڈاؤن اور بدترین مظالم کے دوران آج چناب، پیر پنچال اور جموں خطوں کے ان لاکھوں شہدائے کرام کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھیں 1947میں جن سنگھی شر پسندوں نے ڈوگرہ حکمرانوں کی ہدایت پر قتل عام کے دوران تہہ تیغ کیا ،جب چناب اور توی دریا مسلمانوں کے خون سے بھر گئے۔آج مقبوضہ ریاست اور بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں آزادی پسندوں کے ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں ، قید و بند، کیمیائی گولہ بارودسے گھروں کو اڑانے ،بدترین ریاستی دہشت گردی کے دوران قربانیوں کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ کشمیری بلا شبہ دنیا کی ایک نڈر ،بہادر اور باوقار قوم کے طور پر منظر عام پر آئے ہیں۔جو بھارت کی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے کو ہر گز تیار نہیں۔ قربانیوں کا تسلسل ہے۔ ایسے میںشہدائے جموں کی یاد نومبر کی آمد کے ساتھ ہی تڑپا کر رکھ رہی ہے۔ زخم تازہ ہو رہے ہیں۔کئی حریت پسندشخصیات ان واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ان کی آنکھوں میں خون کے آنسو بہتے دیکھے ہیں ۔ آزادکشمیر لبریشن سیل کے سابق سیکریٹری عبدالرشید ملک مرحوم کے سامنے ان کی اہلیہ اور دیگر عزیز و اقارب کوشہید کیا گیا ۔ راولپنڈی پریس کلب کے سابق سیکرٹری اور صحافی قیوم قریشی مرحوم کے خاندان کے کئی افراداورلبریشن فرنٹ کے سابق چیئر مین ڈاکٹر فاروق حیدر مرحوم کے بھائی بھی شہدائے جموں میں شامل ہیں۔چند افراد آج بھی زندہ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کو کرپانوں اور برچھیوں سے زبح کیا گیا۔بچیوں کو اغوا کیا گیا۔ بچوں کو نیزوں اور ترشول پر اچھالا گیا۔

92سالہ بزرگ صحافی اور دانشور قیوم قریشی مرحوم نے چشم دید واقعہ یوں بیان کیا، ’’ اس زخم کی کہانی کا آغاز جمعرات6 نومبر 1947 ء کو صبح تقریباً دس بجے جموں شہر کے چار ہزار سے زیادہ مسلمانوں سے بھرے ہوئی بسوں اور ٹرکوں کی پولیس لائنز جموں سے روانگی کے ساتھ ہوا ان لوگوں کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ انہیں ٹرکوں اور بسوں کے ذریعے سوچیت گڑھ پہنچا دیا جائے گا، جو سیالکوٹ اور جموں کے درمیان سرحدی قصبہ ہے۔ یہ اس طرح کا دوسرا قافلہ تھا جو جموں سے روانہ ہوا تھا اس سے ایک دن پہلے یعنی بدھ 5 نومبر 1947 ء کو بھی سیالکوٹ پہنچانے کے جھانسے کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا، اس قافلے کا کیا حشر ہوا تھا وہ ایک الگ داستان ہے۔ پہلے قافلے میں تو میں شامل نہیں ہوسکا تھا لیکن دوسرے دن میں نے کسی نہ کسی طرح ایک بس کی چھت پر جگہ حاصل کرلی اور پھر وہ پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جو قافلے کے مسافروں کے قتل عام کی صورت میں ڈوگرہ اور بھارتی فوجیوں ،انتہا پسند ہندوؤں اور سکھوں نے رچایا اور جموں میں بشناہ جانے والی سڑک پر نہر کے کنارے صبح گیارہ بجے سے تین بجے سہ پہر تک جاری رکھا تھا۔‘‘

5اگست 2019کے بھارتی غاصبانہ اقدامات کے بعد’’کشمیر فار سیل‘‘ ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹی 20 میں بھارت کو شکست کا جشن منانے والے مسلمانوں کی زندہ کھالیں اتارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ 50لاکھ سے زیادہ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ ریاست کا ڈومیسائل اجراء کر دیا گیا۔مقبوضہ وادی سے فرار ہندو پنڈت اپنی جائیدادیں فروخت کر چکے تھے، انہیں دوبارہ وادی لا کر فروخت شدہ رقبہ جات، مکانات مسلمانوں سے چھین کر دیئے جا رہے ہیں۔انہیں بھارتی فورسز قتل کر کے الزام مجاہدین اور پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ مسلمانوں کو نوکریوں سے بر طرف کر کے ان پر بغاوت کے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔بھارتی فوج کو سرکاری اور غیر سرکاری اراضی جس میں زرعی رقبہ جات، باغات بھی شامل ہیں، پر قبضے کے اختیارات دیئے جا چکے ہیں۔ زعفران کے لئے شہرت یافتہ پانپور، پلوامہ پر بھارتی پٹرولیم کمپنیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ کشمیرآج بھارتی جارحیت ، خطے کی جابرانہ تقسیم، ریاست کو ڈی گریڈ کرنے ، پابندیوں، مواصلاتی کریک ڈائون کے دوران مزاحمت کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔نئے جارحانہ کالے قوانین نافذالعمل ہو چکے ہیں۔ ریاستی دہشتگردی اور رہائشی گھروں کو بارود سے اڑانے کے واقعات اور کیمیکل زہریلے اسلحہ کے استعمال کے باوجود عوام گلی کوچوں، سڑکوں اور چوراہوں میں بھارتی فورسز کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔ نومبر کے مہینہ کوکشمیر کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ 1947کو اسی مہینے میں جموں ڈویژن کے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور اس مسلم اکثریتی جموں خطے کے مسلمانوں کواقلیت میں بدل ڈالا گیا۔چشم فلک نے پھرایسا وقت بھی دیکھا جب جموں کے غیر مسلموں نے شدید مظالم سے دوچار وادی کے عوام کی ناکہ بندی کی اور وادی میں روتے بچوں کو دودھ اور تڑپتے مریضوںکو ادویات سے محروم کر دیا۔گزشتہ75سال سے کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔جس خطے کی فضائیں اللہ اکبر کی صداؤں سے معطر ہوتی تھیں وہ آج مندروں کا شہر کہلاتا ہے، بھجن اور گھنٹیوں کی چیخ و پکارپر زمین بھی رو رہی ہے۔ قیام پاکستان کی بڑی سزاکشمیر بالخصوص جموں کے مسلمانوں کو ملی۔چند دنوں میں3لاکھ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔سٹیٹس مین ا خبار کے ایڈیٹر آئن سٹیفن کی کتاب’’ ہارنڈ مون‘‘Horned Moon،کشمیر ٹائمز کے مدراسی ایڈیٹرجی کے ریڈی اور لنڈن ٹائمز نے تصدیق کی کہ اکتوبراور نومبر1947ء کو جموں اور اس کے نواح میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔مغربی مصنف آلسٹر لیمب نے اپنی کتاب ’’ان کمپلیٹ پارٹیشن‘‘ Incomplete Partitionمیں لکھا کہ ہندو شرپسندوں کی لوٹ مار کے دوران بستیوں، بازاروںاور350 مساجد کو آگ لگا دی گئی۔ جموں ضلع میں 1941 ء میں مسلمان کل آبادی کا 60 فیصد تھے اور 1961ء میں وہ صرف 10 فیصد رہ گئے۔

6نومبر1947ء کو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ، مہارانی تارا دیوی،ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اور سابق وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کی آشیر واد اوروزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی ہدایت پرمسلمانوں کو گاڑیوں میں سیالکوٹ پہنچانے کے بہانے شہید کیا گیا۔ تقسیم کے اصولوں کے منافی بائونڈری کمیشن کے ریڈ کلف کی بددیانتی سے ہندوستان کو کشمیر تک زمینی راستہ دینے کے لئے پنجاب کے مسلم اکژیتی علاقہ گورداسپور کو پاکستان کا حصہ نہ بننے دیا گیا۔اور اسے بھارت کو دے کر کشمیر تک راہداری دی گئی۔مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ4 ؍ نومبر 1947ء کو ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائے پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ سردار دیوندر سنگھ نے جموں میں مہاراجہ کی مشاورت سے تیار کیا تھا۔راوی کہتا ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام سے چناب کا سب سے بڑا معاون دریا’’ توی‘‘ خون سے بھر گیا۔جموں کے گلی کوچوں سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ جموں ڈویژن سے نسلی صفائی میں جن سنگھیوں کو استعمال کیا گیا۔اس سے قبل ڈوگرہ فورسزنے پوری ریاست کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کررکھا تھا۔ قبائل کشمیر میں داخل ہوئے تو ڈوگرہ راجہ 25؍ اکتوبر 1947ء کو مقبوضہ وادی سے فرار ہوگیا۔ سرینگر سے جموں پہنچ کر رانی تارا دیوی نے سر کے بال بکھیر دیئے۔ چیخ و پکار کی کہ مسلمان غلاموں نے کشمیر ہم سے چھین لیا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کی ترغیب دی اور اسلحہ تقسیم کیا ۔ منادی کرادی کہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے ہر ہندو آزاد ہے۔ تارا دیوی نے ڈوگرہ سرداروں کا اجلاس طلب کیا جس میں فیصلہ کیا کہ تمام مسلمان افسروں کو نوکریوں سے برطرف کر دیا جائے اور کوئی مسلمان افسر کسی ذمہ دار عہدے پر فائز نہ رہے۔کہا جاتا ہے کہ 30؍ اکتوبر 1947ء تک پورے جموں میں ایک بھی مسلمان افسر کسی اہم اورذمہ دار عہدے پر فائز نہ تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ نے شرپسندوں کی کمک جموں داخل کی ۔ قتل عام اورلوٹ مار کے بعد ہی مسلمانوں نے جموں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو فوجیوں کی حفاظت میں لاریوں میں پاکستانی سرحد پر آر ایس پورہ، ارنیہ، ڈگیانہ علاقوں میں اندھا دھند گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ عورتوں کو علیحدہ کرکے ان کے برہنہ جلوس نکالے گئے۔انہیں اغواء کیا گیا ۔جن کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکا۔سیکڑوں عصمتیں بچانے کے لئے دریا میں کود گئیں ۔جس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کے موقعہ پر درندگی کا نشانہ بنایا گیا اسی طرح جموں کے مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔مسلمانوں کے قتل عام میں پنجاب کے راجواڑوں، پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ اور نواحی علاقوں کے مہاراجوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ عید الاضحی کا موقع تھا جب ہندو دہشت گردوں نے ایک نعرہ کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کی وہ کہہ رہے تھے کہ عید کو مسلے قربانی کرتے تھے اب آج کی عید پر ہم ان کی قربانی کریں گے۔ مسلمانوں کے قتل عام سے قبل پورے جموں میں کرفیو لگایا گیا۔ سیوک سنگھ، مہاسبھا اور اکالی دل کے جتھوں نے ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا عہد کررکھا تھا۔ چاروں اطراف سے جے ماتا جی اورست سری اکال کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کے علاقوں میں انتظامیہ نے اعلان کیا کہ پاکستان نے مسلمانوں کیلئے گاڑیاں بھیجی ہیں، اس لئے لوگ سیالکوٹ جانے کیلئے پولیس لائنز میں جمع ہو جائیں۔ اس وقت پولیس لائنز جموں توی میں تھا، جہاں بسوں پر پاکستانی جھنڈے لگا دیئے گئے تھے۔

جموں شہر کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار تھی جو 20 سال بعد 1961ء میں کم ہوکر صرف 50 ہزار رہ گئی۔مسلمانوں کی نسل کشی میں دہشت گرد تنظیموں آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور دیگر فرقہ پرست جماعتیں پیش پیش رہیں۔ یہ وہی فرقہ پرست تھے جنہوں نے مارچ 1947ء میں لدھیانہ، جالندھر،امرتسر، کپورتھلہ، پٹیالہ،فرید کوٹ،پانی پت، کرنال، گوڑگاؤں وغیرہ میں مسلمانوں پر حملے کئے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوکر مقامی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کٹھوعہ، سانبہ، ادھمپور، بھمبر، نوشہرہ، ہیرانگر، رام گڑھ، آر ایس پورہ، ارنیہ، سچیت گڑھ، جموں ، بٹوت حتیٰ کہ مظفر آباد میں بھی ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ مہاراجہ نے ان دہشت گردوں کی خوب آؤ بھگت کی۔ اس نے وزیر اعظم پنڈت رام چند کاک کو برطرف کر کے مہارانی تارا دیوی کے قریبی رشتہ دار ٹھاکر جنک سنگھ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ مہاراجہ نے اپریل 47ء کو راولاکوٹ کے دورہ کے موقع پر جب جنگ عظیم دوم کے ہزاروں مسلمان فوجیوں کا نظارہ کیا تو واپسی پر فوری طور پر غیر مسلم راجپوت اور ڈوگرہ فوج کے یونٹ قائم کئے۔ راجہ نے اپنے سسُرالی علاقہ کانگڑہ (رانی تارا دیوی کا علاقہ) اور اس کے قرب وجوار کلو، چمبہ،گڑھوال وغیرہ سے بھی ہندو فوجی بھرتی کئے۔ ان فوجیوں کو سرینگر اور جموں میں تعینات کیا گیا۔ مہارانی تارا دیوی نے باؤنڈری کمیشن کے ممبر مہر چند مہاجن جیسے مسلم دشمن غیر ریاستی شخص کو کشمیر کا وزیراعظم بنایا۔ مہاجن کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریس ہائی کمان تک رسائی حاصل تھی۔ مہاجن نے اپنی کتاب’’Back Looking‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ مہارانی نے ان کے ساتھ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں مشاورت کی۔ وہ اپنے علیل بیٹے کرن سنگھ کے علاج کے لئے لاہور آئی ہوئی تھی جو ایک بہانہ تھا۔ بعد ازاں مہر چند مہاجن کو چیف جسٹس آف انڈیا بنایا گیا۔

6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری یوم شہدائے جموں اسی وجہ سے مناتے ہیں تاکہ جموں خطے کے مسلمانوں کی اسلام، پاکستان اور تحریک آزادی کے لئے جانوں، مالوں اور عزتوں کی قربانیاں یاد رکھی جائیں اور شہداء کے خون کے ساتھ کسی کو سودا بازی نہ کرنے دی جائے۔75سال گزرنے کے باوجود جموں کے ہندو دہشت گردوں کی ذہنیت نہیں بدلی ہے۔وہ مسلمانوں کی زندہ کھالیں اتارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کشمیر کے پہاڑوں میں ہندوامر ناتھ شرائن بورڈ کے خلاف تحریک کے ردعمل میں جموں کے انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے وادی کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ آج بھی لاک ڈاؤن اور کرفیو، پابندیوں کے دوران بھارتی فورسز کشمیریوں کو اقتصادی طور پر بدحال کرنے کے لئے کھیت اور کھلیان جلا رہے ہیں۔میوہ باغات کو تباہ کیا گیا ہے۔گزشتہ برس تقریباً ایک کھرب روپے سے زیادہ کے میوہ جات درختوں پر سڑگئے۔ وادی کے مسلمانوں نے ہندوؤں کا ہمیشہ احترام کیا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات کے باوجود وادی میں ہندوئوں کے خلاف کوئی ایک بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ کشمیری مسلمان صرف اپنے حقوق کے لئے برسرپیکاررہے جبکہ ہندو انتہا پسند جب بھی موقع ملے مسلمانوں کو تکالیف پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔مقبوضہ وادی میں غیر مسلم افراد کے قتل کر کے الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ آج بھی ویلج ڈیفنس کمیٹیوں میں شامل ہندو انتہا پسند چن چن کر مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔پنچ اور سرپنچ مقامی مسائل کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے بھارتی فورسز کے آلہ کار ہیں۔بھارتی فوج اس سلسلے میں تاریخ کا بدترین کردار ادا کر رہی ہے۔وہ کارگل جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے لئے تابوتوں کی خریداری کے سودے میں بھی کرپشن کرنے سے گریز نہیں کرتی جبکہ بو فورس توپوں کے سودوں میں اربوں کے سکینڈل فوج کے لئے بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔یہی فوج کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں شہریوں کو شہید کر کے ترقیاں اور تمغے پاتی ہے ۔ بارودی سرنگیں نصب کر کے ان کی برآمدگی کے نام پر ترقیاں اور میڈلز وصول کرنے کے سکینڈلز بھی منظر عام پر آ رہے ہیں۔کئی علاقوں میں بھی میزائل اور مارٹر گولے داغنے کے بعد بارودی دھماکوں سے مکانوں کو زمین بوس کیا گیا۔ بھارتی فوج کی نصب بارودی سرنگیں پھٹنے سے معصوم کشمیری شہید اور زخمی ہورہے ہیں۔

1947ء کومسلمانوں کی نسل کشی اور انخلاء کے باوجود ضلع ڈوڈہ ، کشتواڑ ، پونچھ اور راجوری میں80فیصد مسلم آبادی ہے جبکہ ریاسی ، ادھمپور، کٹھوعہ اور جموں اضلاع میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔بھارت نے کشمیر کو تقسیم کیا ۔اس کا خصوصی درجہ ختم کیا۔سرمایہ کاری اور دیگر حیلے بہانوں سے اب مقبوضہ ریاست میں بھارتی مکمل عمل داری اور زمین جائیدادوں پر بھارتی شہریوں کے قبضے ہو رہے ہیں۔بھارتی یونین علاقے قرار دینے سے پہلے مقبوضہ ریاست پر دہلی سے بھیجا ایک گورنرز حکومت کرتا تھا۔ اب ایک گورنر کی جگہ دو لیفٹننٹ گورنر حکومت کرتے ہیں۔پہلے مقبوضہ کشمیر کا اپنا پرچم تھا۔ اب اسے سرکاری عمارتوں سے اتار کر وہاں پر بھارتی پرچم لہرا دیئے گئے ہیں۔پہلے کوئی بھی بھارتی آئین مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر نافذ نہ ہوتا تھا، اب بھارتی قوانین براہ راست لاگو ہو رہے ہیں۔ ان کالے قوانین کے تحت مسلمانوں کو اہم محکموں سے نہ صرف ہٹایا جا رہا ہے بلکہ انہیں نوکریوں سے بھی برطرف کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی یہ سب انتقامی مہم ہے۔ 1947کی طرح مسلمانوں کی ایک بار پھر نسل کشی کے لئے ماحول سازگار بنایا جا رہاہے۔ جموں وکشمیر کو ایک الگ بھارتی علاقہ اور لداخ کو بھی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنا کر بھارت میں عملی طور پر ضم کردیا گیا ہے۔جموں خطے سے ہجرت کرنے والے پاکستان میں کراچی سے کوہالہ تک لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔انہیں دوہری شہریت حاصل ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے لئے12نشستیں مختص ہیں۔ جن پر وہ منتخب ہو کر آزاد کشمیر اسمبلی

کے رکن بنتے ہیں۔ انہیں وزیر مشیر بنایا جاتا ہے۔ مگر آزاد کشمیر حکومت اپنے پہلے اعلامیہ سے ہی نا بلد ہو چکی ہے۔ وہ اپنے مشن اور نصب العین سے بے خبر ہے۔ جس حکومت کا بنیادی کام مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے لئے کام کرنا تھا، آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانا تھا، وہ اس سے خود کو بری الزمہ سمجھتی ہے۔ کام بہت ہو رہا ہے، مگر یہ نعروں، تقاریر، بلند و بانگ دعوؤں تک محدود ہے۔ یہ ایک روایت بن چکی ہے۔ کسی کے پاس کوئی ایجنڈا نہ ہو تو کشمیر پر بیان جاری ہوتا ہے یا رٹی ہوئی تقریر جھاڑ دی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ نئی نسل اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں سے بے خبر اور لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔وہ اپنی روایا ت اور ثقافت کو کیسے دم توڑتا ہو ا دیکھ سکتی ہے۔ایک دوسرے سے تعلق اور تعاون کے فروغ کا تصور رفتہ رفتہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

آزاد کشمیر میں جنگ بندی لائن پر آباد لوگوں کے عوام کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ان کے عزیز و اقارب، زمین جائیداد جنگ بندی کی دوسری طرف بھارت کے قبضہ میں ہے۔ ان پر بھارت جب چاہے گولہ باری کرتا ہے۔ ان کی جان و مال کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ انہیں موبائل ایمبولنسسز کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں فوری ریسکیو چاہیے، ان کے بچوں کی تعلیم کا کوئی بندو بست ہو، سیز فائر لائن کے عوام پسماندہ ہیں۔ وہ شہروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے انہیں خصوصی پیکج کی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد بنانا یا اسے کنٹرول لائن قرار دیناتقسیم کشمیر کی بھارتی سوچ گمراہ کن ہے ۔ شہدائے جموں کے مشن کا تقاضا ہے کہ کشمیری جسد واحد بن کر لسانی،علاقائی اور برادری ازم یا ادھر ہم ادھر تم جیسے فتنوں سے بچتے ہوئے شہداء کے مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔شہداء کا انتقام لینا ہم پر لازم ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت اب بھی عبوری حکومت ہے۔ اس کا آئین عبوری ہے۔ یہاں کے صدر، وزیر اعظم، سیاستدانوں، بیوروکریسی پوری ریاست جموں و کشمیر کو اپنا حلقہ سمجھنا چاہیے۔سیاستدان جنگ بندی لائن پار کرنے کی کاغذی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔سیاسی پوائینٹ سکورننگ کے بجائے عملی طور پر بیس کیمپ کا کردارادا کرنے کی ضرورت ہے کہ سب ایک ہو کر جدوجہد کریں۔ اسلام آباد میں دنیا کے سفارتی مشنز کو صورتحال سے مسلسل آگاہ کیا جائے۔دنیا میں پاکستان کے مشنزکردار ادا کریں۔ بھارت کی نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس اور آزاد کشمیر پر جارحیت کی بڑھکوں اور دعوؤں کے تناظر میں آزاد کشمیر کی آبادی کو جنگی تربیت اور مسلح کرنے یا دیہی دفاعی کمیٹیاں تشکیل دینے کی طرف توجہ دیں ۔جنگ بندی لائن پر آباد عوام کے لئے مورچے تعمیر کئے جائیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جموں قتل عام کی طرح مزید قتل عام کے خدشات سے کم از کم مسلم ممالک کے سفیروں کو بریفنگ دی جائے۔ جو مسلم ممالک مودی کو تمغے دیتے ہیں اور بھارتی حکمرانوں کے ریڈ کارپٹ استقبال کرتے ہیں، اسلام آباد میں مسلم ممالک کے سفیر، دنیا میں پاکستان کے سفارتکار کیا خدمات انجام دیتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو یاد دلایا جائے کہ وہ اپنی سر زمین پر مندر تعمیر کر رہے ہیں مگر بھارت میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کی مساجد عبادت کے لئے بند کر دی گئی ہیں۔ ان پر تالے لگائے گئے ہیں۔آج ہم جموں کے شہداء کو یاد کر رہے ہیں۔جلسے جلوس نکالتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، بیانات جاری کرتے ہیں، کیا اس سب سے بھارت کشمیر سے نکل جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کشمیر کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کی طرف توجہ دی جائے۔شہداء کاا نتقام لینا اور ان کے مشن پر چلنا مسلمانوں کا نصب العین ہے۔ اللہ تعالیٰ شہداء کی شہادت قبول فرمائے۔

غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔