اقوام متحدہ اور مسئلہ کشمیر

متین فکری

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس عالمی رہنمائوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے اور سائڈ لائن پر لیڈروں کی ملاقاتیںبعض اوقات جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔کسی زمانے میں پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کی ملاقات یا عدم ملاقات کو ذرائع ابلاغ میں بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور اس حوالے سے مسئلہ کشمیر بھی زیر بحث رہتا تھا۔اب کی دفعہ پاکستان سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اجلاس میں نہیں آئے اس لئے دونوں لیڈروں کی ملاقات یا عدم ملاقات کے حوالے سے کوئی قیاس آرائی میڈیا میں جگہ نہ پاسکی البتہ پاکستانی وزیراعظم نے اجلاس سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کرکے پاکستان کی دیرینہ روایت کو برقرار رکھا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے اور خطے میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی پیش کش بھی کی۔

بھارت نے اس کا کیا جواب دیا وہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر گذشتہ 74 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرہے۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر پہلی قرار داد 21 اپریل 1948 کو اتفاق رائے سے منظور کی تھی اور بھارت نے بھی اس قرارداد کو تسلیم کیا تھا۔ قرارداد میں ریاست جموں و کشمیر میں آزادانہ رائے شماری کے لیے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک کیمشن قائم کرنے ،ریاست میں ایک غیر جانبدار حکومت قائم کرنے ،امن و امان کے قیام کے لیے مقامی افراد کی فوج تیار کرنے اور اقوام متحدہ کی جانب سے ناظم رائے شماری مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ بھارت چونکہ خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا تھا اس لئے اس نے بادل ناخواستہ یہ قرار داد تسلیم تو کرلی لیکن اس کا زیادہ اصرار جنگ بندی پر تھا۔ وہ بار بار اقوام متحدہ سے اپیل کررہا تھا کہ پہلے جنگ بندی کرائی جائے اور پاکستان قبائلی مجاہدین کو ریاست سے واپس بلائے پھر ساز گار ماحول میں رائے شماری کی بات بھی کی جائے ۔بھارت اقوام متحدہ او راس کے کارپردازوں پریہ دبائو اس لئے ڈال رہا تھا کہ کشمیری عوام کے تعاون سے قبائلی مجاہدین کی پیش قدمی بدستور جاری تھی وہ ریاست کا ایک حصہ آزاد کراچکے تھے اور اب سرینگر کی طرف بڑھ رہے تھے ،بھارت کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر سرینگر پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا تو پوری ریاست جموں و کشمیر پاکستان کی تحویل چلی جائے گی اور اس کا جنگ بندی پر اصرار بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔چنانچہ اس نے مذکورہ قرار داد میں یہ شق بھی شامل کرائی کہ پاکستان اپنے شہریوں اور قبائلی مجاہدین کو ریاست سے واپس بلالے۔پاکستان نے اس شق کی اس لیے مخالفت نہیں کی کہ پاکستان وہ سمجھتا تھا کہ ریاست میں آزادنہ رائے شماری کا فیصلہ ہوچکا ہے اور خود اقوام متحدہ نے اس کی ضمانت دی ہے اس لیے مزید عسکریت کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے قرار داد کو تسلیم کرتے ہوئے قبائلی مجاہدین اورپاکستانی عسکریت پسندوں کو واپس بلالیا البتہ ریاست کا وہ حصہ بدستور اس کی تحویل میں رہا جو کشمیری اور قبائلی مجاہدین آزاد کراچکے تھے بعد ازاں وہاں ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر حکومت ‘‘قائم کردی گئی دریں اثناء بھارت کا وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جو مکاری و عیاری میں اپنی مثال آپ تھا کشمیری عوام اور بین الاقوامی برادری کو مسلسل یقین دلاتا رہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کی مرضی سے ہوگا اور بھارت خوشدلی سے ان کے فیصلے کو تسلیم کریگا۔

قدرت اللہ شہاب نے جو خود بھی کشمیری ہیں اپنی خودنوشت ’’شہاب نامہ ‘‘میں پنڈت نہرو کے ایسے نوبیانات رقم کیے ہیں جن میں وہ کشمیریوں اور عالمی رائے عامہ کو یقین دلا رہا ہے کہ بھارت ہرحال میں اپنے اس موقف پر قائم رہے گا کہ کشمیری عوام ہی اپنی قسمت کے مالک ہیں اور رہی آزادانہ استصواب رائے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ’’بھارتی وزیر اعظم کے اس نوعیت کے بے شمار اعلانات اور بیانات کے انبار میں سے میں نے یہاں چند ایک کا انتخاب کرکے درج کیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان میں سے ایک اعلان یا بیان بھی سچائی ،خلوص ،نیک نیتی اور دیانتداری پر مبنی نہ تھا۔ یہ ساری لفاظی پُرفریب وعدوں کی نمائش تھی جس کے ذریعے اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا الّو سیدھا کرنا تھا،راج نیتی میں جواہر لعل نہرو اپنے مہاگرو چانکیہ کے نہایت کامیاب چیلے تھے۔ ایک طرف وہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو برضاو رغبت قبول کیے بیٹھے تھے جن کی رو سے انہوں نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک آزادانہ ،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے طے ہوگا جس کا بندوبست اقوام متحدہ کا مقرر کردہ ناظم رائے شماری کریگا لیکن دوسری جانب جنگ بندی کے فوراََبعد بھارت نے ان قراردادوں پر عملدرآمد میں طرح طرح کے روڑے اٹکانے شروع کردئیے تھے ۔جوں جوں کشمیر پر بھارت کا قبضہ مستحکم ہوتا گیا،اسی رفتارسے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی وعدہ خلافیوں ،بے وفائیوں اور فریب کاریوں کا راز بھی طشت ازبام ہوتا چلاگیا‘‘

اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی چشم پوشی اور براہ راست سرپرستی میں ہوا کیونکہ اس ادارے پر قابض عالمی قوتوں نے یہ طے کررکھا تھا کہ وہ پاکستان کو کشمیر نہیںلینے دیں گی اور اسے اس کی حد میںرکھیں گی،امریکا ،برطانیہ ،فرانس ،روس سب بھارت کے حامی تھے روس تو کشمیر کے بارے میں قراردادوں کو ویٹو کرکے کھلم کھلا بھارت کی طرفدارری کررہا تھا جبکہ امریکا منافقانہ روش اختیار کیے ہوا تھا۔ رہا برطانیہ تووہ برصغیر سے جاتے وقت جان بوجھ کریہ خنجر پاکستان کے قلب میں چبھو گیا تھا تاکہ اس سے ہمیشہ خون رستا رہے اور پورا خطہ بدامنی کی آگ میں جھلستا رہے۔ذرا گہرائی میں جاکر اقوام متحدہ کی ساخت اور اس کی کارکردگی پر غور کریں گو صاف محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا نے یہ ادارہ اس لیے بنایا ہے کہ اس کی آڑ میں مسلمان ملکوں کے گرد گھیرا تنگ کیاجائے،انہیں مسائل کے گرداب میں پھنسا یا جائے۔ امریکا یہ سارے کام بڑی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کررہا ہے،تمام مغربی ممالک اس کی پشت پر ہیں اور اقوام متحدہ کی اسے مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے مسلمان ملکوں کے خلاف دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کررکھا ہے۔ وہ خود دہشت گردی کررہا ہے اور الزام مسلمانوں پر لگا رہا ہے اور اقوام متحدہ اس کی تائید کررہی ہے ،امریکا نے ایک نہایت غریب،پسماندہ اور مفلوک الحال مسلمان ملک افغانستان پر بلا جواز حملہ کیا اور چالیس نیٹو ممالک کی فوجوں کو ساتھ ملا کر اس بے یارومدگار ملک پر چڑھ دوڑا تو اقوام متحدہ کی سند توثیق اس کے پاس تھی،پھر وہ عراق پر حملہ آور ہوا تو اقوام متحدہ نے آگے بڑھ کر اس کی حمایت کی،اس وقت کشمیر ،فلسطین ،بھارت ،برما اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کا جو لہو بہہ رہا ہے اس میں اقوام متحدہ بھی بالواسطہ طور پر شریک ہے کیونکہ اس ادارے نے امن عالم کی ذمہ داری اپنے سرقبول کی ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اس کے پاس اختیارات بھی ہیں لیکن وہ اپنے اختیارات کو اس وقت استعمال کرتا ہے جب مسلمانوں کے خلاف کارروائی مقصود ہوتی ہے۔مسلمانوں کے حق میںاس نے اپنے اختیارات کوکبھی استعمال نہیں کیا۔اس تناظر میںدیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ سے توقع رکھنا یا اقوام متحدہ کے فورم پر اسے اٹھانا ایک لاحاصل بات ہے ۔یہ مسئلہ صرف اور صرف قوت بازو سے حل ہوگا۔اگر پاکستان کے بازئووں میں دم ہے تو وہ اسے آج حل کرسکتا ہے اسے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جناب متین فکری پاکستان کے ممتاز صحافی ،دانشور ،محقق اور مصنف ہیں۔روزنامہ جنگ کشمیر ایڈیشن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام د ے چکے ہیں ۔کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے ان کی قلمی و علمی محاذ پر جدوجہد سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔کشمیر الیوم کیلئے اس پیرانہ سالی میں بھی مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں ۔