شیخ محمد امین
1979ء موسم گرما ، سری نگر گول باغ میں اسلامی جمعیت الطلبہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا ۔میں بارھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن الحمد للہ جمعیت کی رکنیت حاصل کرنے والے بنیادی اور بانی ساتھیوں میں شامل تھا۔اشرف صحرائی صاحب ؒ اس وقت ہمارے ناظم اعلیٰ تھے ۔یہ اجتماع میرے لئے آج بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اکثر میں اس کا ذکر اپنے دوستوں سے کرتا رہتا ہوں ،اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس اجتماع میں مجھے شاعر اسلام اور شاعر انقلاب جناب حفیظ میرٹھی ؒ کو بالکل آمنے سامنے دیکھنے کا موقع ملا۔نہ صرف اتنا بلکہ ان کا کافی سارا کلام ان کی زبان سے سننے کا بھی شرف حاصل ہوا۔مجھے اس مجلس کے دوران ڈاکٹر غلام قادر وانی شہید ؒ ،جن کے میں بالکل قریب بیٹھا تھا ،کا اچھل اچھل کر حفیظ صاحب ؒ کی شاعری کی داد دینے کا جذباتی منظر بھی جیسے سامنے نظر آرہا ہے۔جناب صفی صاحب نے حفیظ میرٹھی ؒ کی صدارت میں ہوئے اس مشاعرے میں”قدم نہ ڈگمگانا کے عنوان سے نظم پڑھی۔وادی کے معروف شعراء جن میں شاعر اسلام مشتاق کاشمیریؒ ،شاعر حریت شہید علی محمد شہبازؒ شامل ہیں نے بھی شرکت کی۔اس کے علاوہ جناب اشرف صحرائی ؒ کا افتتاحی خطاب ،امام سعد الدینؒ کا درس قرآن ،جناب مولانا امین شوپیانی ؒ کا درس سیرت ،جناب مولالانا احرار صاحبؒ کا درس حدیث اور امام سید علی گیلانی ؒ کا خطاب عام ،ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار طلباء کیلئے جو وادی کے مختلف علاقوں سے آئے تھے اور اس اجتماع میں شریک تھے کیلئے آب حیات سے کم نہ تھا ۔

اس کامیاب طلبہ اجتماع کے بعد پوری ریاست کے کالجز اور یونیورسٹیز میں اسلامی جمعیت الطلبہ۔۔۔طلبہ اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنی ۔جناب اشرف صحرائی ؒ جماعت کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ،ان کا ناظم اعلیٰ بننا تو معمول کی بات تھی لیکن سید الطاف شاہ المعروف الطاف فنتوش کا اسی تنظیم کا سیکرٹری جنرل بنناایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ان کی عمر اس وقت صرف بیس یا اکیس سال کی تھی ۔
الطاف فنتوش ؒنے اپنی بھرپور صلاحیتوںکا استعمال کرکے صرف چند مہینوں میں اس تنظیم کے سینکڑوں یونٹس پوری وادی کے تعلیمی اداروں میں قائم کئے اور ثابت کیا کہ اگر صحرائی صاحب ؒ نے انہیں اس عہدے کیلئے نامزد کیا تھا تو وہ صحیح فیصلہ تھا ۔اس دوران اسلامی جمعیت الطلبہ کا دستور مرتب کیا گیا۔1979ء میں جب جناب شیخ تجمل الاسلام ؒ اس تنظیم کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے تو الطاف فنتوشؒ اور عبد المجید خان ان کے خصوصی معاونین بنے۔الطاف فنتوش بہت ہی متحرک اور فعال رہنما کی حیثیت سے ابھرے ۔وہ میرے ناظم اعلیٰ شیخ تجمل الاسلام ؒکے معتمد ترین ساتھی تھے ۔شیخ صاحب ؒ ان کی رائے کو کافی اہمیت دیتے تھے ۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹرغلام قادر وانیؒ،ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکرؒ الطاف فنتوش ،ڈاکٹرعبد المجید خان ،ڈاکٹر حمید فیاض ،ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی ،ڈاکٹرسید یونس گیلانی ،احمد اللہ پرے ، عبد الوحید کرمانی ،ڈاکٹر عبد الحمید زرگر اورغلام رسول لون بیدار جمعیت کی شوریٰ کے ممبر تھے ۔الحمد للہ اس شوریٰ کا ممبر ہونے کا مجھے بھی اعزاز حاصل ہے ۔

الطاف فنتوش ؒ کو سمجھنے کا اس دوران مجھے بھر پور موقع ملا۔وہ جو بھی آراء ان مجالس میں دیتے تھے۔ اکثر و بیشتر ا نہی آراء کی روشنی میں فیصلے لئے جاتے تھے ۔ بہرحال بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا صائب الرائے ہونا بھی ان کیلئے ہمیشہ مسئلہ بنتا رہا۔شوریٰ کے کئی ساتھی سمجھتے تھے کہ ناظم اعلیٰ کواس نے اپنا اتنا گرویدہ بنا لیا ہے کہ وہ انہی کی رائے پر فیصلے کرتے ہیں۔ اسی دوران 1980ء میں جمعیت نے ایک عالمی اسلامی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔کانفرنس کیلئے جو موضوع چن لیا گیا اس کا عنوان تھا”کشمیر میں اسلامی انقلاب کی راہیں “۔حکومت نے پہلے اجازت دی ۔دعوت نامے عالمی اسلامی شخصیات کو پہنچے۔ان میں سے کئی شخصیات نے شرکت کرنے کی حامی بھی بھرلی ۔تیاریاں عروج پر پہنچیں ، لیکن شومئی قسمت سرکاری اداروں کو اندازہ ہوا کہ اس کانفرنس میں لاکھوں طلباء اور اساتذہ شریک ہونگے ۔اس کانفرنس کی کامیابی سے اسلام پسندوں کے حوصلے بلند ہونگے اور جس کا فائدہ بہرحال آزادی پسند تنظیمیں اور افراد حاصل کریں گے۔شیخ عبد اللہ جو اس وقت بدنام زمانہ اندرا عبد اللہ ایکارڈ کرتے ہوئے ،رائے شماری کے نعرے کو ترک کرکے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے ،نے اس کانفرنس پر پابندی کا فرمان جاری کیا ۔اس کے بعد گرفتاریوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔جناب الطاف فنتوش کو بھی گرفتار کیا گیا اور تقریباََ سات مہینے بعد رہا ہوئے۔اس کے بعد ان کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ چلتا رہا۔چونکہ اسلامی جمعیت الطلبہ عملاََ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ایک شعبے کی حیثیت سے قائم ہوئی تھی۔جماعت کے اندر جمعیت کی کارکردگی پر بعض لوگوں نے سوالات اٹھائے اور امیر جماعت اسلامی مولانا سعد الدین ؒ کو مشورہ دیا کہ شیخ تجمل الاسلام کو جمعیت سے فارغ کیا جائے اور باقاعدہ اعلانیہ طور پر جمعیت کو جماعت کا شعبہ قرار دیا جائے۔

امیر جماعت نے قاری سیف الدین ؒ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی اور ادھر جمعیت کی طرف سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی قیادت نذیراللہ تبسم صاحب کو سونپی گئی۔مذاکرات کے کئی دور ہوئے ۔جن کا بہرحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔یہ ایک لمبی اور تکلیف دہ کہانی ہے اور میں اور کئی اور ساتھی جو ابھی بقید حیات ہیں ،اس کے چشم دید گواہ ہیں،زندگی نے مہلت دی تو اس کہانی کو تحریر کا روپ دینے کی کوشش کروں گا۔بہرحال جمعیت کی شوریٰ کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ شیخ تجمل الاسلام ہی ناظم اعلیٰ رہیں گے اور جمعیت اپنا تشخص برقرار رکھے گی ۔الطاف صاحب اس فیصلے کی تب تک پاسداری کرتے رہے جب تک شیخ تجمل الاسلام ؒ وادی میں رہے لیکن جونہی وہ وادی سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور تو الطاف صاحب براہ راست جماعت سے وابستہ ہوگئے ۔میرا ان کے ساتھ شروع سے آخر تک گہرا تعلق رہا۔تحریک حریت کے ساتھ ان کی وابستگی اور پھر اس تحریک کو پروان چڑھانے میں ان کا کردار واضح اور نمایاں ہے ۔ان کی صلاحیتیں اور کارکردگی کا ہر کوئی معترف ہے ۔وہ امام گیلانی کے کافی قریب تھے اور گیلانی ؒ ان کے مشورے کو اہمیت دیتے تھے ۔یہاں بھی ان کے حوالے سے رائے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی ،لیکن ہمیشہ وقت نے ثابت کیا کہ ان کے مشورے کارآمد ثابت ہوئے ۔

مرحوم فنتوش ؒ گفتار کے ساتھ ساتھ کردار کے بھی غازی تھے ۔وہ حق بات پر ڈٹ جاتے تھے اور جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ انہیں زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گذارنا پڑا۔ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے ۔لیکن وہ اپنے مشن سے نہیں ہٹے۔زندگی کی آخری سانسیں انہوں نے زنداں میں گذاریں اور یوں ثابت کیا کہ وہ حق کی خاطر جئے اور حق کی خاطر جان بھی جاں آفریں کے سپرد کردی ۔ یہ زندگی یونہی بھی فنا ہونیوالی ہے لیکن فنائیت میں جاودانیت اور بقا حاصل کرنا ایک کمال ہے ۔اپنے قائد سید گیلانیؒ اور اشرف صحرائی ؒ کی طرح یہ مقام بھی حاصل کرگئے ۔۔الحمد للہ ۔ان کی جدائی میرے لئے ذاتی صدمے سے کم نہیں لیکن مجھے یہ بھی یاد ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے ،اس دنیا سے سب کو اسی دائمی دنیا میں جانا ہے ۔یہ حقیقت مجھے حوصلہ دے رہی ہے کہ عنقریب یہ عارضی جدائی خود بخود ختم ہوگی اور ان شاء اللہ راہ حق کے ان تمام ساتھیوں سے باالمشافہ ملاقات ہوگی ۔۔۔
٭٭٭