یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

تاریخ گواہ ہے کہ کسی منظم اور مربوط کشمیر پالیسی کے نہ ہونے کے نتیجے میں بھارتی پالیسی سازوں نے ہر موقع پر پاکستانی حکمرانوں کو ہزیمت اٹھانے پر مجبور کردیا اور وہ اس دوران ریاست کشمیر پر اپنی گرفت بھی مضبوط کرتے رہے۔زیادہ دور نہیں جائیں گے سابق صدر مشرف کا ہی دور دیکھتے ہیں ۔یہ وہی مشرف صاحب ہیں جنہوں نے اقتدار سنبھالنے سے صرف کچھ مہینے پہلے معروف صحافی حامد میر کو بتایا تھا کہ اگر مجھے مسند اقتدار پر بیٹھنے کا کبھی موقع ملا تو صرف کچھ دنوں کے اندر اندر میں بھارت سے کشمیر چھین لوں گا ۔کارگل کے اس ہیرو نے جب اقتدار سنبھالا تو 2001میں انڈیا کا دورہ کیا اوروہاں آگرہ کے مقام پر بھارتی قیادت کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات کئے۔ مذاکرات صرف ایک نقطے پر اٹک گئے کہ بھارت یہ ضمانت چاہتا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمیں بھارت کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔سید پرویز مشرف کیلئے اس وقت یہ قبول کرنامشکل تھا کیونکہ اس کا اطلاق کشمیری حریت پسندوں پر ہوتا تھا۔لیکن آگے جاکر ان صاحب کو وہی پسند آیا جو آگرہ میں بڑا ہی ناگوار گذرا تھا ۔ بقول اقبال۔جوتھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔۔ جس جدوجہد کو وہ مقدس جہاد کہہ کے تھکتے نہیں تھے اب وہی جدوجہد اس کی نظروں میں دہشت گردی بن چکی تھی۔ اس شخص نے اب جارج بش،شیراک،ٹونی بلیر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔پھر یکسر صورتحال بدلنے لگی ۔۔23نومبر2003ء کو وزیر اعظم پاکستان مسٹر ظفراللہ خان جمالی نے بھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کی ۔جسے بھارت نے قبول کیا اور باقاعدہ 25نومبر 2003ء کو سیزفائر کے نفاذکا اعلان ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ 17جولائی 1972ء کو دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا تھا اور جسکے نتیجے میں سیزفائر لائن کا وجود عمل میں آیا تھا اور کشمیر دوحصوں میں بٹ کر رہ گیا اور وہی سیز فائرلائن 11،دسمبر1972ء کو کنٹرول لائن میں تبدیل ہوئی تھی۔تب سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نہ کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہورہی تھی تو اب سیز فائر کا کیا مطلب تھا۔۔۔۔25اکتوبر 2004 ء،11رمضان المبارک کواس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمدنے جنرل صاحب کو افطاری پر بلایا۔اس موقع پر شوکت عزیز سمیت کئی وفاقی وزراء اور چندمعروف صحافی بھی مدعو تھے ۔کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ صدر صاحب مسئلہ کشمیر جیسے اہم ایشو پر۔۔۔افطاری کے موقع پر تفصیلی بریفنگ دیں گے او ر بلا کسی جھجک اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کشمیر کو سات خطوں میں تقسیم کرنے اور پھر ان پر پاک بھارت مشترکہ کنٹرول کرنے کا فارمولہ بھی پیش کریں گے۔4دسمبر 2006ء کو جنرل مشرف نے بھارتی ٹی وی (این ڈی ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کے بارے میں اپنے منصوبے کا باقاعدہ اعلان کیا۔اس منصوبے میں آزادی کشمیر کے سوا سب کچھ موجودتھا۔فوجی انخلا،سیلف رول،مشترکہ کنٹرول اور غیر متعلقہ سرحدیں۔ اب بقول پروفیسر خورشید احمد”اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِحال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا‘‘۔بات صرف اسی حد تک محدود نہیں رہی ۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں کہ” پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری 2021ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘۔۔۔بھارت نے جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں”۔بقول معروف کشمیری صحافی نعیمہ مہجور ” کشمیریوں کے لیے یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اگر ماضی کو بھول بھی جائیں تو 5 اگست 2019 کے بعد جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے کیا اس کو بھول سکتے ہیں؟ ریاست کے خاتمے کے بعد اب مسلم کردار پر شب خون مارنے کی پالیسی جاری ہے۔ کیا اس پر بھی آنکھ بند کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے؟ جناب باجوہ اس بات سے واقف ہیں کہ سن 47 کے بعد کشمیریوں کے پاس اگر کچھ بچا تھا تو وہ تخیل کی حد تک ہی سہی، بس اندرونی خودمختاری تھی جس کی رو سے وہ اپنی زمین، جائیداد، پرچم، آئین، زبان، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی معاملات پر اپنا ذرا سا اختیار رکھتے تھے حالانکہ اس آرٹیکل کو بھی اندر سے کھوکھلا بنا دیا گیا تھا۔ اب اگر ماضی کو بھولنے کی صلاح ہے کیا کشمیری اپنی مخصوص شناخت کو بھی بھول جائیں؟”

اب حالات اس حد تک پہنچے ہیں کہ خانقاہ معلی کی دیوروں پر اوم نمش شوا لکھا جاتا ہے ۔جامع مسجد سری نگر بند پڑی ہوئی ہے ۔گھر واپسی کے نام پر کشمیری مسلمانوں کو واپس ہندومت اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔سلامتی کونسل کے دفتر سے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے نکال دینے کی سازش تیار کی جاچکی ہے ۔پوری وادی کو غزہ بنانے کی ہر ممکنہ کوششیں اور اقدامات کئے جارہے ہیں اور وکیل ماضی کے بھلانے کے فلسفے پر گا مزن ہے ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ کشمیر کو غزہ بنانے کی کوششوں کا توڑ کیا جائے ۔ایک دفعہ بھارتی شدت پسند قیادت اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئی پھر نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ اس خطے کو بھی اس زد میں آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔بقول اقبال یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ۔۔ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ۔بہتر ہے کہ ایک سجدے کو گراں نہ سمجھا جائے ۔یہی سجدہ ہزار سجدوں سے نجات دلائے گا ۔۔۔ان شا ء اللہ