کشمیر میں ہائیبرڈ عسکریت پسندی

کشمیر میں ہائیبرڈ عسکریت پسندی، بھارت نے کشمیریوں کی نسل کشی کا نیا فارمولہ ایجاد کر لیا

کشمیری نوجوانوں کودوران حراست قتل کرنے کے بعد کسی کے قتل میں ملوث قرار دیا جاتا ہے

بھارت کو سوشل میڈیا سے شکایت ہے کہ اس سے بھارت مخالف بیانیہ مضبوط ہوا، بڑے پیمانے پر بنیاد پرستی اور بیگانگی بڑھ گئی

غلام اللہ کیانی

مقبوضہ کشمیر میں ہائبرڈ مجاہدین کے قتل اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں گرفتاریوں کے بعد فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جا رہا ہے۔سجاد احمد تانترے نامی ’ہائبرِڈ‘ نواجون نے گرفتاری کے بعدجنوبی کشمیر کے بیج بہاڑہ قصبہ میں موجود ایک پناہ گاہ کا پتہ دیا توقابض فورسز اُسے لے کر وہاں پہنچیں۔علاقے کا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ وہاں موجود مجاہدین نے فائرنگ کی۔جس سے سجاد زخمی ہو گیا۔ ہسپتال پہنچانے پر ڈاکٹروں نے اسے مردہ قراردے دیا۔قابض بھارتی فورسز کے اس طرح کے دعوے گزشتہ تین دہائیوں سے سنائی دیتے ہیں۔ حراست کے دوران سجاد نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی پستول سے نومبر میں غیر کشمیری مزدوروں پر فائرنگ کی تھی جس میں اتر پردیش کا رہنے والا ایک مزدور چھوٹو پرساد مارا گیا جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔یہ دعویٰ بھی روایتی ہے کہ کسی نہتے کشمیری نوجوان کودوران حراست قتل کرنے کے بعد اسے کسی کے قتل میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ قابض فورسز نے ایک ماہ میں جنوبی کشمیر میں اس طرح قتل ہونے والایہ دوسرا نوجوان ہے۔ 19 اکتوبر کو شوپیان ضلع میں عمران بشیر گنائی کو بالکل ایسے ہی قابض فورسز نے قتل کر دیا۔ پولیس نے تب بھی دعویٰ کیا کہ ’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ (یعنی جز وقتی عسکریت پسند) عمران فورسز کی تلاشی پارٹی کے ہمراہ تھا اور پناہ گاہ میں موجود عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔عمران پر الزام لگایا گیا کہ اُس نے غیر مقامی مزدورں پر گرینیڈ پھینکا تھا جس کے نتیجہ میں دو مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔

قابض فورسز کی حراست میں نہتے نوجوان کو قتل کرنے کے بعد الزام مجاہدین پر ڈالا جا رہا ہے۔قابض بھارتی فوج کے محاصرے میں ایک شہری کو مجاہدین نے کیسے قتل کردیا۔ کشمیریوں کوہائیبرِڈ ملی ٹنٹ ہونے کے الزام میں قتل کر کے ایک ہی کہانی دوہرائی جا رہی ہے جس میں ایک مبینہ ملی ٹنٹ کو ہائیڈ آوٹ پر لے جایا جاتا ہے اور وہاں پراسرار حالات میں وہ گولی لگنے سے مر جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا آبائی علاقہ بیج بہاڑہ ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ کہیں یہ بھارت کی پنجاب کی طرح کیچ اینڈ کل (پکڑو اور مار دو) پالیسی تو نہیں۔مودی کے صوبہ گجرات کی اسمبلی انتخابات نزدیک آ رہے ہیں اور یہ واقعات ہو رہے ہیں۔

قابض بھارت نے ’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ یا جز وقتی عسکریت پسندی کی نئی اصطلاح استعمال کی ہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ تین سال قبل مقبوضہ جموں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے بعد کئی نئی اصطلاحات سامنے آئیں جن میں ’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ بھی ایک ہے۔قابض فورسز نے کئی ماہ پہلے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر میں نئے طرز کی شورش شروع ہو گئی ہے جس میں کم سن لڑکوں کو سوشل میڈیا کے ذریعہ ورغلایا جاتا ہے، انھیں ہتھیاروں کا پتہ دیا جاتا ہے اور وہ کسی شخص کو قتل کرنے کے بعد ہتھیار واپس اسی جگہ پر رکھ دیتے ہیں اور دوبارہ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے ہیں۔یہ بیان کشمیر پولیس سے دلایا گیا۔ اس پولیس کے اعلیٰ افسران ہندو انتہا پسند ہیں۔ مسلمان پولیس افسران کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔

قابض پولیس یا ٹاسک فورس انھیں ’پارٹ ٹائم ملی ٹنٹ‘ بھی قرار دیتی ہے۔فورسز ایسے ہی عسکریت پسندوں کو عام شہریوں،غیر مسلم اور غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکت کے لئے ذمہ دار قرار دیتی ہے۔پولیس کہتی ہے کہ ہائی برِڈ ملی ٹنٹ کوئی مطلوبہ عسکریت پسند نہیں ہوتا اور وہ عام شہری کی طرح زندگی گزارتا ہے لیکن مخصوص اوقات میں پرتشدد کارروائی انجام دیتا ہے۔جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے حالیہ دنوں ’ہائیبرِڈ ملی ٹینسی‘ کو ایک نیا چیلنج قرار دیا اور کہا ’اس نئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سابق عسکریت پسندوں یا تشدد اور پتھراؤکے الزام میں جیل کاٹ چکے افراد پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

1990 میں کشمیر میں بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی تومجاہدین کا باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ ہوتا تھا۔مسلح کمانڈرز اکثر پریس کانفرنس کرتے تھے، باضابطہ بیانات میڈیا کے لئے جاری کرتے تھے اور اخباروں میں اشتہارات بھی دیتے تھے لیکن 21ویں صدی کے آغاز سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔2014 کے بعد کشمیر کے نوجوان روپوش ہو کر مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کا اعلان سوشل میڈیا پر کرتے تھے۔ایسے ہی برہان وانی اور ان کے 11 ساتھیوں کی تصویریں اور ویڈیوز بھی فیس بک پر وائرل ہو گئیں۔ اگلے چند سال کے دوران فورسز نے برہان اور اُس کے سبھی ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ 2019 میں جموں کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے ساتھ ہی سیکورٹی مجاہدین روپوش ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی کھل کر سامنے نہیں آتے۔بھارتی سکیورٹی ماہرین اسے کشمیر کی شورش کا تیسرا مرحلہ کہتے ہیں۔جموں کشمیر کے قابض لیفٹینینٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ماہ جموں میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ’ہڑتال اور پتھراو اب تاریخ بن چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کو ختم کیا ہے اور جو بچے ہیں ان کا قافیہ تنگ ہے لیکن اب نوجوان لڑکوں کو گمراہ کرکے ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ بنایا جا رہا ہے اور ہم نے انھیں ڈی ریڈیکلائز کرنے کے لیے ہمہ جہتی مہم چھیڑ دی ہے۔اس مہم کے تحت ہی قابض بھارت نہتے کشمیریوں کو قتل کر رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 20 ماہ کے دوران 55 شہریوں کے قتل، جن میں زیادہ تر عام شہری، اقلیتیں اور غیر مسلح پولیس اہلکار شامل ہیں، 70 فیصد سے زیادہ فورسز کی طرف سے ‘ہائبرڈ عسکریت پسندوں ‘ سے منسوب کر دیئے گئے۔گزشتہ برس سرینگر کے چھتہ بل علاقہ میں 24سالہ نوجوان ماجد احمد گوجری کو پستول سے چھ گولیاں مارکر موٹر سائیکل سوار فرار ہو گئے۔ گوجری کے گرنے کے بعد، دونوں افراد اپنے نوعمر ڈرائیور کی گیٹ وے موٹر سائیکل پر واپس چڑھ گئے اور فرار ہوگئے۔بھارتی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، جنوری اور جولائی 2019 کے درمیان قابض فورسز پر پتھر پھینکنے کے واقعات 618 سے کم ہو کر 2020 میں 222 اور 2021 میں 76 رہ گئے تھے۔شاید بھارت اسی وجہ سے نہتے شہریوں کو قتل کرنے میں مصروف ہے تا کہ اس کی فورسز کا کشمیر میں موجودگی کا جواز رہے۔

1990 کی دہائی کے برعکس، جب مجاہدین میں مہمان مجاہدین بھی شامل تھے، گزشتہ آٹھ سال میں عسکریت پسندی تیزی سے گھریلو بنی ہوئی تھی، جس میں سوشل میڈیا کا ایک اہم کردار تھا۔ بھارت کو سوشل میڈیا سے شکایت ہے کہ اس سے بھارت مخالف بیانیہ مضبوط ہوا، بڑے پیمانے پر بنیاد پرستی اور بیگانگی بڑھ گئی۔بھارت خوفزدہ ہے۔بی جے پی کشمیر کی تحریک کو اپنے حق میں موڑنے اور سیاسی فائدے حاصل کرنے میں مصروف ہے۔اقلیتوں اور نہتے شہریوں کو قتل کرنے سے بھارت ہی مقامی اور عالمی سطح پر فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مودی حکومت شہری ہلاکتوں کی آڑ میں انتخابات میں مہم جوئی کرتی ہے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں کشمیر کے حالات کو ہتھیار کے بطور استعمال کیا جا رہا ہے۔گجرات اس کی مثال ہے۔

کشمیریوں کو طاقت کے بل پر زیر کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اور اس کے قریبی لوگ قتل عام کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کشمیریوں کا قتل عام تیز کرنے کے لئے ہی ہائبرڈ ملی ٹینسی کی اصطلاح کا اختراع کیا ہے۔ اگر چہ بھارتی جارحیت اور فریب کاری بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجاہدین بھی جدوجہد کو سائنسی بنیادوں پر جاری رکھنے کے متمنی ہیں۔ وہ گوریلا جنگ کا طریقہ کار سمجھ چکے ہیں۔ اگر یہ جنگ کشمیر کے بجائے بھارت کے اندر شروع ہو گئی تو بھارتی سالمیت اور طاقت کا غرور خطرے میں پڑ جائے گا۔

٭٭٭

غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔