رجیم چینج کا منصوبہ

رجیم چینج کا منصوبہ اسلامی تحریکیں اور اسرائیل

امریکہ بہادر اپنے لیے تو جموریت پسند کررہاہے مگر باقیوں کے لیے آمریت ایسا کیوں ہے؟

امریکہ نہیں چاہتاکہ دنیا میںاسلامی تحریکیں اقتدار میں آئیں اور اسلام کے آفاقی نظام کو قائم کریں جس کی دنیا کو تلاش ہے

پاکستان اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جو کانٹے کی طرح مغرب کی آنکھ میں کھٹک رہاہے

راجہ ذاکر خان

جدید دنیا میںیورپ اور امریکہ میں جمہوریت اورجمہوری ادارے مضبوط جبکہ افریقی اور ایشیائی ممالک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے قدرے کمزورہیں اوراکثر ممالک میں بادہشاہتیں قائم ہیں،مغربی استعمارنے اپنی سپرمیسی قائم رکھنے کے لیے ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا،مغرب نے اپنے لیے تو جمہوریت پسند کی اور ترقی کی منازل طے کیں مگر دیگر ممالک کو اپنا باجگزار بنانے کے لیے وہاں جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں،ترقی پذیرممالک کے عوام اور اہل دانش کے لیے یہ بڑا سوال تھا کہ وہ پوچھتے کہ امریکہ بہادر اپنے لیے تو جموریت پسند کررہاہے مگر باقیوں کے لیے آمریت ایسا کیوں ہے؟یہ سوال اگر ترقی پذیر ممالک کے اہل دانش اٹھاتے تو یقینااس کا جواب تلاش کرلیتے، اپنی قوم کی رہنمائی بھی کرتے اورآج وہ بھی ترقی یافتہ ممالک میںشمار کیے جاتے ۔ان ممالک کے عوام بھی بنیادی انسانی سہولیات سے استفادہ کرتے اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکلتے۔

مغرب کے اہل دانش نے طویل غوروحوض کے بعد اپنی قیادت اور اپنے اشرافیہ کوگائڈ لائن دی کہ اگر دنیا پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنا چاہتے ہوتو ترقی پذیر ممالک کے عوام اور حکمرانوں کے در میان خلیج حائل رکھناان ممالک میں جمہوریت کو سر اٹھانے کا موقع نہ دینا۔اگر ترقی پذیر ممالک کے حکمران اورعوام ایک پیج پر آگئے تو دنیا پر حکمرانی کا مغربی خواب دم توڑ جائے گا۔مغرب د نیا پر اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے اپنے سارے وسائل صرف کررہاہے کہ ترقی پذیر ممالک جمہوریت کی افادیت سے آشنا نہ ہوجائیں۔مغرب نے کمال حکمت کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کے اشرافیہ کو اپنے قریب کیا اور ان کو باور کرایاکہ اگر وہ مغرب کے آلہ کار نہیں بنیں گے تو کبھی بھی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے یا جہاں جہاں ان کی بادشاہتیںقائم ہیں ا ن کی بادشاہتوںکو خطرات لاحق ہوجائیںگے۔تب سے یہ اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر انسانوںکو غلام بنائے ہوئے ہے۔

رجیم چینج کا نعرہ امریکہ نے لگایا یقینا اس کے پیچھے پورامنصوبہ ہوگا،امریکہ مغرب کاسرپرست ہے،امریکی اہل دانش نے یہ محسوس کیاکہ ایک عرصہ بیت گیا جو کام مغرب نے اشرافیہ سے لیناتھا وہ لے لیا اوراب رجیم چینج کرتے ہیں تاکہ نئے مہرے امریکہ کے لیے خدمات سرانجام دیں۔امریکہ نے رجیم چینج کرنے کے منصوبے کا آغاز مشرق وسطی سے کیا،مشرقی وسطی میں ایک طویل عرصے سے بادشاہتیںقائم ہیں،جن سے امریکہ نے خوب استفادہ کیا،اب ان کو بدلنے کا فیصلہ کیا،مشرقی وسطی میں طویل عرصے سے اخوان کام کررہی ہے ،جو عوام کے لیے اسلام اور جمہوریت کو پسندکرتی ہے،مشرق وسطی میں اخوان ایک مضبوط قوت ہے،امریکہ نے جب مصر شام اور دیگر ممالک میں رجیم چینج کرنے کا عمل شروع کیاتو تو عوام کی ایک بڑی تعداد اخوان المسلمو ن کی طرف چلی گئی جن کاپہلے سے ہوم ورک موجود تھا،عرب بہار کے نام سے ایک طوفان تھا جو پورے مشرق وسطی کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔

امریکہ نے جب دیکھا کہ حالات اس کے کنڑول سے باہرہورہے ہیں اور مشرق وسطی میںاخوان المسلمون رائے عامہ منظم کرکے عرب بہار لے آئی ہے اگر یہ کامیاب ہوگئی تو پورا مشرق وسطی جو تیل اور سونے کی دولت سے مالامال ہے اور یہاں کے فوج اور عوام ایک مضبوط طاقت بن کر ابھریںگے ،جمہوری انداز سے یہ تبدیلی آئے گی جس کی مخالفت کا کوئی جوازبھی نہیں ہوگا،یہ خطے ترقی کریںگے اور امریکہ کی غلامی سے آزاد ہوجائیںگے،امریکہ نے اپنا منصوبہ تبدیل کیا،بادشاہتوں سے ہی رابطہ رکھنا ضروری خیال کیا۔

امریکہ نہیں چاہتاکہ دنیا میںاسلامی تحریکیں اقتدار میں آئیں اور اسلام کے آفاقی نظام کو قائم کریں جس کی دنیا کو تلاش ہے،اس وقت انسانوں کے بنائے ہوئے سارے نظام فیل ہوچکے ہیں اور دنیا ایک متبادل نظام کی تلاش میں ہے اور وہ متبادل نظام اسلام کی صورت میں مسلمانوںکے پاس ہے۔اگر اسلامی ممالک میںسے کسی ایک ملک میںبھی اسلام اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ اور قائم ہوگیاتو دنیامیں سلیم لفطرت انسان ا س کے انفرادی اور اجتماعی نظام عدل کو دیکھ خودبخود مسلمان ہوجائیںگے۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو نظام بنا کردیا ہے وہی نافذ اورقائم ہوگا تو دنیا امن کا گہوارہ بنے گی اور انسانیت کو سکون میسر آئے گا۔امریکہ اس نظام سے ڈررہاہے حالانکہ یہ سب انسانوںکی بھلائی کے لیے ہے۔امریکہ کو اسلام سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان میں رجیم چینج کے حوالے سے جو باتیں کی جارہی ہیں،ان کی حیثیت مشرقی وسطی کے حالات سے مختلف ہیں،پاکستان ایٹمی ملک ہے اسلامی اور مغربی دنیا میں اس کی اہمیت ہے،پاکستان کی فوج دنیا کی تیز ترین فوج ہے جدید ٹکنالوجی سے لیس ہے،22کروڑ عوام ہیں جو ویثرن رکھتے ہیں۔یہاںکے حالات اورمشرق وسطی کے حالات میںمماثلت بھی نہیں ہے۔یہاں لوگ آزاد ہیں جہاں چاہیں مظاہرہ کرتے ہیں اظہار رائے کی آزادی ہے لوگ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔

پاکستان اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جو کانٹے کی طرح مغرب کی آنکھ میں کھٹک رہاہے،اس لیے پاکستان کے خلاف اسرائیل ،ہندوستان امریکہ کی پرسرستی میں وارکرتے ہیںمگر ا ن کی دال نہیں گھلتی ۔پاکستان مظلوم کشمیریوںاور فلسطینیوں کا پشتیبان ہے۔پاکستان نے صرف کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر آواز بلند کرتاہے بلکہ دنیا کے دیگر مظلوموں کے لیے بھی امیدہے۔

پاکستان اور اسلامی ممالک کے عوام اور اہل دانش کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ملک وملت کی بہتری چاہتے ہیں،تو اسلام کی طرف لوٹ آئیں،قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں،ملائشیاکے عوام نے فیصلہ دے دیاہے قطر کی حکومت نے بھی جس انداز سے فیفا میں اسلامی سکالرز کو دعوت دی تاکہ وہ فیفا میں شرکت کرنے والوں تک دین کی دعوت پہنچائیں یہ تازہ ہوا کے جھونکے ہیں۔

ملت اسلامیہ بیدار ہورہی ہے اور یہی وقت ہے بیداری کا اسلامی تحریکیں اپنے اپنے انداز سے فعال اور متحرک ہیں۔عوام ان پر عتماد کررہے ہیں۔یہ تحریکیں ملت کو مغرب کی غلامی سے نجات اور امت کو عروج پرلے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

قیادت کا امتیاز

عادل وانی

ہَوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جسکو حق نے دئیے ہیں اندازِ خسروانہ

لغزشوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اگر قیادت کی خوبیوں اور اچھاہیوں کو تحریر نہ کیا جائے تو یہ یک طرفہ اور جانب دار عمل یقیناً قلمکار کی ’’قلمی اور تحریری‘‘ خیانت شمار ہوتی ہے جبکہ ’’قلم‘‘ کا حق اور حُسن یہ ہے کہ اُسے صرف اور صرف سچ اور خیر کے لئے استعمال کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ سچا اور سمجھدار لکھاری اپنے ایک ایک لفظ اور جُملے کو ناپ تول کر لکھتا ہے تاکہ انجمنوں، جماعتوں اور تحریکوں میں موجود خیر و شر کو بغیر مبالغہ من و عن معزز قارئین تک پہنچایا جاسکے۔آگے بڑھنے سے پہلے یہاں پر اس اشکال اور الجھن کو دُور کرنا ضروری ہے کہ کیونکر خیر و شر کے یہ دونوں پہلو قارئین کے سامنے لا ئیں جائیں؟ میری دانست میں اس کی دو خاص اور بنیادی وجوہات ہیں۔

1۔ قارئین تحریک کے ہر دو پہلوئوں(مثبت اور منفی) سے پوری طرح باخبر رہیں۔

2۔ تاریخ کی جمع و تدوین کا کام ہوتا رہے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کو کوئی قیادت اور تحریک سے جھوٹ کی بنیاد پر گمراہ نہ کر سکے۔

اس ابتدئیہ کے بعد اب آتے ہیں قیادت کے اُس امتیاز کی طرف جو وصف ہمیشہ ہمیشہ حالات و واقعات کے گردوغبار میں عوام الناس اور خاصکر تحریکی متعلقین کی آنکھوں سے اوجھل رہا یا رکھا گیا۔’’خیر‘‘ کے اس پہلو کو کارکنان کے دلوں میں اُتارنے کے لئے کبھی کسی صاحبِ قلم نے وہ انتھک محنت اور کوشش ہی نہیں کی کہ جس سعی و جہد کا یہ اہم مسئلہ متقاضی تھا۔

’’طوالت‘‘ کا یہ نفسیاتی اثر ہے کہ وہ نہ صرف عام، جذباتی بلکہ منجھے ہوئے مسافروں کو بھی تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار کر دیتی ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ عام اور جذباتی کارکن اس تھکاوٹ اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے جبکہ مقام و منصب کے اعتبار سے بڑے اور خاص لوگ اس تھکاوٹ اور پریشانی کا اظہار تک بھی نہیں کرپاتے اور برداشت و صبر کی یہی معراج اُنہیں معتبر،خاص اور قابلِ رشک بنا دیتی ہے۔دُور تک پھیلے ہوئے مہیب و منحوس سایوں،گٹھا ٹوپ اندھیروں اور تند و تیز ہواوں میں چراغِ اُمید جلائے رکھنا اور پھر چراغ کی اِس ٹمٹماتی اور انتہائی کمزور روشنی سے اپنے قافلے کو مسلسل راستہ دِکھانے اور مجتمع رکھنے کا کام یقیناً ایک عظیم کارنامہ ہے اور اگر اتفاق سے اس ’’قافلے‘‘ کا ہر فرد اپنا ایک الگ مزاج،الگ سوچ،الگ پسِ منظر،الگ علمی یا جہلی کیفیت،الگ ذہنی استعداد،الگ رہن سہن اور الگ بودوباش کا مالک ہو تب تو ان منقسم اور متفرق سوچ و فکر کے حامل ہزاروں افراد کو دہائیوں تک صرف جمع رکھنا ہی کسی ’’معجزے‘‘ سے کم نہیں شمار ہونا چاہیے!

اب اگر آپ نہ صرف جمع ہیں بلکہ تمام تر آزمائشوں،مشکلات اور مصائب کے باوجود قدرے منظم انداز میں کھڑے بھی ہیں تو یہ’’معجزہ‘‘ یقیناً قیادت کی دُور اندیشی،دلنوازی،محبت اور خیر خواہی کا ہی مرہونِ منت ہونا چاہیے۔ہم خُود اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ بڑے بڑے طوفان اور تیز ترین آندھیاں چلائی گئیں مگر یہ قافلہ پھر بھی گِرتا سنبھلتا دھیمی چال سے ہی سہی مگر آگے ضرور بڑھتا رہا! قدم قدم پر سازشوں کے پے در پے جال بُھنے اور بچھائے گئے،بد گمانی اور کردار کُشی کے زہر کو بھی اس تحریک کے رگ و ریشے میں اُتارنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور علاقائی و تنظیمی عصبیت پر مبنی جہالت کے نعروں کو بھی چہار سو بلند کیا گیا لیکن یہ قافلہ ان تمام تر اوچھے اور مہلک ہتھکنڈوں کے باوجود موجود،مربوط اور منظم رہا! کیوں؟صرف اس لئے کہ اللہ کی تائید و نصرت کے بعد یہ ’’قیادت‘‘ کا وہ ہمالیائی عزم و یقین اور ہمت و حوصلہ ہی تھا کہ جس نے ہر طوفانی بھنور کے اندر بھی اس قافلے کی ’’ناو‘‘ کو ہر قیمت پر مقدم اور محفوظ رکھا۔ جاری ہے۔

٭٭٭