مجلس خواتین فکر وخیال

شہزاد منیر احمد

بیگم بشریٰ نصابی اعتبار سے کوئی زیادہ پڑھی لکھی خاتون نہ تھی۔اخبار بینی، کتاب دوستی اور علم و ادب سے شغف نے مگر ان کی شخصیت کو واقعتاً ایک دانشمندانہ نکھار دے کر ہر دلعزیز بنا دیا تھا۔

دن بھر وہ گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف رہتیں۔ شام کو اخبار،اس طرح پڑھتیں جیسے صبح اس پر REVIEW لکھنا ہو۔۔ ماہنامہ حکایت ایک عرصے تک گھر منگوایا کرتیں۔ دوسری خواتین کے ساتھ بیس لائبریری جا کر خود اپنے ذوق و شوق اور پسند کی کتابیں لے کر آتیں۔۔ شروع شروع میں انہیں دشواریوں کا سامنا بھی ہوا۔ مثلاََ اجنبی اور مشکل الفاظ کے معنی،ادبی اصطلاحات کا استعمال اور گھریلو ذمہ داریاں بالخصوص چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی سنبھالنا وغیرہ وغیرہ۔

بیگم بشریٰ جتنا صاف و سادہ عقیدہ رکھتی تھیں اس سے زیادہ اخلاصِ اور یقین سے اس پر عمل پیرا بھی تھیں۔ مہمان نواز تو وہ پائے کی تھیں۔ مطالعہ کرتے ہوئے رک کر کہتیں ” اس کا کیا مطلب ہے ” اور کتاب میری طرف بڑھا دیتیں۔” پڑھے جانے والے موضوعات پر وہ میرے ساتھ تبادلہ خیال بھی کرتیں۔۔ اب ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ نئی بات یا واقعہ پر بات کریں اور نئے سیکھے ہوئے الفاظ روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کریں۔ ایسا کرنے سے ان میں پیدا ہونے والے اعتماد کا نکھرتا ہوا رنگ ان کے کھلتے ہوئے چہرے اور REFLEXES سے عیاں ہوتا تھا۔۔

بیگم بشریٰ کو مشہور ادیب خواتین کی کتابوں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ مشہور و نامور شخصیات کیا پاکستانی اور بین الاقوامی کے اخبار میں چھپے انٹرویوز بڑے غور سے پڑھتی تھیں۔ ان کی یادداشت بلا کی تھی۔کہی سنی بات، بگھتے ہوئے حالات نظر سے دیکھے مناظر کو اپنے ذہن میں بڑی نفاست سے محفوظ رکھتی تھیں۔ تلاوت قرآن پاک اردو ترجمہ کے ساتھ بعد نماز عصر کیا کرتیں۔۔

گھریلو ذمہ داریوں، بچوں کی وردی اور سکول بستے تیار کر کے جب کمرے میں لوٹتی تو سب سے پہلے اخبار پکڑتی تھیں۔۔ اگر اخبار موجود نہ ہوتا تو خفا ہو کر مجھے کہتی جائیں اب آپ میرا اخبار ڈھونڈ کے لائیں۔ کہا کرتی تھیں اخبار پڑھنے سے میری دن بھر کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے ۔ مطالعہ کرتے میرے دل میں ایک عجیب سی خوشی کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔مجھے کتابیں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے ۔

ایک بار ایسا ہوا کہ میں اپنی ڈائری لکھتے لکھتے رک گیا۔ 9 نومبر 2001 کو امریکہ میں دو ٹاور گرائے گئے۔ اس واقعہ کو عام طور پر 9 الیون کہہ کر پکارا جاتا ہے ، جس کے بارے کہا گیا تھا America under attack. اس واقعہ کو امریکہ نے افغانستان میں موجود سعودی شہری اسامہ بن لادن کا منصوبہ قرار دیا تھا۔ امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے میں پاکستان کی مدد و معاونت چاہتا تھا۔ جس کے لیے امریکی چیف آف ڈیفنس کمیٹی نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو دھمکی امیز فون کر کے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ مجھے اس جنرل کا نام بھول رہا تھا۔ میں نے بشریٰ سے ایسے ہی ذکر کر دیا تو انہوں نے بتایا ” میرے خیال میں اس افسر کا نام جنرل کولن پاول تھا” میں بڑا خوش ہوا اور بشریٰ سے کہا یار تو تو بڑی ذہین ہے ۔مسکراتے ہوئے بولی، تو پھر TREAT، آئس کریم۔

بیگم بشریٰ مختلف تقریبات میں شامل ہوتیں تو نسوانی نفسیات کے مطابق بات کا آغا کرتیں، کوئی موضوع متعارف کروا کر خود خاموش ہو جاتی اور پھر بڑی توجہ سے دوسری خواتین کے احساسات، تبصرے اور باتیں سنتیں اور ENJOY کرتی تھیں۔

ایک بار ہسپتال CMH انہیں داخل ہونا پڑا۔۔سینئیر آفیسرز والا کمرہ Suit مل گیاتھا۔ سہولتوں کے اعتبار سے تو ہم مطمئن تھے مگر ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اکیلی اداس ہوں گی۔ کیوں کہ کمرے میں ساتھ ٹھہرنے کے لیے گھر سے ان کی ہمشیرہ ابھی نہیں پہنچی تھیں۔ بہرکیف شام کو جب ہم ہسپتال وارڈ پہنچے تو وہاں پیرا میڈیکل اسٹاف لیڈیز بیگم بشریٰ کے ارد گرد بیٹھی خوش گپیاں کر رہی تھیں۔ بیگم بشریٰ نے ان کی خاطر مدارت کے لیے اچھے خاصے لوازمات منگوا رکھے تھے۔ ساری لیڈیز ایک دوستی کے ماحول میں بیٹھی ہنسی مذاق اور چھیڑخانیوں میں مشغول تھیں۔ میں نے چھوٹی بیٹیوں کو کمرے میں بھیجا اور خود میں باہر لان میں جا کر بنچ پر بیٹھ گیا۔بعد میں بیگم بشریٰ نے اس جمگھٹے میں ہونے والی مجلس کی پوری روداد کو مزے لے لے کر میرے ساتھ SHARE کیا۔

میں سوچنے لگا کہ انسان میں مسرت اور محبت کی ضرورت قدرت نے یکساں تقسیم رکھی ہے ۔ جس طرح۔ روح کو بڑھی اور چھوٹی روح میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اس طرح محبت کو بھی مذکر اور مونث میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ انسان ، کیا عورت کیا مرد اس باہمی محبت کی کہیں تلاش میں اور کہیں اسے دوام بخشنے میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ خوش مگر وہ اپنے ہم جنسوں میں شامل ہو کر ہی ہوتا ہے ۔

میں نے بیگم بشریٰ سے خواتین کی اس Social gathering کی سنی ہوئی تفصیلات کو اپنے لفظوں میں رقم کیا اور بیگم بشریٰ سے پڑھوایا کہ میں نے کوئی غیر ضروری، قابلِ اعتراض بات یا نامناسب الفاظ تو نہیں لکھ دئیے ۔ آگے بیان کردہ پیرا جات (, مکالمے) اس بیٹھک میں شامل خواتین کے ہیں۔ اپ پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کی خواتین اس دور کی ثقافت میں اپنی ذات کے اعتبار سے کیسے سوچتی ہیں۔ عورت کتنے ہی مضبوط اعصاب کی مالک اور پر اعتماد کیوں نہ ہو اسے ایک مرد (باپ بھائی اور خاوند) کا ساتھ زیادہ محفوظ اور مضبوط بناتا ہے۔علامہ اقبال لکھتے ہیں

نہ پردہ،نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد

عورت کی فطری تشکیل اس کے ہاں اولاد کی پیدائش سے مکمل ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں اور جیسے کہیں ترقی ہوئی ہے وہ عورت کے بطن سے جنم لینے والے مردوں کے علم و ہنر اور محنتی ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ بے شک وہ خود کچھ لکھے یا نہ لکھے مگر دنیا بھر کے تحقیقی ادب، خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہے کی تخلیق کرنے والے اسی ”عورت ” کے فرزند ہیں

عورت بظاہر مٹی کی ایک مٹھی ہے یعنی خاکی جسم رکھتی ہے۔لیکن وہ آسمان کی بلندی پر چمکتی ہوئی ثریا (ستاروں کا جھرمٹ) سے بھی بڑھ کر روشن کرنے والی ہستی ہے۔

شرف میں بڑھ کے ثریّا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرَف ہے اسی دْرج کا دْرِ مکنوں

عورت، اپنی ہیت اور حیثیت کے اعتبار سے اس وسیع و عریض کائنات میں بہت بڑی حقیقت ہے جسے سمجھنا بیشک ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔وہ سوچتی ہے، خواب دیکھتی ہے۔ کبھی شاد تو کبھی مغموم بھی۔ اس کا وجود مرد کی دل جوئی کے لیے ہے۔ ہمیں بھی اس محترم تخلیق (عورت) کو اسی مقام کمال پر اپنا معتبر رفیقِ بنا کر رکھنا چاہیے، جس کی وہ حقدار ہے۔ جس قوم نے اپنی عورتوں کو ان کے فطرت کی طرف سے ودیعت کردہ کردار (نسلوں کی کردار سازی) سے محروم رکھا اور نئی نسل علم و فن اور جفاکشی سے بھی دور رہی تو وہ قوم جلد مر مٹ گئی۔ چنگیزی اور تیموری نسل کا عروج دنیا نے دیکھا مگر چونکہ گنوار تھے بے علم تھے اس لیے جلد گمنامی کے پہاڑوں تلے دب گئے۔ مرد کی محبت عورت کی فطری کمزوری ہے۔ جسے وہ پانے کے لیے کٹھن سے کٹھن حالات کا بھی سامنا کر گزرتی ہے۔ محبت کی محرومی سے عورت کا حسن گہنایا گہنایا رہتا ہے اور وہ خود ادھوری ادھوری۔ خاوند کی نسبت سے عورت وہ عورت بنتی ہے جس کے بارے علامہ اقبال نے فرمایا ہے

‘ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ”

مکالمہ جات

بیگم بشریٰ

سچ اور سچائی کے امتیاز کو تو شاید میں بیان نہیں کر سکتی۔مگر یہ پورے وثوق کے ساتھ کہتی ہوں کہ میں بحیثیت بشریٰ کائینات کا سچ ہوں اور بحیثیت مسز بشریٰ منیر ایک سچائی ہوں۔جب بھی کوئی مجھے مسزمنیر کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو میرے جسم میں خوشیوں کی دوڑتی ہوئی اس سچائی کی لہروں کو نمایاں دیکھا جا سکتا ہے۔۔

ایک نرس

میں ایک ایسی موم بتی کی طرح جل رہی ہوں جس کے دونوں کناروں (غیر مطمئن حال اور غیر واضح مستقبل)کو آگ لگی ہوئی ہے۔ میں پگھل پگھل کر مر رہی ہوں مگر میرے جلنے اور روشنی سے کسی کو کوئی نہ فائدہ ہو رہا ہے نہ میرے مرنے کا احساس۔

ڈاکٹر چنتا

میں روز اس سے (خود کلامی) میں باتیں کرتی اور کہتی ہوں اگر تمہاری محبت کے نور سے وضو سے میں اپنے وجود کو طہارت نہیں بخش پائی تو تمہاری یادوں کے سرور کے تیمم سے محبت کا کفارہ ادا کر لوں گی۔تم میرے ان حقیقی جذبوں اور واجب سجدوں کو تو کم از کم قبول کر لو تاکہ میں سکون سے مر سکوں۔

دوسری نرس

تم شہروں میں بسنے والی عورتوں کی آدھی قمیض اور مختصر شلوار کو خوبصورت لباس کہہ کر خود کو دھوکا دیتی ہو۔دوپٹہ تمہاری ثقافت کا باوقار جزو ہوا کرتا تھا اسے تم ترک کر چکیں۔خوبصورت لباس یہ ہے جو اس وقت میں نے پہن رکھا ہے۔ جس نے میرے سر کے بالوں سے لے کر پاؤں تک میرا جسم پردے میں چھپا رکھا ہے کہ۔میں ایک عورت ہوں، اور عورت پردے ہی میں ججتی ہے۔بے پردہ عورت خود کودکھاتی ضرور ہے اسے مگر دیکھتا کوئی نہیں عورت شرم و حیا میں رہے تو وہ جاذب نظر بھی ہوتی ہے اور وضح دار بھی۔

ڈاکٹر نصرت

میں تو ان سے کہتی ہوں، یہ سوال کہ میں نے تمہیں کیسا پایاہے۔ کہہ سکتی ہوں کہ اگر تم زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوتے یا جاہلیت آج ہمیں فتح کر لے تو لوگ آپ کو دیوتا بنا کر تمہاری پوجا شروع کر دیں۔رہ گئی میں تو میری۔ بات اور ہے۔تم نے مجھے محبت کسی اعزاز کی طرح بخشی ہے میں تمہاری شکر گزار ہوں۔۔

نرس شمائلہ

ہماری خواتین جب گھر کی چار دیواری میں اپنے مریضوں کی تیمارداری، نگہداشت اور علاج معالجہ میں معاونت کریں تو ہم اسے ماں کی ممتا،، بہن کی محبت، بھائی کا احساس ذمہ داری، خالاوں اور پھوپھیوں کے پیار کا نام دے لیتے ہیں۔وہی عملی خدمت جب ہسپتال میں ملازم لڑکیاں ادا کریں تو انہیں NURSE. کہہ کر ان کی توہین کرتے ہیں طنزیہ ریمارکس دے دے کر دکھی کرتے ہیں۔ان کے اسکینڈل بنا بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نبیلہ راجہ

شادی کروں گی، کروں گی اور ضرور کروں گی۔

دیکھیں میں سب سمجھتی ہوں، اس دنیا والوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی۔ میں کسی طلسماتی شہزادے یا خوابوں کے امیر زادے کی تلاش میں نہیں ہوں۔ نہ ہی میں کسی چھیل چھبیلے گھبرو نوجوان کی منتظر ہوں۔ میں تو گوشت پوست کے ایک ایسے فرد سے جیون بندھن باندھنا چاہتی ہوں جو مجھے بیوی سمجھتے ہوئے خود کو میرا محافظ خاوند ثابت کرکے رہے، نہ کہ بھیڑوں کے کسی گلے کا گڈریا بن کر مجھے ہانکتا پھرے۔ میں غلطی کروں تو وہ مجھے روکے ٹوکے۔ میں اچھا کام کروں تو وہ میری حوصلہ افزائی کرے۔ ہم اکٹھے بیٹھ اپنے مستقبل۔ کے خاکے کھینچیں۔ دکھ سکھ اور ۔انس و الفت شیئر کریں۔

نرس سیماں گجری

پہلے مجھے اس کے بارے کچھ کہہ تو لینے دیں یارپھر بات کرنا۔ وہ بڑے اونچے اونچے تعریفی جملوں سے میرا تعارف کرواتاہے، مگر جب وہ اس سچ سے کنی۔کتراتا ہے کہ میں ایک نرس ہوں تو میں خود کو ایک بیوقعت سی شے سمجھنے لگتی ہوں اور اسے مٹی کا مادھو۔اپ۔میرے ساتھ اتفاق کریں گی کہ ایسا رویہ محبت کی دنیا میں یقیناً دیر پا نہیں ہوتا۔۔

سنجیدہ مزاج عمر رسیدہ مریضہ

بس بیٹا، یہی اللہ کا کرم ہے اتنی طویل ازدواجی زندگی گزر گئی۔ بڑے اطمینان اور شکر کی گزری۔ مشکلات دیکھیں، تنگ دستی دیکھی اور خوشحالی بھی۔ اللہ نے ہر نعمت عطاء فرمائی۔

شادی ہونے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ ہمارا دن اس احساس کے ساتھ گزرے کہ ہم دولہا اور دلہن ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں اختلاف نہیں کریں گے۔ اور ناراض نہیں ہونگے۔ہماری پچھلی زندگی کے کٹورے میں پانی تھا یادودھ،اس کٹورے میں نئی زندگی ڈالنے کے لیے اس کو اب انڈیلنا پڑے گا۔ تب ہی کچھ نیا ڈالا جا سکے گا یہ طرز فکر مجھے علامہ اقبال کے فلسفہ ” تخریب تمام ” سے ملا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اللہ نے انسان پیدا کرنے کے لیے ” ہمارے زمانہ عدم ” کو مکمل ختم کر کے انسان کو نئی زندگی عطاء فرمائی۔زمین کی اس زندگی کو ختم کر کے آخرت کی زندگی دے گا۔ یہ تغیر اور تغیر پسندی اللہ الرحمٰن کو بڑی پسند ہے۔ اس فلسفہ کی رو سے ہمیں سوچتے رہنا چاہیے کہ آج کا دن اپنی پوری راحتوں، آب وتاب، ظلمتوں اور دشواریوں کے ساتھ مکمل ختم ہو جانے والا ہے۔ ہمارے ہاتھ لگنے والی آج کے دن کی مہلت کو جتنا پاکیزگی اور پارسائی کے قریب رکھ سکتے ہیں اس کے لیے کو ششیں کرنا چاہیں۔ کیونکہ اللہ کریم کا وعدہ ہے کہ ”لیس للانسان الا ما سعی” تمہیں وہی کچھ ملے گا جس کے لیے تم کوشش کرو گے۔۔۔ یہ۔ہمارا ایمان ہے کہ ” انک لا تخلف المیعاد” اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔۔

بیگم بشریٰ میں ذاتی طور پر آپ کی شکر گزار ھوں کہ آپ نے بیمار ہونے کے باوجود اتنی اچھی ایک طرح سے ہماری TEAPARTY کر دی ہے۔، اور وہ بھی ہسپتال میں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سدا سلامت،خوش اور مہمان نواز رکھے۔ سب نے کہا آمین۔ڈاکٹر نبیلہ راجہ بولیں، اگلی چائے ہم بیگم بشریٰ کے گھر جا کر پئیںگے کیونکہ یہ تو کل ہسپتال سے فارغ ہو جائیں گی۔

بیگم بشریٰ نے مسکراتے ہوئے کہا، ضرور ضرور، میں خود آپ کو بلوائوںگی۔

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں