اقوام متحدہ کا کردار

محمد احسان مہر

عالمی امن کے لیے اقوام متحدہ کا کردار او ر عالم اسلام کی ذمہ داری

اسلامی ممالک کو مغربی طاقتوں کے ساتھ جہاد اور دہشت گردی کی تعریف پربین القوامی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے

امریکہ نے ماضی قریب میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران جہاد کے الفاظ اور کردار کو خوب استعمال کیا

جب امریکہ افغانستان میں اپنی طاقت کے پرخچے اڑتے دیکھ رہا تھا تو اس نے جہاد کو شدت پسندی سے جوڑ کر دہشت گرد ی کا لیبل چسپاں کردیا

اسلامی ممالک میں مغرب جموریت پسند کرتا ہے نہ آمریت اور بادشاہت،لیکن مغرب کے پیادے کے طور پر کام کرنے والا چاہے کسی قبیل سے ہو اس کے لیے راہیں کشادہ کر دی جاتی ہیں ،ایسے پیادوں کا اپنے مفادات کی خاطر بھر پور ساتھ دے کر آگے بڑ ھایا جاتا ہے اور مفادات پر آنچ آنے کی وجہ سے (رجیم چینچ) جیسے کسی بھی فارمولے سے راستے سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے، عربوں میں مصر کے صدر مرسی سمیت مسلم دنیا میں اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ،موجودہ حالات میں عالم اسلام مظلومیت ،بے بسی اور لاچاری کی حالت میں عالمی برادری سے اپنا حق مانگ رہا ہے ،فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل کرنے میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی بے حسی اور عدم دلچسپی سے نالاں (مایوس) ہے ۔ دنیا کو امن اور انصاف کا پیغام دینے والا مذہب اسلام ، اور اس کے ماننے والے آج خود دہشت گردی کا شکار ہیں ،آج عالم اسلام جن عالمی اداروں سے انصاف کی امید لگائے بیٹھا ہے،ان کے قیام کے مقاصد ہی اسلام کو تہہ تیغ کرنا ہے ۔

اقوام متحدہ کے قیام کا بظاہر مقصد طاقتور ممالک کو کمزور ممالک میں مداخلت اور جاحیت سے روکنا تھالیکن اقوام متحدہ کے بانی (طاقتور ممالک)نے دنیا کو 2حصوں میں تقسیم کرکے اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا جس سے مسلم ممالک خاص طور پر ان کا نشانہ بنے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔اسلامی ممالک نے بھی اپنے دفاع اور مسائل کے حل کے لیے ( او، ٓئی ، سی ) کے نام انگڑائی لی ،جو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کانفرنسس، برادر اسلامی ممالک میں وفود کے دورے ، مذمتی بیانات اور فوٹو سیشن سے آگے کوئی بھی خاطر خواہ کردار ادا نہ کر سکی ،چند دن پہلے بھی او ، آئی ،سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ(تفریح طبع) کے لیے پاکستان تشریف لائے اس دوران وہ آزاد کشمیر میں بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر گئے اور متاثرہ افراد کی مشکلات کا جائزہ بھی لیا ،موصوف مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار سے بخوبی واقف ہوگئے ہوں گے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں ان مسائل کے حل کے لیے کس سوچ کو بیدار کرتے ہیں ۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک (نیٹو اتحاد) نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جھوٹ پر مبنی، من گھڑت اطلاعات کی بنیاد پر اسلامی ممالک کو روند ڈالا ، دوسری طرف اسی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور کردہ قرار دادیں جن پر عمل کرنے کا بھارت نے عالمی برادری سے وعدہ کیا ہے ، اب ان پر عمل کرنے سے انکاری ہے ،اور اقوام متحدہ بھارت پر دبائو ڈالنے سے گریز کر رہا ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت 2سال سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کام کر رہا ہے اور ماہ دسمبر2022میں سلامتی کونسل کی صدارت بھی اس کے پاس رہی ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر کا مسلئہ حل کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے ۔فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں عالم اسلام نے کتنا فعال کر دار ادا کیا یہ بھی اسلامی ممالک کے ماضی کے اقدامات سے عیاں ہے ،مغربی طاقتوں نے دنیا کو تقسیم کرکے جو نظام حکومت دیا ہے وہ نظام اسلامی ممالک کو اسلام سے مزید دور لے جانے کا باعث بن رہا ہے ،فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف،اے ،ٹی،ایف) کا قانون اور کردار سب کے سا منے ہے، کس طرح اس قانون کے تحت حق اور باطل ،ظالم اور مظلوم میں تفریق کئے بغیر مسلم ممالک کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے ، عالمی طاقتیں ایک طرف فلسطین اور کشمیریوں کا حق خود ارادیت کا حق تسلیم کرتی ہیں ،دوسری طرف وہ مسلم ممالک کو ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے پربھی مجبور کرتی ہیں ،مغرب کا یہ دہرا معیار اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی اسلامی احکامات سے صرف نظر، صاحب اقتدار اور عوام میں وسیع خلیج پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ،یہ اقتدار بادشاہت کی شکل میں ہو ،جموریت یا آمریت کی شکل میں، کوئی بھی ملک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،اسلامی ممالک کو مغربی طاقتوں کے ساتھ جہاد اور دہشت گردی کی تعریف پربین القوامی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔امریکہ نے ماضی قریب میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران جہاد کے الفاظ اور کردار کو خوب استعمال کیا، لیکن جب امریکہ افغانستان میں اپنی طاقت کے پرخچے اڑتے دیکھ رہا تھا تو اس نے جہاد کو شدت پسندی سے جوڑ کر دہشت گرد ی کا لیبل چسپاں کردیا ،عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکداروں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو عالمی امن تہہ وبالا کرنے اور عالم اسلام کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کیا ،اور اسلامی ممالک کے حکمران کسی ایجنڈے کے بغیر آگے بڑھتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج نصف سے ذیادہ زمینی وسائل پر قابض 57اسلامی ممالک کے حکمران دفاعی پوزیشن پر کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ اللہ جس سے چاہے،جتنا چاہے اور جس طرح کا چاہے کام لینے پر قادر ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا ماضی یاد رکھنا چاہیے، ماضی تلخ ہو یا حسین ،جیسا بھی ہو ، بہرحال ماضی یاد رکھنے سے ہی نئی راہیں متعین کی جا سکتی ہیں ۔