مسیح الدجال

ڈاکٹر عبدالرئوف

دجال کون ہے؟

اسلام:

فتنہ دجال کے پھیلاؤ کے راستے میں دوسری بڑی مشکل

فطرت انسانی کے بعد دجالی شکنجے کو پھیلانے اور اس کی گرفت کو مضبوط کرنے کے راستے میں شیطان کے سامنے دوسری بڑی مشکل اسلام ہے۔ اسلام وہی دین ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرام لائے۔ یہ دین صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں لے کر آئے بلکہ یہ وہی دین ہے جو حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ لے کر آئے۔

قرآن حکیم فرماتا ہے۔

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ-کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ-اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَہْدِیْاِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ(13) الشوریٰ

ترجمہ:

تمہارے لیے اسی دین کوبنایا گیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو دیا تھا کہ وہ دین کو قائم کریں۔ اور تم لوگ اس دین میں پھوٹ نہ ڈالو۔ وہ دین مشرکوں پر بہت ہی بھاری ہے جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہو اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنے قرب کے لیے چن لیتا ہے۔اور ہر اس شخص کو اپنی راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ سورہ الشوری آیت 13

گویا یہی اسلام یہودیت کا بھی دین تھا اور عیسائیت کا بھی۔ پھر یہ لوگ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد اسلام کو چھوڑ کر الگ ھوئے اور تعصب کے خیموں میں جا گھسے۔ لیکن یہ اسلام کی مبادیات اور طرز زندگی سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام محض ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک دین ہے۔ ایک مکمل طریق زندگی ہے۔ جو اپنے ماننے والوں کو صرف عقائد ہی نہیں دیتا بلکہ چوبیس گھنٹے کی روزمرہ زندگی میں اعمال کے ذریعے مسلسل اپنی بنیاد سے جوڑے رکھتا ہے۔ اس کی بنیادیں عقائد کے علاؤہ ہمہ وقت کلام الٰہی، سنت نبوی، عمل پیہم اور تذکیر باہمی (یعنی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر) سے جڑی ہیں۔ اور ان بنیادوں کو ہلانا کوئی آسان کام نہیں۔ گویا شیطان کے دجالی فتنے کی سب سے بڑی جنگ مذہب سے ہے۔ اس دجالی فتنے کے سامنے اگر کوئی چیز مضبوط ترین سد راہ بن سکتی ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ یاد رہے کہ مسلمان دراصل اسلام نہیں۔ مسلمان ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہے۔ جبکہ اسلام ایک طریق زندگی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر مشتمل ہے اگر مسلمان کہلوانے والا شخص ااسلام کی ان تعلیمات پر پورا اترتا ہے تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے ورنہ جھوٹا۔

اسلام کے غلبے کی اللہ نے ایک ہی شرط رکھی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن ۔۔ترجمہ: اور تم ہمت نہ ہارو (نہ ڈرو)اور غم نہ کھاؤ، (اورمستقبل کی فکر نہ کرو) اگر تم (حقیقی اور سچے) ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے۔ (آل عمران 129)

دجال آج کے بے عمل اور زبانی دعوے دار مسلمان کو تو تاراج کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقی اسلام پر کاربند سچا مسلمان دجال کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کے مارے جانے کی خوشخبری کے پیچھے بھی یہی فلسفہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر دجال کا فتنہ میرے زمانے میں آیا تو میں اکیلا اس کے لیے کافی ہوں۔ اور اگر میرے بعد آیا تو میرے بھائی عیسیٰ علیہ السلام اسے ختم کریں گے۔ اس اعتبار سے شیطان کے دجالی فتنوں اور حملوں کا اصل ہدف اسلام ہے۔ کیوں کہ ملت اسلامیہ کی بنیادیں بہت گہری اور مستحکم ہیں۔

بقول اقبال:

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی

شیطان کے سامنے دجالی فتنہ پھیلانے میں فطرت انسانی اور اسلام جیسی ان دو بڑی رکاوٹوں کے علاؤہ انسانی نفسیات، عقلِ اجتماعی، دلیل ِقطعی، تاریخی حقائق، پچھلی قوموں کے عروج و زوال کے متعلق انسانی یاداشت اوران کی الہامی تصدیق، انسانی تہذیبوں کی کشمکش وغیرہ وہ عوامل ہیں جو شیطان کے دجالی فتنے کے پھیلاؤ میں کافی مزاحم قوتیں ہیں۔ ان سب کو پاٹ کر اور مذھبی روایات کو سبو تاژ کر کہ انسانیت پر مکمل شیطانی کنٹرول کا حاصل ہونا یقینا ایک مشکل اور دیرپا کام ہے۔ جس کے لیے یہود نے دجال کے حواری بن کر صدیوں محنت کی ہے اور انہیں اس چالوں کو بہت خفیہ رکھنے کی ضرورت پڑی۔

دجال کا پہلا حملہ

یہودیوں کے نزدیک اسلام پر شیطانی حملے اور اسلام کا ڈی این اے تبدیل کرنے سے کہیں زیادہ آسان کام عیسائیت کا ڈی این اے تبدیل کرنا تھا۔ اس لیے کہ عیسائیت کی بنیادیں وقت کے حوادث سے کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ عیسائیوں کا اپنی الہامی کتاب سے رابطہ کمزور تھا۔ مذھبی جہالت عام تھی، توہمات نے اصل دین کی جگہ لے لی تھی۔ اللہ کے کلام اور اللہ کے بندوں کے درمیان عیسائی مذھبی پیشوا حائل ھو گئے تھے، چرچ کے ذمہ دار مذھب سے زیادہ دنیا داری میں اور مال جمع کرنے کے پیچھے لگ گئے تھے۔ اور چرچ خود اپنی قبر کھود چکا تھا۔ لوگوں کے مذھبی بندھنوں سے آزاد ھوتے ہیں شیطان کے پجاری یہودیوں کے لیے اپنا جال پھیلانا آسان ہو گیا۔ چنانچہ یہود کی طرف سے تہذیب کی اس تبدیلی کا پہلا حملہ عیسائیت پر کیا گیا۔

درحقیقت اس مرحلے سے سینکڑوں سال پہلے عیسائیت پر شیطان اور دجال کے اس حملے کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب ایک مشنری یہودی سینٹ پال نے عیسائیت میں شامل ہو کر پہلے انجیل میں غیر محسوس ملاوٹ کر کہ اس کو مبہم اور مشکوک کیا اوراس میں ملاوٹیں کیں، اور پھر عیسائیت کو تثلیث (Trinity) یعنی تین خداوں کے مشرکانہ تصور کی راہ دکھائی۔ اور اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی توحید کی محنت پر شرک کی پہلی کاری ضرب لگائی گئی۔ جب عیسائیت کو یہاں تک فتح کر لیا گیا۔ تو عیسائیت پر دجال کی یلغار کے دوسرے مرحلے کا آغاز ھوا۔اس مرحلے میں آزاد ی رائے، تحفظ حقوق نسواں کے نام پر عورت کو چرچ سے آزاد کرکہ بازاروں کی زینت بنایا گیا۔ پھر اسے گھر کے حصار سے آزاد کیا گیا، اور محفلوں کی زینت بنایا گیا۔ رقص و سرود کی محفلوں کے ذریعے عورت کا استعمال کرکے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کیا گیا۔ پھر بے حیائی کے اڈوں کو آزادی کے علم برداروں نے لائسنس جاری کیے، قحبہ خانے قائم کر کہ عیاش اور مذہب سے نابلد لوگوں کو مذہب کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا۔

عیسائیت کے یہودی چال کے اس تیسرے مرحلے کا آغاز آج سے 8 سو سال پہلے چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں اس وقت ہوا جب یورپ میں تبدیلی کے نام پر ایک تحریک Renaissance کا آغاز کیا گیا۔اس تحریک کو انتہائی خفیہ اور گھناؤنے طریقے سے پروان چڑھانے کے لیے یہودیوں نے یورپ کی عوام کو بے وقوف بنانے کے دو اہم طریقے اپنائے۔

ایک طرف عوامی حلقوں میں خوبصورت نعروں کا استعمال کیا گیا۔ مثلا Renaissance کی اس زہریلی تحریک کو یورپ کی تبدیلی، اور انسانی شعور کی بیداری کی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا، کمزور کو انصاف کی فراہمی۔ غریب کی مدد، ہسپتالوں کا قیام، انسانیت کی حمایت، مزدور کے حقوق کا حصول، غربت کا خاتمہ، آزادی رائے، آزادی فکر جیسے خوش نما نعروں کے سہارے عوام کو وسیع پیمانے پر بے وقوف بنایا گیا اور عوام تو عوام سنجیدہ حلقوں کو بھی متذبذب (confuse) کیا گیا۔ کلاسیکل اور ماڈرن کی جنگ کو گلی کوچوں میں لا کر لوگوں کو باہم بدست و گریبان کر دیا گیا، اور ان نعروں کی بنیاد پر نئی نسل کو مذھب، تہذیب اور معاشرتی روایات کا باغی بنایا۔ مذھب کے خلاف خوب زہر اگل کر لوگوں کے اندر نفرت بھری گئی۔

عیسائیت کا شکار *

جیسا کہ میں نے اپنی پچھلی تحریر میں عرض کیا تھا کہ دجالی نظام کے سرخیل یہودیوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے پہلے حملے کا آغاز رینائیسنس Renaissance (تبدیلی کی تحریک) کی صورت میں عیسائیت سے کیا۔ اگرچہ اصل ہدف اسلام تھا۔ اور اسلام کی جڑیں محکم عقائد، قرآن وسنت اور عمل پیہم سے جڑی تھیں۔ اس لیے یہودیت نے محسوس کیا کہ کسی بڑی غلطی سے بچنے اور زیادہ محفوظ رہنے کے لیے پہلا تجربہ عیسائیت پر کیا جائے، تقریبا 400 سالہ اس تجربے میں یہود، عیسائیت کو دجالی نظام کا دست نگر بنانے میں سو فیصد کامیاب رہے اور عیسائیت کی مذہبی جڑیں کاٹ کر اسے مکمل شیطانی معاشرہ بنا دیا جہاں مادیت ہی مادیت ہے، اور مذھب کو دیس نکالا مل گیا۔ یہ عیسائی معاشرہ نہ صرف مکمل طور پر شیطانی معاشرے میں بدل گیا۔بلکہ دجالیت کا کامیاب حواری اور سرغنہ بھی بن گیا۔ اگرچہ یہ عیسائی معاشرہ اب بھی یہودیوں کے مطلوبہ معیار کو نہیں پہنچا۔ مگر ساری دنیا میں اسلام کے خلاف اقدامات، بے حیائی، پورنو گرافی، اسلام مخالف پراپیگنڈے، علماء دشمنی، جہادو قتال فوبیا، خدا کے خلاف سائنس کی گمراہ کن تشریح اور ترویج، مادیت کی رعنائی، کیپٹلزم کے ناسور، جدید جنگی ہتھیاروں کا ذخیرہ، طاغوتی نظام کی مضبوطی، پیپر اور ڈیجیٹل کرنسی، اور سود کے عالمی شکنجے کو دنیا پر کسنے جیسے اسلام مخالف یہودی ہتھیاروں کے استعمال میں عیسائیت بھی پوری طرح یہودیت کے شانہ بشانہ بڑھنے لگی۔عیسائیت کے مذہبی ڈی این اے کو تبدیل کرنے کی اس طویل صبر آزما تحریک Renaissance کا طریق واردات یہ رہا کہ

1.پہلے مرحلے پر مذھب کو پرانا، دقیانوسی، فرسودہ اور دور جدید سے غیر متعلق ظاہر کر کہ نئی نسل میں اس کے خلاف زہر بھرا گیا۔

2.بے حیائی کو ترویج دے کہ نئی نسل کو اخلاق باختہ کیا گیا

3.نئے نئے خوش کن فلسفوں کے ذریعے مذھبی اقدار کی بیخ کنی کی گئی۔

4.سود کو عام کر کے معاشی طور پر بدحال کیا گیا۔

5. معاشی بدحالی کے ذریعے لوگوں کو چوبیس گھنٹے روٹی کی تلاش میں سرگرداں کرنے کے ذریعے غیر محسوس انداز میں یہ باور کروایا گیا کہ انسان کے لیے مذھب کی نہیں بلکہ معاشی ترقی اور پیسے کی اہمیت ہے۔

6.مادیت کی ہوس کی بناء پر کارل مارکس یہودی کے ذریعے مزدوروں کو ابھار کر سرمایاداروں کے سر پر دے مارا گیا۔ اور نتیجتاً کیپٹلزم اور کمیونزم کے نام پر دو عالمی جنگوں کے ذریعے کروڑوں انسان مروا دیے گئے۔

7.ان عالمی جنگوں کے ذریعے یہودیت نے اپنی بہت کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ساری دنیا کو اس طرح باہم لڑا کر مروا دیا کہ دنیا کے سامنے یہودیت کا نام اور ان سازشوں کے پیچھے یہودیت کا ہاتھ بھی سامنے نہیں آیا۔

پھر جب ان یہودیوں کی ان گھناؤنی سازشوں کا کچھ ادراک جنگ عظیم کے زخم خوردہ ہٹلر کو ہوا تو اس نے جرمن ہونے کے باوجود یہودیوں کے خلاف ہولو کاسٹ کی وہ تاریخ رقم کی کہ یہودی آج تک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہیں۔

جاری ہے۔۔