
شیخ محمد امین
بھارت کی ہر سازش کا توڑ ایک ایسا پاکستان ہے جو داخلی طور پر منظم،اور یکسو ہو، منتشر نہ ہو
تحریک آزادی کشمیر کے لیے بجٹ کا ایک حصہ مختص کیا جائے
اس ایشو کو بین الاقوامی سطح پراُجاگر کرنے کے لیے ایک نائب وزیر خارجہ کی تقرری ہوجائے
مسئلہ کشمیر کو تعلیمی نصاب کا بھی حصہ بنایا جائے آزاد کشمیر خطے کے وزیر اعظم کو وزیر اعظم جیسی ہی اہمیت دی جائے
اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے پورے پاکستان کی طرف سے اسے مکمل مینڈیٹ دیا جائے، پورے آزاد خطے کو آزادی کشمیر کا بیس کیمپ قرار دیا جائے

جناب سراج الحق کا آبائی تعلق دیر سے ہے، تاہم پیدائش 5 اپریل 1962ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ، تحصیل شبقدر کے گاوں ’’میرزو‘‘ میں ہوئی۔ سراج الحق کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ آٹھویں جماعت میں ہی ملک گیر تنظیم ’’اسلامی جمعیت طلبہ‘‘ کے رکن بن گئے۔ میٹرک کے طالب علم تھے تو انھیں اسلامی جمعیت طلبہ ضلع دیر کا ناظم مقرر کیا گیا۔ سراج الحق نے گورنمنٹ ڈگری کالج تیمرگرہ سے گریجویشن کی۔ 1983ء میں ڈگری کالج تیمرگرہ سے ہی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ اس عرصہ میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ناظم مالاکنڈ ڈویژن، تین سال تک ناظم صوبہ پختونخوا اور پھر 1989ء سے 1991ء تک بطور ناظم اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔ خیبر پختونخوا میں قیم صوبہ(سیکرٹری جنرل) مقرر ہوئے اور 2003ء میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر منتحب ہوئے۔ اپریل 2009ء میں انہیں مرکزی نائب امیر مقرر کیا گیا۔ مارچ 2014ء میں جماعت اسلامی کے5 سال کے لیے امیر منتخب ہوئے اور بعدازاں مارچ 2019ء میں دوسری بار 5 سال کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے PK 95 لوئر دیر سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار منتخب ہوئے اور متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں بطورِ سینئر وزیر اور وزیر خزانہ خدمات انجام د یتے رہے۔ 2013ء کے قومی انتخابات میں سراج الحق ایک بار پھر لوئر دیر سے صوبائی نشست پر منتخب ہو کر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت میں دوسری بار سینئر وزیر اور وزیر خزانہ مقرر کیے گئے۔ پہلی بار امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہونے کے بعد اپنی ملک گیر تنظیمی و سیاسی مصروفیات کے پیش نظر صوبائی وزارت سے مستعفی ہو گئے اور بعد ازاں 2015ء میں صوبہ خیبر پختونخوا سے سینیٹ کا الیکشن جیت کر 2021ء تک بطور سینیٹر ذمہ داریاں نبھائیں اور ایوان بالا میں عوامی حقوق کی توانا آواز رہے۔ملکی سیاست میں سراج الحق سادگی، متانت، روا داری، اخلاق اور کردار کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے ہیں اور پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف کھوسہ کے الفاظ تھے کہ ”اگر پارلیمنٹ میں دفعہ 62، 63 نافذ کی جائے تو شائد سراج الحق کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا”۔

5جنوری2023کو منصورہ لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی ،جس میں “تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کاکردار “کے موضوع پر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ،جسے قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کیا جاتا ہے۔(شیخ محمد امین)
سوال: محترم! ہم سب جانتے ہیں کہ 5 اگست 2019 ء کو بھارت نے کشمیر میں تحریک آزادی کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی۔ اس پر پاکستان کا رد عمل خلاف توقع سرد رہا۔ پاکستان کے رویے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب:کشمیر کے لوگ جانتے ہیں کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔2019ء کو جو بھارت کی طرف سے اقدامات اٹھائے گئے، ہم (یعنی جماعت اسلامی پاکستان) اس وقت مہنگائی کے خلاف ایک تحریک چلارہے تھے۔ہم نے اس پوری تحریک کو ایک طرف رکھ کر انڈیا کے ان اقدامات کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا،ریلیاں نکالیں،جلسے اور جلوس منعقد کیے،ہر چھوٹے بڑے گاؤں میں احتجاجی پروگرامات منعقد ہوئے۔ یہ عوامی سطح پر یہ ایک زندہ ایشو تھا۔ البتہ اس وقت عمران خان کی حکومت تھی جس نے عوام کی امنگوں کے مطابق Response نہیں دیا۔ماضی کی طرح زبانی کلامی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا۔ یہ تو ایک عیاں حقیقت ہے کہ جب تک پاکستان میں ایک اسلامی فلاحی حکومت قائم نہیں ہوتی جو کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر سمجھے، اور اس مسئلے کی اہمیت کو جانے،اور اس کو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دے، تب تک ایسی ہی صورتحال نظر آئیگی۔ چاہے پی ٹی آئی،پی ڈی ایم یا پی پی پی کی حکومت ہو وہ صرف بیانات کی حد تک کام چلاتے رہیں گے۔کہیں اگر UNO میں تقریر کا موقع ملتا ہے تو سال میں ایک بار اس موضوع پر خطاب بھی کر دیں گے لیکن عملی طور پر توقع کے مطابق نہ کبھی کچھ ہوا اور نہ ہو رہا ہے۔
سوال: پانچ اگست کے بعد مسلم ریاست جموں و کشمیر کو ایک ہندو ریاست بنانے کی عملاََ کوششیں کی جا رہی ہیں۔کس طرح ان کوششوں کوناکام کیا جاسکتا ہے؟
جواب: یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ بھارت پہلی بار یہ کوششیں نہیں کر رہاہے بلکہ وہ بار بار یہ گھٹیا حربے استعمال کرچکا ہے تاہم یہ حربے ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں۔ میں آج بھی اس پر یکسو اور پر امید ہوں کہ اگر پاکستان کی حکومت، پاکستان کی قوم اور کشمیری قیادت اور عوام مل کر ایک منزل کی جانب گامزن ہو جائیں تو یہ یقینی ہے کہ یہ تمام حربے پہلے کی طرح نہ صرف ناکام ہونگے بلکہ ان شااللہ کشمیری عوام اپنی آزادی کی منزل بھی حاصل کریں گے۔ ’’تیز ترک گامزن،منزلِ ما دور نیست‘‘۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس وقت کشمیر ایک مکمل جیل خانے میں تبدیل ہوچکا ہے،35 لاکھ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل ایشو کئے گئے ہیں،اس تعداد کے ساتھ پانچ دس سال کے بعد اگر استصواب رائے بھی ہوجائے تو خطرہ ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہونگے۔اسی طرح غیر مسلم ا فسران کو بھی مسلط کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو وہاں کی انتظامیہ اور سرکاری نوکریوں سے ہٹایا جارہا ہے،جن لوگوں نے ماضی میں مسلح جدوجہد کی ہے یا ہجرت کی ہے،ان کے گھروں کومسمار کیاجارہا ہے۔ یقینا یہ بھارت کا ایک خوفناک منصوبہ ہے۔ لیکن اس کا توڑ ایک ایسا پاکستان ہے جو داخلی طور پر منظم،اور یکسو ہو، منتشر نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں حکومت پاکستان کے لیے اب بھی ممکن ہے کہ وہ OIC کوفعال کرے۔بھارت کے قطر،سعودی عرب اور عرب امارات کا اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات ہیں۔بھارت OIC کی آواز کو آسانی سے اگنور نہیں کرسکتا لیکن اگر پاکستان خود آگے بڑھ کر بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے تیار ہے اور بھارت کو مشرق وسطیٰ، قطر، سعودی عرب اور عرب امارات سے زیادہ تجارت کے لیے اچھی جگہ سمجھ رہا ہے۔تو اس کا مطلب ہے ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی دونوں ناکام ہو چکی ہیں۔

سوال: آپ کی نظر میں ایک فریق کی حیثیت سے پاکستان کا اس وقت مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل کے حوالے سے کیا کردار ہونا چائیے؟
جواب: دیکھئے 5 اگست 2019کے فورا بعد ہم نے حکومت وقت کو مشورہ دیا تھا کہ اولاً موجودہ صورتحال پر غور کرنے کیلئے پارلیمنٹ اور سینیٹ کا ایک جوائنٹ سیشن بلائیں، اور مسئلے کے حل کی طرف کوئی راہ عمل ترتیب دے ثانیاً یہ کہ تحریک آزادی کشمیر کے لیے بجٹ کا ایک حصہ مختص کیا جائے، ثالثاً یہ کہ مسلسل اس ایشو کو بین الاقوامی سطح پراُجاگر کرنے کے لیے ایک نائب وزیر خارجہ کی تقرری ہوجائے جس کا اس مسئلے پر عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی کام نہ ہو۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو تعلیمی نصاب کا بھی حصہ بنایا جائے۔جماعت اسلامی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ خالص ایک کانفرنس کشمیر کے موضوع پر ہو۔ OIC کا اجلاس مظفر آباد میں ہو، تاکہ بھارت کو یہ پیغام جائے کہ پورا عالم اسلام کشمیر کے پشت پر موجود ہے اور عالم اسلام کشمیریوں کے ساتھ ہے۔جماعت اسلامی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ آزاد کشمیر کے خطے کو ایک بیس کیمپ قرار دیا جائے اور کشمیریوں کو اپنی بات دنیا تک پہچانے اور ہر پلیٹ فارم پر کرنے کے لیے کشمیر کی قیادت کو Facilitate کیا جائے چاہیے وہ آزاد کشمیر کے ہوں یا مقبوضہ کشمیر کے۔ بھارت کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی اور تعلقات کا بنیادی معیار کشمیر کے مسئلے پر لوگوں کا ساتھ دینا اور نہ دینا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں پوری قوم اور حکومت پاکستان کشمیر کے مسئلے کو اتنی اہمیت دے کہ یہ محض ایک مسئلہ ہی نہ رہ جائے بلکہ کشمیریوں کی آزادی یقینی ہوجائے اور جد وجہد ازادی نتیجہ خیز ہوجائے۔

س:جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے والے ایجنڈے کے خلاف قاضی حسین احمدؒ اور سید منور حسن ؒکی سربراہی میں جماعت نے پوری قوت سے مزاحمت کی۔لیکن اس کے برعکس باجواہ ڈاکٹرائن، جو کشمیر کو نظر انداز کرنے، ماضی کو بھلانے اور بھارت سے تعلقات آگے بڑھانے کی سوچ کا نام ہے۔اس شکست خوردہ سوچ اور اقدامات کے خلاف وہ مزاحمت آپ کی قیادت میں نظر نہیں آئی جو مقصود تھی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: دیکھئے پرویز مشرف اور اس سے پہلے والی حکومتوں اور اس کے بعد بھی ہماری حکومتوں کے رویوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔سیاسی حکومتوں نے بھی انڈیا کے ساتھ تجارت کو ترجیح دی ہے اور جس کو آپ باجوہ ڈاکٹرائن کہتے ہیں، یہ کوئی ڈاکٹرائن نہیں تھا،وہ خوف پر مبنی ایک پالیسی تھی۔ان کا ذہن شاید یہی تھا کہ ہم انڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔حالانکہ آپ کو کون سا مقابلہ کرنا تھا، مقابلہ تو کشمیری قوم کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے۔ ہم کو تو صرف انہیں سپورٹ فراہم کرنا ہے۔۔اب نئے آرمی چیف آئے ہیں ان سے تو یہی توقع ہے کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے ہروہ کام کریں گے،جو پاکستان کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی تقرری کے بعد ان کا پہلا دورہ بھی کشمیر کا کر کے انہوں یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اب بھی ہمارے اہم ترجیحات میں کشمیر شامل ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کسی جرنیل، آرمی چیف، صدر یا کسی وزیر اعظم کی خواہشات پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ یہ پوری قوم کا اجتماعی ویژن ہے اور اس پر پوری قوم کا ایمان ہے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا ہمارے لئے کوئی آپشن یا چوائس نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کیلئے بقا اور ایمان کاحصہ ہے جو پاکستان کو اسلامی،نظریاتی اور جمہوری ملک سمجھتا ہو۔جماعت نے ماضی میں بھی اس کیلئے بھر پور جدوجہد کی ہے۔ اور اب بھی کر رہی ہے۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کو بھلانے کی شکست خوردہ سوچ کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں مل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹرائن ہو وہ کاغذوں،کتابوں میں یا فائیلوں میں ہوگا لیکن عملی طور پر کوئی جرنیل ہو یا وزیر اعظم یا صدر ہو،اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔اس لئے کہ جماعت اسلامی موجود ہے اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم کشمیر کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہے جماعت اسلامی بطور ایک پولیٹیکل پارٹی کے بھی ہمارا پہلا اور اہم مسئلہ کشمیر کی آزادی ہے اور ہمارے ملک کے عوام کا بھی۔۔۔۔ میرا دیر ضلع سے تعلق ہے۔1947 یا اس سے پہلے بھی جتنی بھی جدوجہد اور تحریکیں اس خطے میں اٹھیں،اس میں ہمارے ضلع کا بہت بڑا کردار ہے۔ہمارے اس پورے قبائیلی بیلٹ کے تقریباََ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد کشمیر میں شہید ہوا ہے۔ لوئر دیر اور اپردیر سے 2300 لوگ اس معرکے میں شامل ہوئے اور اکثر شہید ہوئے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد کا خون ادھر گرا ہے،شہداء اس سرزمین میں مدفون ہیں۔یہ ایک سوال ہے 1947میں اگر قبائل کے لوگ اور دیر کے لوگ ادھر سے وہاں پہنچ سکتے تھے تو یہ کراچی، لاہور اور گجرات اور پنڈی کے لوگ اس وقت کہاں تھے۔؟ وہ کیوں اس معرکہ آزادی میں شامل نہیں ہوئے۔؟ اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ پہلے دن سے حکومتوں کا رویہ یہی ہے جو آج بھی ہے اور یہ وہی پالیسی ہے جو جنرل گریسی نے مرتب کی تھی۔ قائد اعظم ؒ کے کہنے کے باوجود انہوں نے فوجیں وہاں نہیں بھیجیں۔ ہمارے غلام حکمرانوں کے دئیے ہوئے بیانات اسی سوچ کے عکاس ہیں۔اصل میں یہ تحریک جو ابھی تک زندہ ہے، اسلامی تحریک ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔یا ان لوگوں کی وجہ سے جن کے بزرگوں نے کشمیر میں قربانیاں دی ہیں۔اور اب بھی ہماری یہ کمٹمنٹ ہے اور حکومت پر بھی دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

سوال: پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان جسے آزاد جموں وکشمیر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے،موجودہ حالات میں اس کا کیا کردار ہونا چائیے؟
جواب: ہماری ہمیشہ سے سوچ یہی رہی ہے کہ جو کوئی بھی اس خطے کا وزیر اعظم ہو،اس کو وزیر اعظم جیسی ہی اہمیت دی جائے اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے پورے پاکستان کی طرف سے اسے مکمل مینڈیٹ دیا جائے۔اسے صرف آزاد کشمیر کا وزیر اعظم اورنمائندہ نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر اور پورے پاکستان کی طرف سے ترجمان سمجھا جائے۔ اس خطے کو آزادی کشمیر کا بیس کیمپ قرار دیا جائے۔۔اس سب کے باوجود مجھے یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ آزاد کشمیر کی سابق و موجودہ حکومتیں بھی وہ اقدامات نہیں کر رہی ہیں جس کی ضرورت تھی یہ لوگ آپس میں بدست و گریبان ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آزاد خطہ کو کوئی مثالی خطہ نہیں بناسکے۔اچھی حکمرانی نہیں دے سکے۔لیکن ہماری اپنی کوشش ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر اور اندرونی اختلافات سے بالاتر ہوکر پوری قوم کشمیر کی آزادی میں جت جاے۔۔۔ان شاء اللہ قربانیاں رائگان نہیں ہوں گی۔جماعت اسلامی سید علی گیلانی ؒ کے اس نعرے کو” ہم پاکستانی ہیں،پاکستان ہمارا ہے” کی دل سے قدر کرتے ہوئے
اعلانیہ طور پر اس حقیقت کا برملا اظہار کرتی ہے کہ ”ہم کشمیری ہیں۔۔کشمیر ہمارا ہے”۔
سوال: کشمیر الیوم کے قارئین کے نام آپ کا پیغام کیا ہے؟
جواب: ماہنامہ کشمیر الیوم تحریک آزادی کشمیر اور کشمیری عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے،اس کی وساطت سے میں کشمیری اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ عظیم قائد تحریک سید علی گیلانی رحمت اللہ علیہ نے جو نعرہ دیا ”ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے، کو بھولنا نہیں ہے اور میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل کی گہرائیوں سے جوابی نعرہ دے رہا ہوں کہ ”ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے”۔ان شا ء اللہ وہ دن ضرور آئیگا جب ریاست جموں و کشمیر بھارتی قبضے سے آزاد ہوکر کھلی اور آزاد فضاوں میں سانس لے گی۔ ان شا ء اللہ
٭٭٭