
بھارت گاندھی جی کے سیکولر ملک سے نکل کر مودی کی قیادت میں ہندوجنونیت کے جنگل کا روپ دھار چکا ہے
کشمیری بخوبی سمجھتے ہیں کہ بھارت کی مذمت سے زیادہ (مرمت) کی ضرورت ہے
کوئی بھی طاقت کشمیریوں کو خونی لکیر کو روندنے سے نہیں روک سکتی
انسانی زندگی میں شایدہی ایسا کبھی پہلے ہوا ہو،کہ ا نسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہوں اور عالمی برادری بے حس و بے ضمیر بنے خاموش تماشائی کی طرح یہ سب دیکھ رہی ہو،اس سے بھی اہم اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا اہم فریق اور کشمیریوں کا وکیل سات دہائیاںگزرنے کے بعد بھی روایتی طور پر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہا ہے ،5اگست 2019کے بھارتی غیر آئینی اقدام کے بعد پاکستان کا کشمیریوں کے ساتھ فقط(زبانی جمع خرچ)کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکیا حیثیت رکھتا ہے ؟ مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر کا ایک بڑا حصہ 1947سے بھارت کے غاصبانہ اورجابرانہ فوجی قبضہ میںہیں ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس تنازعہ کے متعلق 18قراردادیں موجود ہیں ،جو بھارت کو کشمیریوں کا حق خودارادیت کا حق دینے کا پابند بناتی ہیں لیکن بھارت نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت کا حق تسلیم کرنے کے باوجود ریاست کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے ـ’’سیاسی غلطی‘‘ کے ساتھ خطے میں خطرناک انسانی بحران کی بنیا د رکھ دی ہے ،اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی بھارت کے اس مجرمانہ فعل کے بعد پر اسرار خاموشی بھارت کے غرور و تکبر کو مزید بڑھانے کا باعث بن رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیائی خطے میں اقلیتوں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص خطرناک ملک کے طور پر سامنے آیا ہے، اس وقت بھارت گاندھی جی کے سیکولر ملک سے نکل کر مودی کی قیادت میں ہندوجنونیت کے جنگل کا روپ دھار چکا ہے۔
5فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقعہ پر وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کا مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں (جو اس وقت بھارت کی سب سے بڑی جیل میں بند ہیں ) سے اظہار یکجہتی اور اقوام متحدہ ،عالمی برادری کے سوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بہت اچھی کاوش ہے ، لیکن، اب ایسا، زیادہ دیر نہیں چل سکتا ،پاکستانی اور کشمیری قوم بجا طور پر سمجھتی ہے کہ اب کشمیریوں کو( دلاسے) سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ،ماضی کی سات دہائیوں کے نشیب و فراز اور تلخ حقائق سے کشمیریوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ بھارت کی مذمت سے زیادہ (مرمت) کی ضرورت ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مقبوضہ ریاست کے تحفظ ،کشمیریوں کی بقا ء اورحق خود ارادیت کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنارکرنے کے لیے آئینی اور سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کا بھی بغور جائزہ لیا جائے ۔
مقبوضہ ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کی وجہ سے بھارت اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے ، اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اگر بھارت کو ڈھیل دے رکھی ہے تو ضروری ہے کہ اس کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لیے کشمیریوں کی ’’ عملی حمایت‘‘ کے اقدام سے اسے گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور کیا جائے ، مسئلہ کشمیر کے پر امن حل اور خطے میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بھر پور سفارتی اور سیاسی بساط پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ واضح کر دیا جائے کہ جلد از جلد کشمیریوں کو ان کا تسلیم شدہ حق دلوانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے بصورت دیگر کوئی بھی طاقت (آر،پار)کے کشمیریوں کو سرخ لکیر کو روندنے سے نہیں روک سکتی ،اور پھر دیکھتے ہیں کہ بھارت کو دم دبا کر بھاگنے میں کتنی دیر لگتی ہے ۔مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیاء پر تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جسے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ،عالمی برادری اورعلاقائی طاقتیں فلش پوائنٹ پر موجود اس مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ،اور فریقین بھی اس کی حساس نوعیت کو سمجھتے ہوئے حل کی طرف سنجیدگی سے قدم اٹھائیں ۔
٭٭٭