سال 1988 ء سے 2023 ء تک جموں و کشمیر کی تیس پینتیس سالہ تاریخِ خونچکاں کو ہمیں ایک خاص ’’سبق‘‘ کے طور پر دیکھنے،پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کسی بھی ایسی مبہم پالیسی سے بچ سکیں،جس سے ہمیں اور اور ہماری جدوجہد کو مزیدنقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔مجھے یہ اعتراف ہے کہ پاکستان نے تحریکِ آزادی کشمیر کی کامیابی کے لئے ایک نہیں بلکہ سو جتن کئے اور پوری جانب دار دنیا کی ناراضگی بھی مول لی۔اپنی تمام تر معاشی،سیاسی، سفارتی مشکلات اور افراتفری کے باوجود پاکستان نے جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو ہر قیمت پر جاری رکھتے ہوئے اُسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اقدامات بھی کئے مگر شومئی قسمت کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود یہ لڑائی آہستہ آہستہ ایک دلدل میں تبدیل ہوتی رہی اور ہم سب بُری طرح اس دلدل میں دھنستے چلے گئے اور آج اس پینتیس سالہ لڑائی کے بعد اب جبکہ ہمارے ناتواں اور نافہم کندھوں پر لاکھوں لوگوں کے جنازوں،ہزاروں ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کی تار تار عصمتوں اور عربوں ہا روپوں کی مسمار و خاکستر جائیدادوں کا ہمالیائی بوجھ موجود ہے تو ہم تمام تر جبر اور مشکلات کے باوجود بھی ان مقدس اور لازوال قربانیوں سے غیر متعلق ہرگز اور ہرگز نہیں ہوسکتے!

ہم پوری دیانت، امانت، سچائی بلکہ فخر کے ساتھ ان ساری قربانیوں کا ’’خود‘‘ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ہم الحمد للہ آج بھی پاکستان کے حوالے سے اتنی اعلیٰ ظرفی،سمجھ داری اور خیر خواہی پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام تر ناخوبیوں کے بتدریج خوب ہونے کے باوجود بھی ہم پُر امید ہیں کہ ’’یہ وقت بھی گزر جائیگا‘‘ اور دوبارہ وہی محبتوں اور رفاقتوں کی فراوانی کے پھول ہر سُو مہک اُٹھیں گے۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو مگر مجھے ڈر ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ محبتوں اور رفاقتوں کے سارے اندازے دوبارہ کبھی اُستوار ہی نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟تاریخ کا نچوڑ یہ ہے کہ مشکل اور فیصلہ کُن مرحلوں پر ساتھ نبھانے والے ہی محبتوں اور رفاقتوں کا حق ادا کرپاتے ہیں جبکہ جو تعلق اور محبت حالات کی سنگینی اور موافقت کے ساتھ ساتھ اپنا رُخ اور انداز تبدیل کرنے کا مجرمانہ عادی ہو اُس محبت اور تعلق کے لئے اپنا سب کچھ داو پر لگانا بلکہ تج دینا میرے نزدیک بیوقوفی، حماقت اور ناسمجھی ہے۔
میری گذشتہ تیس سالوں سے مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ اس تحریک کے حوالے ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر لکھا جائے تاکہ مجھ پر کبھی کسی کو قلمی خیانت کے قبیح ارتکاب کا بھاری الزام لگانے کی ہمت نہ ہو مگر مجھے آج یہ اعتراف کرلینے دیجیے کہ ہم بھی یک طرفہ محبت کی بھینٹ چڑھتے ہوئے سیاہ کو سفید لکھنے کے جُرم کا بار بار ارتکاب کرتے رہے۔اس ’’محبت‘‘ کے کم بخت نشے کا اثر ہی کچھ ایسا ہے کہ چنگے بھلے اور سمجھدار انسان کی بھی’’مَت‘‘ ماردیتا ہے بہر حال آپ نشے میں ہوں یا غصے میں آپ اپنے فیصلوں اور عمل کا وبال دوسروں پر نہیں ڈال سکتے۔
آئیے آج ہم اس نشے اور غصے کو ایک طرف رکھ کر تاریخ کے معتبر اور تلخ ’’حقائق‘‘ پر ایک غیر جانب دار نظر ڈالنے کی ہمت کرتے ہیں۔مرحوم شیخ عبداللہ کی سبز رومال اور نمک کی ڈھلی سے لیکر مردِ قلندر،مردِ درویش اور مردِ آہن تحریکِ آزادی کے امام سید علی گیلانیؒ کے ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرہ تک کشمیری قوم نے کیا کیا خواب نہ دیکھے اور کس طرح ان خوابوں میں اپنے خونِ جگر سے رنگ بھرتے رہے مگر نتیجہ کیا نکلا شیخ عبداللہ مرحوم نے بیس بائیس سالہ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد اس یک طرفہ اور عارضی محبت سے’’توبہ‘‘ کی اور بھارت کو اپنا مائی باپ تسلیم کیا جبکہ امامِ تحریک آزادی سید علی گیلانی بسترِ مرگ پر کلمہ پاکستان کا وِرد کلمہ توحید کے مترادف کے طور پر کرتے رہے۔میں سید گیلانی ؒکے اس بے لوث، بے مِثل اور اٹل محبت کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہوے اُنہیں یہ پیغام پہنچانے کا متمنی ہوں کہ گیلانی صاحب آج آپ کی تحریک دم توڑ رہی ہے،اب آپ کا نعرہ اجنبی ہوتا جارہا ہے،اب مصلحت اور خوف کی کالی چادریں ہر جگہ تان دی گئی ہیں، اب آپ کے عشق کے کعبے میں ہم اپنی ذات کے بُت لات،منات اور ہُبل سجا چکے ہیں۔ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم سب دل سے شیخ عبداللہ پر دوبارہ ایمان لاچکے ہیں اور صرف زبان کی حد تک وہ بھی کبھی کبھار آپ کے ’’پاکستان‘‘ کو یاد کرتے ہیں۔ ہمیں نفسا نفسی اور دنیا پرستی نے بہت خود غرض بنا کر چھوڑ دیا ہے۔وہ تحریکی اخوت اور تحریکی آبیاری اب قصہ پارینہ ہوتی جارہی ہے۔گیلانی صاحب ویسے مجھ ناچیز کو بھی آپ سے ایک شکایت ہے وہ یہ کہ آپ اتنے جہاں دیدہ،فرد شناس،قوم شناس اور بابصیرت قائد تھے مگر آپ پھر بھی افراد و اقوام کی ’’شناس‘‘ میں چونک کیسے گئے! کیسے آپ سادہ پانی کو ’’زمزم‘‘ کی طرح سمجھتے رہے!
بِلا شبہ اعمال کا دارومدار ’’نیت‘‘ پر ہی منتج ہوا کرتا ہے۔ آپ کامیاب اور سرخرو ٹھہرے ہیں۔ آپ نے اپنا کام پوری دیانت، امانت اور ہمالیائی عزم کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔آپ آخری سانس تک عظمتوں اور محبتوں کے علمبردار رہے ہیں۔ آپ نے محبت اور خیر خواہی کی وہ مثال قائم کردی ہے کہ جسے طائف اور کربلا کی تاریخ کی خوشبو تادیر آتی رہے گی اور عقل والوں کے لئے یہ خوشبو سُرمہ حیات ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے۔



گیلانی صاحب میری نیندیں اس خوف نے حرام کردی ہوئی ہیں اور اس بے خوابی کی وجہ سے اب میرے جسم کی توانائیاں تقریباً ختم ہوچکی ہے۔یہ خوف اتنا بڑا اور بھاری ہے کہ میرا ناتواں وجود اسے برداشت نہیں کرپا رہا۔اس خوف کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ مجھے جیتے جی مار کر ہی رہے گا۔کاش کوئی میرے اس خوف اور وسوسے کو دُور کرتا، کاش کوئی آپ کا جانشین مجھے سمجھا لیتا اور کہتا کہ میرا یہ خوف بس ایک وہم ہے اس خوف کا حقیقت اور منطق سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ گیلانی صاحب آپ تو جان گئے ہونگے کہ میرا خوف کیا ہے چلئے عام قارئین کے لئے اب اس راز اورخوف کو سینے پر پتھر رکھ کر طشت از بام کردیتے ہیں۔
’’گیلانی صاحب میرا خوف یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ہم اور ہماری قوم نے شیخ عبداللہ کے توبہ کو آپ کی استقامت پر مقدم رکھا تو کیا ہوگا! ہمارے لئے وہ دن ’’قیامت‘‘ سے بھی زیادہ بھاری ہوگا اور ہم اُس دن زمین کے پیٹ کو اپنے لئے اُس کی پیٹھ سے بہتر سمجھیں گے۔
٭٭٭