جعفر طیارہ شہید

اویس بلال

تحریک آزادی کشمیر کا آغاز 1931ء میں ڈوگرہ راج کے خلاف عوامی جدوجہد سے ہوا،اس کے بعد 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت جب انگریزوں اور ہندوؤں انتہا پسندوں نے ڈوگرہ راج سے مل کر جموں و کشمیر کا الحاق زبردستی بھارت کے ساتھ کرنا چاہا ،تو یہ تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ،بھارت نے اکتوبر 1947ء میں اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں داخل کردیں اور ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا ،جس کے بعد سے آج تک عیار و مکار ہندوؤں انتہا پسندوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے کہ ،جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ،،کئی دفعہ مذاکرات ہوئے بھارت نے اقوام متحدہ میں جموں و کشمیر میں حق خود ارادی دینے کا وعدہ کیا مگر بعد میں صاف مکر گیا ،بالآخر مقبوضہ جموں و کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار اٹھائے اور آزادی چھیننے کے لئے بھارت کی دس لاکھ فوج سے نبرد آزما ہؤے اور اسوقت تک جہاد کرتے رہیں گے جب تک جموں و کشمیرپر آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوجاتا۔ 13جولائی 1931ء کے دن وادی کشمیر کے بائیس فرزندان توحید کی قربانیاں ماہ اکتوبر اور نومبر 1947ء میں جموں کے تین لاکھ شہداء کی قربانیاں 1965ء میں ریاسی اودھم پور راجوری پونچھ کے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں اور رواں تحریک آزادی میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوانوں بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بچوں کی قربانیاں اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے باشندے کسی بھی صورت بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ،بھارت اگر اس سے بھی زیادہ زور کیوں نہ لگا لے اسے بہر حال شکست ہی کا سامنا کرنا پڑے گا ،اس لیے کہ بھارت ایک جابر ،ظالم اور فسطائی قوت ہے جس نے محض طاقت اور تکبر کی بنیاد پر جموں و کشمیر پر قبضہ جمایا اور دنیا کی کوئی بھی طاقت بھارت کے اس جبری قبضے کو تسلیم کرنے سے صاف انکاری ہے لیکن اس سب کے باوجود بھارت ریاست جموں و کشمیر سے اپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے جسے کشمیری کسی بھی صورت میں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے انشاء اللہ۔

بھارت کو اب نوشتہ دیوار اب پڑھ لینا چاہیے کہ جو قوم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو ،اسے شکست دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی ۔ حزب المجاھدین کے معروف کمانڈر جعفر طیارہ ؒعسکریت کے ہر پہلو کے ماہر تھے۔ قوموں کی تاریخیں ان جری نوجوانوں کے خون سے رقم ہوتی ہیں جو زمانے کا رخ موڑ دینے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں ،کشمیر کی وادیوں میں رقم ہونے والی تاریخ ایسے ہی بلند حوصلہ نوجوانوں کی داستان ہے ،آج احیائے اسلام کے لئے تن من دھن وقف کرنے کی ریت قایم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے جنہوں نے اپنے خون ہڈیوں اور گوشت سے اس عمارت کی ازسرنو تعمیر کی ہے ،امت کے دور زوال میں ایسے نوجوانوں کا وجود معجزے کا درجہ رکھتاہے اور یہ معجزہ امت کی نشاۃثانیہ کی نوید ہے۔ قومیں اپنی تاریخ کو رقم کرنا فرض گردانتی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان اقدار کی پاسبان ہوں جن کی خاطر ان کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کئے ۔نئی نسلوں کے کردار کی بہترین تعمیر ان کے راہنماؤں کی زندگیوں کی داستان سنائے بغیر ممکن نہیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے ہمیں یہی راہنمائی ملتی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا طرزِ عمل اسی روش کی پابندی سکھاتا ہے۔

یہ زندہ کردار ہمارے ماحول سے جتنا قریب ہوں گے اور ہمارے زمانے سے ان کا تعلق جتنا گہرا ہوگا اسی قدر دلوں پر ان کے اثرات بھی گہرے ہوں گے یہ زندہ کردار پوری قوت سے آہنی عظمت کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ،ان میں سے ہر نوجوان تمہارے ہی معاشرے کا ایک فرد تھا تمہارے ہی جیسے ماحول میں اسکی پرورش ہوئی پھر بالآخر یہی تم سے بازی لے کر منزل پر جا پہنچا۔ آخر تمہیں اس کے نقش پا کی پیروی کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟ فیصل آباد کے ایک عظیم ساتھی ابوسخرمجاہدین کے غم گسار کہتے ہیں ،عہد نو میں وادی کشمیر کے مرغزاروں سے پیر پنجال کی بلندیوں تک ڈوڈہ کشتواڑ کے برف پوش کہساروں سے لے کر کٹھوعہ کی بستیوں تک قابض بھارتی افواج کے خلاف اعلاے کلمتہ اللہ کی سر بلندی اور وطن عزیز کی آزادی ،قوم کے وقار کیلئے ہزاروں فرزندان توحید نے میدانِ کارزار میں جانیں نچھاور کی ہیں اور تا حال جنگ آزادی میں دیوانہ وار دشمنان اسلام کا قوت ایمانی کے بل بوتے پر مقابلہ کر رہے ہیں ۔مقبوضہ جموں و کشمیر کا قریہ قریہ ،نگر نگر خون شہیداں سے رنگین ہے ،ہزاروں شہدائے کرام کے پرنور قافلے میں بانہال کے شارق احمد تانترے المعروف جعفر طیارہ شہید کا نام بھی سر فہرست نظر آتا ہے، شارق احمد تانترے کا گھرانہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہے ۔شہیدؒ صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا۔ جذبہ جہاد جعفر طیارہ کو ورثے میں ملا تھا ۔لہٰذا دشمن کی غارت گری ،سفاکیت نے نو عمری میں ہی جعفر طیارہ کو جہادی کارواں کا انتھک راہی بنایا اور وہ حزب المجاھدین میں شامل ہوگئے ۔حزب المجاھدین کی طرف سے ان کو جعفر طیارہ کا نام ملا اور وہ اعلیٰ عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد میدان جہاد میں جارح دشمن کے خلاف معرکہ آرا ہوئے۔ بارودی دھماکوں میں ان کو خصوصی مہارت حاصل تھی اور قلیل مدت میں انہوں نے بانہال جموں ہائی وے پر قابض بھارتی فوج پر کمر توڑ بارودی حملے کرکے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

کمانڈر شارق احمد تانترے المعروف جعفر طیارہ کی بارودی کاروائیوں اور فدایانہ یلغاروں میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند بھارتی فوجی بمعہ بالا افسران ہلاک و زخمی ہوئے ،جن میں دو بریگیڈیئر بھی شامل ہیں ان کی تابڑ توڑ اور موثر حکمت عملی اور برق رفتار کاروائیوں کی وجہ سے حزب کی طرف سے انہیں انعامات سے نوازا گیا ۔سیمابی طبیعت ،عقابی بصیرت کے حامل ،موت کو موت کی گھاٹیوں میں ہر دم تلاش کرنے والے جعفر طیارہ شہید ؒ پر اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی رشک کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کے جنازہ میں قابض فوج کے افسروں نے شرکت کی۔ کمانڈر جعفر طیارہ شہید علاقے کی مسلم آبادی میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی ہندو آبادی میں بھی ہر دلعزیز تھے ،ان کے سفر آخرت میں اودھم پور رام بن،گول گلاب گڑھ ریاسی سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی جب کہ غیر مسلم شہری بھی شہید جعفر طیارہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جنازے میں شریک ہوئے ۔کمانڈر جعفر طیارہ سری نگر میں علاج معالجہ کے لئے مقیم تھے کہ ظالم بھارتی فوج نے 23 مارچ 2003 کو گرفتار کر کے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے اسلام کا یہ بطل جلیل اور جہاد کشمیر کا عہدساز کمانڈر خلعت شہادت سے سرفراز ہوا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ شہدائے کرام کی انمول قربانیاں قبول فرمائے اور ہمیں بھی صحیح معنوں میں ان شہیدان ِوفا کے پاک لہو کا محافظ وپاسدا بنائے آمین ۔