وسیم حجازی
( گذشتہ سے پیوستہ)
لیکن آہ تقدیرآہ، تیرے سامنے کس کی چلی ہے۔ اللہ نے مجھ سے کتنی بڑی نعمتیں لمحوں میں چھین لی تھی اسکا مجھے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
پمز ہسپتال میں یہ رات جیسے تیسے گذر گئی صبح ایک اور ساتھی اختر بھائی (جو کہ میرے رشتہ دار بھی تھے) بھی ہسپتال پہنچ گئے۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے کہا ’’وسیم یہ تم نے اپنے ساتھ کیا کیا‘‘ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔اس دوران مقبول صاحب بھی آگئے( یہ بھی رشتہ دار ہی تھے) ۔ ایمبولنس نے مجھے ائیرپورٹ پہنچایا۔ مجھے سٹریچر پر جہاز میں لے جایا گیا جہاں تین سیٹیں میرے لئے ریزرو تھیں۔ میں زندگی میں پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کر رہا تھا مگر کس حال میں۔۔ خیر،جہاز نے اُڑان بھری اور لاہور کی جانب روانہ ہوا۔میں چاہتا تھا کہ جہاز سے نیچے زمین کا نظارہ کروں مگر اے بسا آرزو کہ خاک شْد ۔۔۔قریباً ایک گھنٹہ بعد جہاز نے ائرپورٹ پر لینڈ کیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ ابھی پچھلے سال ہی (اکتوبر 1995میں ) میں شہرِ لاہور اپنے سینکڑوں دوستوںکے ہمراہ آیا تھا جب مینارِ پاکسان کے وسیع و عریض احاطے میں جماعتِ اسلامی کا عظیم اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی اور دنیا بھر سے عظیم مسلمان دانشور اور علماء اس اجتماع میں تشریف لائے تھے۔ تب ہم لاہور میں اس اجتماع میں تین دن تک رکے تھے۔ کیسا ایمان افروز حسین سماں تھا وہ ۔وہ یادیں مجھے لاہور پہنچتے ہی ستا رہی تھیں۔ وہ لاہور جہاں مجھے اب ایک سال تک ہسپتال میں قیام کرنا تھا۔ شہرِ لاہور میری اس تکلیف دہ زندگی کی پہلی طویل قیام گاہ تھی۔
ہوائی جہاز میں بھی مسلسل مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ ڈرپ ایک ہفتہ سے لگی ہوئی تھی ۔کبھی ایک بازو میں،کبھی دوسرے بازو میں، پچھلے ایک ہفتہ سے میں نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا تھا۔میں بس ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ ایک ہفتہ سے مسلسل کمر کے بل لیٹا ہوا تھا۔ ایک بار بھی کروٹ نہیں لی تھی۔ میرا جسم اذیت ناک مراحل سے گذر رہا تھا۔ یہ کیسا گرنا تھا جس میں اٹھنا بیٹھنا،کروٹ لینا بھی نصیب میں نہ تھا،چلنا پھرنا دوڑنا تو دور دور کی بات ہے ۔کمر ٹوٹنا محاورہ تو سْنا تھا لیکن اب پتہ چل رہا تھا کہ کمر ٹوٹنا کس کو کہتے ہیں۔
ایمبولنس مجھے ائیر پورٹ سے اتفاق ہاسپٹل لے گئی جہاں میری ریڈھ کی ہڈی کا آپریشن ہونا تھا۔ میری تیمارداری کیلئے دو ساتھی ہسپتال پہنچ گئے۔ شہید خالد بھائی اور شہید سیف اللہ بھائی۔ بالآخر آپریشن کا دن آگیا۔ مجھے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔
میرا آپریشن پاکستان کے مشہور Orthopaedic Surgeon ڈاکٹر عامر عزیز کرنے والے تھے۔ ڈاکٹر عامر عزیز کا شمار پاکستان کے قابل ترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عامر عزیز انتہائی دیندار شخص ہیں۔ امت مسلمہ کا درد انکے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ کوسوو ،یوگوسلاویہ جنگ کے دوران کوسوو کے زخمی مسلمانوں کے علاج کیلئے وہاں گئے تھے۔ ایسے دردمند ڈاکٹر امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔بالآخر مجھے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ تھیٹر میں داخل ہوتے ہی میں اپنے رب سے مناجات کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد مجھے Anesthesia دیا گیا اور کچھ ہی لمحوں میں، میں بیہوش ہوگیا۔ بہت سارے مریض آپریشن تھیٹر میں زندہ تو جاتے ہیں لیکن واپس انکی لاش ہی آتی ہے۔ بہت سارے مریض یہاں سے شفاء یاب ہو کر نکلتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے نکل کر ایک مریض یا تو خوشیوں سے ہمکنار ہوتا ہے یا تو غمزدہ و پریشان ،کیونکہ آپریشن کبھی کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور کبھی ناکام بھی.اسلئے یہاں مریض اْمید اور خوف کے درمیان لٹکتا رہتا ہے۔ آپریشن تھیٹر میں انسان پر رقت طاری ہوتی ہے۔ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ ایک رب کے سوا آخر کون ہے جو انسان کو مشکلوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہاں انسان سب سے کٹ کر ایک اللہ سے جْڑ جاتا ہے۔
ڈاکر صاحب میرے کمر کی جلد کو چاک کر رہا تھا۔ میری ریڈھ کی ہڈی کو اپنی جگہ درست کررہا تھا۔ تین تین انچ کے چھ کیل میری کمر میں ٹھونس رہا تھا تاکہ میری ہڈی پھر سے جْڑ سکے۔ نہ جانے کتنا وقت انہوں نے صرف کیا۔ میں دنیا و مافیہا سے بیخبر بیہوش تقدیر الٰہی کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا۔
جب آپریشن تھیٹر میں مجھ پہ گہری بیہوشی طاری تھی، اک مسیحا مجھے نئی زندگی دینے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ مگر تقدیرِ الٰہی کے سامنے وہ بھی بے بس تھا۔ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کا فن جانتا تھا لیکن اُس کٹی ہوئی رگ یعنی cord Spinalکا اس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا جو ریڑھ کی ہڈی میں سے گزر کر پورے جسم کو دماغ کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے۔ اس نرم و نازک رگ کو خود اس مضبوط ہڈی نے کچل دیا تھا، جو زندگی بھر اسکی حفاظت پہ مامور تھی۔ نہ صرف اسے کچل دیا بلکہ ساتھ ہی میرے سارے ارمانوں کو بھی کچل دیا۔ یہ رگ کیا کٹ گئی، میری زندگی ہی لْٹ گئی۔ اب زندگی کی آخری سانسوں تک میرے جسم کو قیامت خیز مرحلوں سے گذرنا تھا۔
گہری نیند سے جب میری آنکھ کْھلی تو میں نے اپنے آپکو ہسپتال کے کمرے میں پایا جہاں میرے ساتھی میرے سرہانے کھڑے تھے۔ مجھ پر ابھی نیم بیہوشی طاری تھی۔ میں اپنی کمر میں چْبھن سی محسوس کر رہا تھا۔ میری کمر میں جو چھ screw اور نٹ بولٹ ڈاکٹر نے لگائے تھے، یہ وہی چْبھ رہے تھے۔ مجھے اگلے چھ مہینوں تک اب انکو برداشت کرنا تھا۔میری کمر میں قریباً 18 ٹانکے لگے تھے۔ جس کمر درد نے مجھے قریباً دو ہفتوں سے سخت اذیت میں مبتلا کیا تھا، اب اس درد سے مجھے کافی حد تک نجات مل چکی تھی ۔پوری طرح ہوش میں آنے میں مجھے وقت لگا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب میرے جسم کی اصل صورتحال کیا ہے۔میرے ساتھی پوری طرح میرے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
اب میں پوری طرح ہوش میں آچکا تھا۔ کئی دنوں کے بعد میں گہری نیند سویا تھا۔ میرا جسم جو اتنے دنوں کی تھکاوٹ سے چْور تھا، اب آرام کرنے کی وجہ سے تھوڑا راحت محسوس کر رہا تھا۔ اب تک تو میرا یہی خیال تھا کہ شاید آپریشن کی وجہ میں پھر سے ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن میری اْمیدوں پر اْس وقت پانی پھر گیا جب میں نے چاہا کہ میں اپنی ٹانگیں ہلاؤں لیکن وہ تو جیسے اب بھی بیہوش ہی تھیں۔ ایک ڈاکٹر آیا اور میری ٹانگوں کو prick کرنے لگا تاکہ وہ میرے تاثرات جان سکے لیکن میں کچھ بھی محسوس نہیں کر پا رہا تھا، میں اپنی ٹانگوں کی حِس سے ابھی تک محروم تھا۔ میرے دل پر قیامتیں گذر رہی تھیں۔ آخری اْمید بھی ٹوٹ گئی۔ ’’ابھی نہیں تو شاید کبھی نہیں ‘‘ میں سوچ رہا تھا۔ میرے ساتھی بھی میرے ساتھ افسردہ ہوگئے۔
آہ! میری ٹانگیں، میری پیاری ٹانگیں ۔ راہِ خدا میں، اپنے رب کے دین کی خاطر، میں نے پچھلے ڈھائی سالوں میں اپنی ٹانگوں کو کتنا دوڑایا تھا، کتنا تھکایا تھا۔ اب انکی قربانی کا وقت آچکا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں مجھ سے چھین کر میرے صبر کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اب صبر ہی میری زندگی کی داستان کاعنوان بننے والا تھا۔ صبر، ایک نہ ختم ہونے والا صبر۔ میرے پاس اب صرف بیٹھنے اور لیٹنے کا آپشن تھا۔ بس بیٹھنا اور لیٹنا، وہ بھی عمر بھر کیلئے۔
اللہ کا شکر ہے کہ مصیبت کی ان گھڑیوں میں حوصلہ دینے والے میرے ہم وطن ساتھی میرے پاس موجود تھے۔ ان سب کے ساتھ میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا لیکن میرے لئے وہ خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر تھے ۔محض اللہ کی رضا کیلئے انہوں نے جو کچھ میرے لئے کیا اسے بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ حالتِ مرض میں اگر انسان کے ارگرد گرد ایسے لوگ ہوں تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار پْرسی کا حکم دیا ہے تاکہ بیمار کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ کیونکہ بیماری میں اگر انسان ہمت ہار جائے تو وہ زندگی کی جنگ بھی ہار سکتا ہے۔
اب تھکے ماندے زخم خوردہ جسم کو دوبارہ زندگی کی پٹری پر لانا تھا۔ زندگی کو اب نئے سرے سے اور نئے طریقے سے جینا تھا. تقدیر میری زندگی کو zero سے بھی پیچھے minus میں لے گئی تھی۔ اب مجھے اپنی زندگی کو minus سے شروع کرنا تھا۔ میرے اختیار میں اب میرا آدھا ہی جسم تھا۔ مجھے اب اپنے مفلوج آدھے جسم کا بوجھ ساتھ لے کر جینا تھا۔ میرے جسم کو کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا تھا، جن سے مجھے نمٹنا تھا۔ مجھے اپنے دل و دماغ کو بھی اس صورتحال کیلئے تیار کرنا تھا۔ یہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا۔ میرے لئے ایک ایک لمحہ کربلا تھا۔ ہر گذرنے والا دن مجھے نت نئے مسائل سے آشنا کراتا اور ہر روز میں ان مسائل سے جنگ لڑتا رہتا۔زندہ رہنے کیلئے مجھے کسی بھی حال میں یہ جنگ جیتنی تھی ورنہ ہار مجھے موت کی دہلیز تک لے جاتی۔
دو ہفتوں تک میں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ دو ہفتوں تک مجھے ڈرپ لگی رہی۔ اب یہ ڈرپ نکال کر مجھے تھوڑا کھانے کو دیا گیا جسکو نگلنا بھی اب میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ لیٹے لیٹے کھانے پینے کا یہ تجربہ بھی کتنا تلخ تھا۔کھانا پینا تو بس ایک مجبوری تھی ورنہ اس حال میں انسان کیا کھائے اور کیا پی لیا ایک اور سنگین مسئلے نے ان دو ہفتوں میں جنم لیا تھا۔ دو ہفتوں تک مسلسل کمر کے بل لیٹنے کی وجہ سے میری کمر کے نچلے حصے کا گوشت ہی اْکھڑ گیا تھا اور وہاں ایک گڈھا سا بن چکا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس معاملے کی طرف کسی ڈاکٹر یا نرس کا دھیان ہی نہیں گیا۔ اب اس pressure sore نے اگلے چھ مہینے تک مجھے کتنی تکلیف اور پریشانی میں ڈال دیا اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
ہسپتال والوں نے سکوٹر کا ایک ٹیوب دیا۔ کمر کے بل لیٹتے ہوئے یہ ٹیوب میرے اس pressure sore کے نیچے رکھا جاتا تاکہ اس پر جسم کا وزن نہ پڑے۔ یہ ایک الگ مصیبت تھی۔ میری کمر پر یہ کیسی مصیبتیں نازل ہورہی تھیں۔کمر کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی Spinal Cord بھی کٹ گیا اور اب کمر پہ یہ گہرا زخم بن گیا۔ اوپر سے کمر میں ڈاکٹر نے چھ کیل ٹھونس دئے۔ انکی تکلیف الگ سے۔ میری کمر میں یہ کیل بھی چْبھتے اور یہ ٹیوب بھی بہت پریشان کرتا۔ اب ہر دو گھنٹے بعد میرے ساتھی میری کروٹ بدلتے تاکہ جسم پر مزید کوئی زخم نہ بن جائے۔ وہ راتوں کو باری باری اٹھتے اور میری کروٹ بدلتے۔ میری وجہ سے انکو بھی بہت تکلیف اٹھانی پڑتی۔ اللہ انکو جزائے خیر دے اور انہیں جنت میں اعلی مقام عطا کرے۔ آمین
ایک دن میرا سب سے بڑا ہمدرد اور غمخوار جس کے ساتھ میرا دل و جان کا رشتہ تھا میرے پاس آئے۔اکھٹے گھر سے نکلے تھے، میرے دوست بھی اور میرے بڑے بھائی جیسے۔ شاکر غزنوی میری تیمارداری کیلئے ساتھیوں کو بھیجتے رہتے ۔کیا عظیم انسان تھے شہید شاکر صاحب ۔میرا حال دیکھ کر شہید شاکر صاحب کے چہرے کا تو رنگ ہی بدل گیا۔ میرے سرہانے بیٹھ کر میرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے رہے اور مجھے حوصلہ دیتے رہے۔ انکی دلنشین باتیں دل میں اتر جاتی۔ کیسا رفیق و شفیق انسان تھا۔انکے ساتھ گذرے ہوئے لمحات مجھے رہ رہ کے یاد آتے رہے۔ وہ تو مجھے حوصلہ دے رہے تھے لیکن انکے دل کی کیفیت انکے چہرے سے عیاں تھی۔ انکا وہ مسکراتا ہوا حسین نورانی چہرہ آج ہزاروں غم اپنے پیچھے چھپا رہا تھا۔ مجھے اس تکلیف میں دیکھ کر ان پر کیا بیت رہی تھی اسکا مجھے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
شاکر صاحب کچھ دن ہسپتال میں ہمارے ساتھ رہے۔ مجھے تحفہ میں ایک تسبیح دی جو میں نے اب تک اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہے۔ انہی کی زبانی پتہ چلا کہ ہمارے کچھ قریبی ساتھی یہاں موجود ہیں۔ ان ساتھیوں میں میرے جگری دوست جمیل قریشی، شاہین بھائی، عمر علی اور طارق ثانی بھی تھے۔ میں نے سوچا کہ انکے نام ایک خط لکھوں۔ کاغذ قلم منگوایا۔ جب میں نے قلم ہاتھ میں لیا اور لکھنا چاہا تو کاغذ پر صرف لکیریں کھینچ سکا کیونکہ میری انگلیاں اسقدر کمزور ہوچکی تھی کہ وہ قلم کو پوری طرح سنھبال نہیں پا رہی تھیں۔ لہٰذا میں خط نہ لکھ سکا۔
اتفاق ہسپتال میں قریباً دو ہفتے رہنے کے بعد مجھے منصورہ ہسپتال لاہور شفٹ کیا گیا جہاں میں پورا ایک سال ایڈمٹ رہا۔ منصورہ جماعت اسلامی پاکستان کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہاں انکی ایک چھوٹی سی بستی ہے جسکی بنیاد سید ابولاعلی مودودی علیہ رحمہ نے ڈالی تھی۔ ( جاری ہے)
(جاری ہے)
داستانِ حِجازی