یوم بدر اور اس کا پیغام

ڈاکٹر عابدہ مجید ترابی

تمام انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو یہ حقیقت سمجھائی کہ تمھارا مقصد حیات طاغوت کی نفی، اللہ کے نظام کی بالا دستی، شیطان سے برأت اور ہدایت الٰہی کی اطاعت و فرمانبرداری ہے

یہ منفرد جنگ کسی نسلی تعصب، لسانی تفاوت، علاقائی بنیاد یا سرحدی فرق کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی بلکہ ایک امت، ایک خدائی فوجدار، اور ایک جذبہ ایمانی پر لڑی گئی ہے

مسلمان کسی وقت کے فرعون سے دبتا نہیں بلکہ جابر و ظالم کے سامنے کلمہ حق کو پوری اطمینان، دلجمعی اور بہادری کے ساتھ پیش کرتا ہے

کفر کے ساتھ مفاہمت اور مداہنت کا راستہ نہ اپنانا چاہئے۔ اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھنی چاہئے

اس میدان میں اگر کوئی کارگر ہتھیار ہے تو بس صبر و استقامت، تحمل،ایثار و قربانی، عزم و حوصلہ اور اسلامی کردار ہے

اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قرآن مجید میں کفر کا لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا۔ ناشکری، کتمان حق، کتاب الٰہی کے احکامات کا کلی یا جزوی انکار، ایمانیات یعنی توحید، رسالت، اور آخرت کے عقائد میں کلی یا جزوی انحراف، شرک، منافقت، راہ ہدایت سے انکار، اور احکامات الٰہی، نماز روزے حج زکواۃ وغیرہ میں کسی کا علی الاعلان انکار، طاغوت کے نظام کا تعاون اور اللہ کے نظام کی بالا دستی سے قولاََ یا عملََا انکار کفر کے معنی کی وسعت میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء و رسل میں تفریق یعنی کسی پیغمبر یا رسول کو اپنی مرضی اور اپنی شرائط کے مطابق ماننا اور کسی کے پیغمبر ہونے سے انکار کرنا، الہ کے علاوہ یا اللہ کے ساتھ اس کائنات میں کوئی شریک بنانا، انبیاء کو قتل کرنا، اور اسلام کے خلاف خروج، اللہ کے دین میں از خود رد و بدل کرنا، لوگوں کو مساجد اور اللہ کی عبادت سے روکنا، کسی مسلمان کو صرف اسلام لانے کی پاداش میں تکلیف دینا اور مسلمانوں کو جبراََ اپنے گھروں اور ملک سے نکلنے بھی مجبور کرنا کفر میں شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروہ اللہ کی ماننے والا اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرنے والا، اطاعت شعار اوراس کی معرفت رکھنے والا اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی سعی کرنے والا تھا۔ اس گروہ کے رہنما انبیاء و رسل تھے۔ جبکہ دوسر گروہ نفس کا پجاری، خواہش نفس، طاغوت اور غیر اللہ کی بندگی کرنے والا، اللہ کا باغی اور سرکش، ھدایت سے دور اور اسلام کے خلاف نبرد آزما، دجال و طاغوت کا حواری ٹھہرا۔ اور اس کا سرغنہ سرکش نفس انسانی اور ابلیس ملعون ہے۔ پہلا گروہ حزب اللہ جبکہ دوسرا گروہ حزب الشیطان ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان حق و باطل کی کشمکش اور دشمنی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جبکہ آدمؑ کی پیدائش کے بعد شیطان نے انسانی نفس کی خواہش کا سہارا لے کر انسان کو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی پر اکسا کر دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیا اور شیطان نے یہ قسم کھائی قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین۔ اس نے کہا کہ اے اللہ تیری عزت کی قسم کہ میں ان سب کو تیرے راستے سے بھٹکاکر لے جاؤں گا۔ تمام انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو یہ حقیقت سمجھائی کہ تمھارا مقصد حیات طاغوت کی نفی، اللہ کے نظام کی بالا دستی، شیطان سے برأت اور ہدایت الٰہی کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔

سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نیا دین لے کر مبعوث نہیں ہوئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے اسی دین حنیف کی تکمیل فرمائی جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر تمام انبیاء کی تعلیمات سے ہوتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تھا۔ بعثت کے بعد مکہ کی سر زمین پر تیرہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اجنبی اور مشرکانہ اور مشکل ترین ماحول کے اندر اللہ کی توحید کی لو جلائی۔ اس دوران آپ اور آپ کے اصحاب پر نہ صرف زمینی مشکلات کے پہاڑ توڑے دئے گئے۔ بلکہ آسمانی آزمائشوں اور ابتلاء سے بھی گزارا گیا۔ تمام انسانی سہارے توڑ دیے گئے، رشتے، برادری، وسائل، قبائلی سہارے توڑ کر تنہاء کر دیا گیا۔ شاید اللہ تعالیٰ دنیا کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ثابت کررہا تھا کہ جس شخص کا چناؤ خاتم النبیین اور سید المرسلین کے طور پر کیا گیا ہے وہ کوئی عام آدمی نہیں۔ بلکہ ایمان و استقامت کا کوہ لم یزل ہے۔ دین ابراہیمی کے جھوٹے دعوے دار مشرکین مکہ نے ہر حربہ آزما لیا، ہر تکلیف دے کر دیکھ لیا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے وطن سے نکال دیا۔ مکہ کی ان تکلیفات اور مصائب کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو بھی شخص لشکر اسلام میں شامل ہوا وہ پورے شرح صدر کے ساتھ جانتا تھا کہ ان نا مساعد حالات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا مطلب ساری دنیا کے کفر سے دشمنی مول لینا ہے جس کے نتیجے میں مال، اولاد، والدین، عزتوں اور جانوں کی قربانی ہیچ ہے۔ اس استحضار کے ساتھ اسلام قبول کرنے والا ہر فرد مخلص، جانثار بہادر اور ابتداء ہی سے اسلام کا جری سپاہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور نے ایسے بطل اسلام تیار کیے جو ہر طرح کی قربانی دینے کو معمولی بات سمجھتے تھے۔ کفر سے مفاہمت اور مداہنت سے پاک یہی جانثار فوج پیغمبر آخر الزماں کے عظیم مشن کی ترویج کے لیے ضروری تھی۔

اسی دوران جب دین مکہ سے نکل کر دنیا کی دوسرے حصوں میں پھیلنے لگا تو اللہ نے سب سے پہلے مدینہ والوں کے قلوب کو نرم کیا اور 70 کے قریب لوگ حج کے موقع پر مکہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ اس دعوت کا مقصد مسلمانوں کو مدینہ میں پناہ دینا نہیں تھا بلکہ اہل مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت پیغمبر اپنی ہدایت اور رھنمائی کے لیے بطور مربی بلا رہے تھے اور ہدایت کا احتیاج لیے ہوئے تھے۔

ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی طور پر قریش مکہ خوش تھے کہ اسلام شہر سے نکل کر دیہات میں چلا گیا تھا۔ لیکن جلد ہی ان پر یہ بات ہویدا ہوئی کہ اسلام مدینہ میں نہ صرف پنپ رہا ہے بلکہ قریش مکہ کی انٹرنیشنل تجارت پر بھی اسلام قبول کرنے والے اب اثر اندازہو رہے ہیں۔ اور مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیادیں مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں کسی طور کفر کو قبول نہ تھیں۔ ان کا صدیوں پرانے جھوٹے زعم اور سرداری کی بنیادیں لرز رہی تھیں۔ وہ اسلام کی ترقی اور ترویج کو روز روشن کی طرح دیکھ رہے تھے۔

چنانچہ ابھی مسلمانوں کو مدینے میں ایک سال ہی ہوا تھا کہ مکہ کے سردار ابو جہل کی قیادت میں ایک لشکر مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے مدینہ پر چڑھائی کی غرض سے نکل آیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تاریخ اسلام میں خالصاََ کفر و اسلام کی بنیاد پر پہلا تاریخی معرکہ پیش آیا جسے غزوہ بدر کہا جاتا ہے جسے ہم اختصار کے پیش نظر زمینی اور واقعاتی اسباب کی تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے اور محض اشارات پر اکتفاء کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔

غزوہ بدر 17 رمضان المبارک 2 ہجری یعنی ہجرت کے دوسرے سال مدینہ سے تقریبا 70 میل دور پر ایک دیہات نما مقام جو بدر کے نام سے موسوم تھا وہاں پیش آیا۔ یہ غزوہ محض دو لشکروں کے درمیان ایک معمول کی جنگ نہ تھا بلکہ تاریخ انسانی میں بالعموم اور تاریخ اسلامی میں بالخصوص ایک نہایت اہم اور روشن سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کی عظمت و اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اسے یوم الفرقان بھی کہا جاتا ہے یعنی یہ حق و باطل کو واضح کرنے والا اور کفر،منافقت اور اسلام میں ایک واضح حد فاصل کھنچنے والا غزوہ تھا جس نے کھرا اور کھوٹا چھانٹ کر الگ کر دیا تھا۔ اس غزوہ میں یہ بات عیاں ہوگئی کہ کون حق یعنی دین اسلام کے ساتھ ہے اور کون باطل یعنی کفر و شرک کا حمایتی ہے۔ غزوہ بدر کو جس انداز اور منفرد شان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نے مختلف مقامات مثلاََ ََسورہ آل عمران سورہ النساء اور سورہ الانفال میں بیان کیا ہے اور ظاہر اور پنہان پہلوؤں کو جس طریقے سے بیان کیا ہے اس سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بخاریؒ،مسلمؒ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر کتاب الجہاد میں باب غزوہ بدر قائم کرکے بہت ساری روایات کو یکجا کردیا ہے۔

علامہ شبلی ؒ نے سیرت النبی میں جلد اول میں غزوات کی بحث میں غزوہ بدر سے متعلق تفصیلی گفتگو۔ الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودودی ؒ نے مفصل بحث کرتے ہوئے اس ضمن میں مستشرقین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا ہے۔

اس غزوہ کے مختلف پہلو سے احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ کوشش کریں گے کہ کچھ اہم نکات اور اس کے کچھ اہم پہلو اس مختصر تحریر میں اجاگر کیے جائیں۔

1۔ اسلام اانسانوں کی ایک ایسی جمعیت پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور اس کی نعمتوں پر رجنے والی نہ ہو بلکہ ان نعمتوں کا ضرورت کے مطابق استعمال کر کہ اصل اپنی مقصد حیات پر نظر رکھنے والے ہو۔ 2۔اسلام ایسا مومن انسان بنانا چاہتا ھے جو خود اللہ کی تلوار، اللہ کی برھان، اللہ کی تقدیر، اللہ کی تلوار، اللہ کا ہتھیار و مدد گار اور اللہ کا خلیفہ ہونے کا فریضہ ادا کرے۔ اور اس مقصد کے سامنے دنیا کی بیٹی اس کا راستہ روکنے والی نہ ہو۔

3۔اس غزوہ نے ثابت کر دیا کہ غزوہ سے پہلے مکہ میں اگرچہ مکہ میں سنگین حالات سے گزرنا پڑا آخر وہ کیا عالی مقصد تھا؟ آخر وہ کیا پیغام تھا جس کی تکمیل اور ترویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھی اور آپ نے اپنے اصحاب کی کس شان سے تربیت کی تھی کہ وہ صبر وعزیمت کی چٹان بن گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانہ وار قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے؟

4۔ ایمان کی پختگی، فریفتگی، جانثاری، عزیمت، استقلال، بہادری، توکل علی اللہ، تقویٰ، اور جذبہ جہاد کی ایسی مثال چشم فلک نے نہ دیکھی تھی۔ اس غزوہ نے دنیا کی آنکھیں کھول دی تھیں کہ یہ جذبہ کبھی مات کھانے والا نہیں۔ یہ جذبہ جنوں دنیاوی ہتھیاروں اور اسباب سے عاری، اور تعداد سے مبراء ہے یہ جنگ ایمان کے بل بوتے اور عشق کے سودہ جنوں سے لڑی گئی ہے۔

5۔یہ منفرد جنگ کسی نسلی تعصب، لسانی تفاوت، علاقائی بنیاد یا سرحدی فرق کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی بلکہ ایک امت، ایک خدائی فوجدار، اور ایک جذبہ ایمانی پر لڑی گئی ہے۔ جہاں عمر فاروق اپنے ماموں کے خلاف، ابوبکر صدیق اپنے بیٹے عبدالرحمان بن ابوبکر کے سامنے، حضرت حذیفہ اپنے باپ کے سامنے اور کوئی اپنے بھائی کے سامنے اور کوئی اپنے رشتہ دار کے سامنے تلوار سونتے میدان عمل میں تھا۔ آج رشتے اور ناطے ایمان کے ساتھ مشروط تھے۔ ایسی مثال تاریخ عالم میں نہ تھی۔ اگر کوئی مقصد پیش نظر تھا تو بس اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت و اطاعت کی جانب دعوت دینا تھا۔ کوئی منزل تھی تو بس یہ کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کی حاکمیت اور بالادستی ہو جائے۔ اس میدان میں اگر کوئی کارگر ہتھیار تھا تو بس صبر و استقامت، تحمل ،ایثار و قربانی، عزم و حوصلہ اور اسلامی کردار تھا۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

6۔غزوہ بدر نے ایک آفاقی پیغام دیا کہ اشاعت اسلام ،دعوت اسلام، نفاذ اسلام اور خلافت الہی کا قیام امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی زندگی کا مقصد ہے اور اسی بنیاد یہ ساری امت نبوت کی وارث، اللہ کی خلیفہ، خیر امت اور امت وسط ہونے کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اور دنیا میں شہادت حق اور آخرت میں شہادت علی الناس کا فریضہ ادا کر سکتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے باہم مضبوط اتحاد و اتفاق۔ مستحکم اجتماعیت اور اطاعت خداوندی اصل ہتھیار ہیں۔ ایسی اطاعت ہو کہ مومن مسلم اور منافق میں حدود متعین ہو جائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے۔

7۔غزوہ بدر نے واضح پیغام دیا کہ ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود اللہ کی اطاعت کرے اور دوسرے انسانوں کو اللہ کی اطاعت پر لگانے کی سعی مرتے مرتے بھی کرے اور کرتے کرتے ہی مرے۔ اللہ کے قانون سے ہٹ کر ہر قانون کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا،ظلم فتنہ و فسادکو ختم کرنے کے لیے،اللہ کی راہ میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ،کفار و مشرکین کی حکومت میں مظلوم وکمزور طبقوں بالخصوص مسلمانوں کی حمایت و نصرت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ نیک اور صالح اجتماعیت کے ساتھ جما رہے اور کفار اور مشرکین کے جال اور شیطان کے دھوکے میں نہ آئے۔ قیامت تک آنے والے ہر اللہ کے باغی اور فرعون سے ٹکرا جائے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بازیابی اور ان کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کردے اور اسلامی شعائر اور عبادات کی ادائیگی میں مزاحم (مقابل) قوتوں کو راستے سے ہٹادے۔ اور اسی راہ میں چل کر دو میں اس منزل پا لے یا تو اس۔ راہ میں زندگی بسر کر دے اور سارے ربع مسکون تک دین کا پھریرا لہرا دے یا اس راستے میں کام آ جائے اور شہادت کا مرتبہ پا کر ہمیشہ کے لیے سرخرو ھو جائے۔

8۔مسلمان کو تمام میسر دنیاوی اور ممکنہ تدبیریں اختیار کرنے کے بعد بھی ہر حال میں اللہ کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اسباب اور حالات کو دیکھ کر مایوس نہ ہونا چاہیے ۔مسلمان اپنی تعداد قوت و طاقت اور اسباب کو حتی الامکان جمع تو کرتا ہے مگر بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ اس ہستی پر کرتا ہے جو مسبب الاسباب ہے۔ اسی کی مدد کا طالب ہوتا ہے جو اسباب کا تابع نہیں۔ غزوہ بدر میں ایک طرف صرف 313 افراد،دو گھوڑے،70 اونٹ,چند تلواریں اور چند نیزے تھے ،بہت سارے اللہ کے سپاہی خالی ہاتھ۔ بغیر سواری کے اور نہتے تھے۔ دوسری جانب ایک ہزار دشمن تمام نمایاں سرداروں، وقت کے کرنیلوں جرنیلوں اور تربیت یافتہ جوانوں کی موجودگی ،آلات حرب کا ڈھیر اور مال و دولت اور ساز و سامان کا انبار 100 گھوڑے اور 170 اونٹ تھے۔ مگر مسلمانوں کا رعب ان پر چھایا تھا، جبکہ مسلمان اس لشکر کفار کو دیکھ کر خوش تھے اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور خوفزدہ نہ تھے ،بزدلی کا شکار نہ ہوے ،گھبراکر میدان سے راہ فرار اختیار نہ کیا،موت کے ڈر سے کفار و مشرکین کے سامنے کسی طرح کی کمزوری و پسپائی کا مظاہرہ نہ کیا،کسی طرح کے لیت و لعل اور حیلہ و بہانہ کی روش اختیار نہ کی ۔ شرعی احکام یا ایمان و اسلام سے دستبرداری کا اعلان نہ کیا بلکہ اسلام کے ایسے دشمنوں کے لیے اللہ کا قہر بن کر ٹوٹے۔ جن کو دین اسلام کی طرف دعوت کے ذریعے پھیرنا ممکن نہ تھا۔

9۔غزوہ بدر کا ایک پیغام یہ ہے کہ مسلمان کسی وقت کے فرعون سے دبتا نہیں بلکہ جابر و ظالم کے سامنے کلمہ حق کو پوری اطمینان، دلجمعی اور بہادری کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اور ببانگ دھل اعلان کرتاہے کہ دنیا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس لیے کہ میرا جینا اور میرا مرنا سب معبود حقیقی ذات واحد لا شریک کے لیے ہے۔

10۔غزوہ بدر اسلام کی بالا دستی اور فتح کا ایک پیغام بھی ہے کہ مشرکین جہاں بدترین ظالم ہوتے ہیں، وہیں موت کے نام سے لرزاں بر اندام ہو تے ہیں۔ وہ مرنے کے لیے کسی صورت آمادہ نہیں ہوتے۔انہیں اپنی کثرت ،اپنی قوت اور اقتدار کا نشہ تو ہوتا ہے مگر وہ جان دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوجاے کہ مسلمانو ں سے مقابلہ کرنے میں ان کی جان جا سکتی ہے تو الٹے پاوں بھاگ کھڑے ہوں گے۔

11۔ دور حاضر میں جب کہ امت اسلامی ساری دنیا میں مشکلات کا شکار ہے۔ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، شام، یمن اورعراق پر کفر کی یلغیار ہے ایسے میں غزوہ بدر سے رہنمائی ضروری ہے۔ اور اس بات پر یقین کامل کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو پست ہمت نہیں ہونا چاہئے، اللہ پر ایمان کو مضبوط بنانا چاہیے۔ کفر سے خائف نہیں ھونا چاہیے۔ کفر کے ساتھ مفاہمت اور مداہنت کا راستہ نہ اپنانا چاہیے۔ اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھنی چاہیے۔ اپنی اجتماعیت کو قائم رکھنا چاہیے اپنی صفوں میں منافقوں کو جگہ نہیں دینی چاہیے۔ اور انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین کا حقیقی مصداق بن کر میدان جہاد میں اترنا چاہیے۔ کفر مفاہمت مداہنت سے نہیں بلکہ جہاد، قتال اور مرمت سے سیدھا ہو گا۔ ظالم اور کافر کا علاج وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ آج کا کوئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خوش اخلاق اور دعوت دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر داعی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کے باوجود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدنی دعوتی زندگی کا شاید کوئی ایک ماہ بھی ایسا نہ گزارا ہوجس میں پورے تیس دن تلوار گھر میں لٹکی رہی ہو اور اس پر گرد پڑ گئی ہو۔

امت مسلمہ کا وقار، عزت، آبرو اور شان صرف جہاد سے ہے۔

غزوہ بدر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر غزوات ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بحیثیت امت جاگنا ہو گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جزوی نہیں بلکہ کلی عمل کرنا ہو گا۔ اسلام کی بالادستی ہر صورت قائم کرنا ہو گی چاہے اس راستے میں ہماری جان جاتی ہے تو چلی جائے۔

٭٭٭

ڈاکٹرعابدہ مجید ترابی صاحبہ کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار جناب ڈاکٹر عبد الروف صاحب کی زوجہ اور معروف دانشور ،تحریک آزادی کشمیر کے قائد اور آزاد کشمیر کے سابق نائب امیر پروفیسر الیف الدین ترابی ؒ کی بھتیجی ہیں ۔ڈاکٹر صاحبہ بھی ان شاء اللہ ماہنامہ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر لکھیں گی ۔الحمد للہ