باطل قوتیں ہر دور میں حق پرستوں کے خلاف گھناونا کردار ادا کرتی رہیں اور حق پرستوں کے قافلے کو تتر بتر اور ختم کرنے کیلئے ہر حربہ اختیار کرتی رہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حق پرستوں نے ہر دور میں جان دینا قبول کیا لیکن باطل کے سامنے جھکنے اور بکنے سے انکار کردیا۔ تاریخ ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ کربلا کے مقام پر جناب امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کو جس طرح بے دردی سے شہید کیا گیا ،اس سے واضح ہوا کہ باطل پرست کسی بھی روپ میں ہو سکتے ہیں لیکن ان سب کا عملی مشن اپنی خدائی کی پرستش کرانا اور حق کا نام نشان مٹانا ہی ہوگا۔ جس حسن ؓ اور حسینؓ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہو کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے در حقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔اسی حسین کو کربلا کے میدان میں نہ صرف شہید کیا جاتا ہے بلکہ ان کے جسم اطہر کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے ۔سر کو گردن سے کاٹ کر نیزے پر اٹھاکر ، اپنی کامیابی کا اعلان کیا جاتا ہے ۔جس کے آنسو بہانا ،رونا حضور اکرم ﷺ سے برداشت نہیں ہو تا تھا ،اسے بے دردی سے شہید کرکے خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ایک بار رسول اللہﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی طرف سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے حسینؓکے رونے کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا کہ بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔اسی حسین ؓ کے وجود کے ساتھ پھرکیا ہوا اور دکھ اس بات کا ہوا ہے کہ اسی رسول ﷺ کے نام لیواوں کے ہاتھوں ہی ہوا۔بات یہیں نہیں رُکی 1826 میں سید احمد شہیدؒنے تحریک جہاد شروع کی ۔1831میں آپ کی شہادت پر بظاہر یہ تحریک ختم ہوئی ۔ بالا کوٹ کے مقام پر ہزارہ کے بعض سرداروں کی کوفیوں کی طرح بے وفائی کے نتیجے میں سید احمد ؒ اور اس کے سینکڑوں ساتھی سکھوں کے ساتھ خونریز معرکے میں شہادت سے سرفراز ہوئے ۔بظاہر سب کچھ لٹ گیا ۔۔۔1832ء میں سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان ڈوگرہ سامراج کے خلاف دین کی سر بلندی اور آزادی کی خاطر صف آراء ہوئے ۔ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنی طاقت کے نشے میں ان سمیت بیس سرداروں کو گرفتار کرکے ،منگ کے مقام پر ان کی کھالیں کھینچوا کر،انہیں شہادت سے سرفراز کروایا۔ظلم و جبر کی انتہا تھی لیکن یہ امام حسین ؓ کے کردار کی ہی تقلید تھی جس نے ان جانبازوں کو حق پرڈٹنے اور مرنے کی ترغیب دے کر باطل کے ایوانوں کو محو حیرت میں ڈال دیا تھا۔مولانا محمد علی جوہر ؒ نے امام حسین اور کربلا کے حوالے سے پوری کہانی صرف ایک شعر میں سمیٹ لی ہے ۔لکھتے ہیں۔قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے ۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔کربلا سے بالا کوٹ اور بالا کوٹ سے منگ اور منگ سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہی اگر دیکھیں گے تو صاٖ ف نظر آتا ہے کہ حسینی مشن اور حسینی کردار کی واضح روشنی میں مجاہدین اسلام نے آزادی اور اسلام کی شمع جلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے ۔خون شہداء ضائع نہیں ہوتا۔بالا کوٹ اور منگ 1947میں آزاد ہوئے ،سید اور خانوں کی شہادت کے تقریباََ 115سال بعد ۔ تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کے دوران بہتا ہوا لہو بھی انشا ء اللہ ضائع نہیں ہوگا ۔تاہم کبھی کبھار بشریت کے تقاضے کے تحت حالات واقعات ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ 20فروری2023کی شام تحریک آزادی کشمیر کے ایک عظیم سپوت اور قائد پیر بشیر احمد المعروف امتیاز عالم انصاروں کی بستی میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد جونہی باہر نکل آئے تو ان پر نامعلوم حملہ آوروں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی ،کلمہ طیبہ کا ورد کرتے کرتے یہ حق کا راہی ،حسینی مشن کا سپاہی جاں جاں آفرین کے سپرد کرگیا۔شہید کے والدپیر سکندر ؒصاحب اور جواں سال بھائی پیر نظیر صاحب نوے کی دہائی میں ہی قابض فورسز کے ہاتھوں وادی کشمیر میں شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔دشمن نے آبائی مکان بھی جلاکر خاکستر کردیا تھا۔امتیاز عالم صاحب اس سب کے باوجود ڈٹے رہے اور دشمن کو ناکوں چنے چبواتے رہے ۔امتیاز عالم ؒ کی تمنا شہادت تھی اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ انہیں شہادت کی ہی موت ملے گی لیکن یہ ان کے وہم گماں میں بھی نہ تھا کہ انصاروں کے درمیان کوئی نامعلوم شخص یا اشخاص ان کی شہادت کا سبب بنیں گے ۔امتیاز عالم کی شہادت پر دشمن نے جشن منایا اور اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ وہی اس قتل میں ملوث ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک اس قتل میں ملوث دشمن کے ایجنٹوں کو نہ ہی بے نقاب کیا جاسکا اور نہ ہی پکڑا جاسکا ۔۔۔۔اللہ رحم فرمائے