
سیدعارف بہار
بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست ہوئی ہے اور کانگریس پارٹی نے میدان مار لیا ہے ۔کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کے یہ انتخابی نتائج اس لحاظ سے اہم ہیں کہ یہ جنوبی بھارت کی وہ واحد ریاست تھی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم تھی اور یہ کہ ریاستی اسمبلی کے ان انتخابات کے بعد اگلے برس بھارت میں عام انتخابات ہورہے ہیں ۔اگلے انتخابات کے بعد کانگریس اپنی مردہ سیاست کے تن میں جان ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے ۔راہول گاندھی نے ملک گیر بھارت جوڑو یاتر ا کے ذریعے اپنی جماعت کی بحالی اور گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش کی ہے ۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی تیرہ فیصد ہے ۔کانگریس نے ایک بار پھر مسلمان ووٹر کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی ہے جس مسلمان ووٹر کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے یا تو دھتکار دیا تھا یا اسے قطعی طور پر اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں مسلمان ووٹر کے تنِ مردہ میں بھی ایک جان سی پڑ گئی اوران انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر نو مسلمان امیدوار کامیاب ہوگئے۔بی جے پی نے مسلمانوں کو سیاسی منظر سے لاتعلق کر دیا تھا۔بی جے پی کی اس پالیسی کے باعث بھارت کا مسلمان ووٹر خود کو بے اثر اور تنہا سمجھنے لگا تھا ۔مسلمان ووٹر کی اس کمی کو دور کرنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو توا کا نفرت کارڈ پوری قوت سے کھیلا تھا ۔مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کی لہر اُٹھا کر ہندوئوں کے جذبات کے دھارے کو اپنی جانب موڑا تھا ۔بی جے پی نے حجاب ،ٹیپو سلطان،لو جہاد اور نجانے کونسے موضوعات کو انتخابی ایشو بنا کرہندوتوا لہر اُٹھانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی ۔ان انتخابات میں مودی کی شعلہ بیانی بھی ووٹر کو دل نہ لبھا سکی ۔کرناٹک کی جیت کے بعد جنوب میں کانگریس کی ریاستی حکومتوں کی تعداد سات ہوگئی ۔کرناٹک وہ واحد جنوبی ریاست تھی جہاں بی جے پی کی حکومت تھی اور اب یہ جماعت اس آخری مورچے سے بھی محروم ہو گئی ۔کانگریس نام کی حد تک ہی سیکولرازم کی علمبردار تھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھو ں چاروں شانے چِت ہو کر مضمحل اور درماندہ حال ہو کر رہ گئی تھی ۔

مودی کی پالیسیوں نے مغرب میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں اور مغرب کے حلقوں میں یہ سوال اُٹھائے جانے لگے تھے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت بھارت میں ایک فاشسٹ راج پر منتج ہوگی ۔اس دور میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا تھا اس نے بھارت میں معاشرتی تقسیم کی لکیروں کو بھی گہرا کر دیا تھا۔اسی لئے مغرب میں نریندر مودی کی پالیسیوں کو محتاط انداز سے ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا ۔کانگریس کی واپسی کے لئے بھی مغربی میڈیا میں ایک نرم گوشہ محسوس کیا جانے لگا تھا۔چھ کروڑ آبادی کی ریاست کرناٹک میں ہندو توا اور نفرت اور انتہا پسندی کے نعروں کے باجود بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست ہوئی اور یوں یہ بی جے پی کے ہاتھ سے ہندو توا کارڈ کے گرنے کے مترادف ہے اس کے باوجود یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ بی جے پی کا ہندوتوا اور ہندو راشٹریہ کارڈ عام انتخابات میں کلی طور پر غیر موثر اور متروک ہوجائے گا۔

جنوبی بھارت میں یوں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا اثر زیادہ نہیں تھا صرف کرناٹک ہی وہ واحد ریاست تھی جہاں اس کا اقتدار قائم تھا ۔اب جنوبی بھارت کے لوگوں نے بی جے پی کے نفرت کارڈ کو مسترد کیا مگر باقی ملک میں بھی اس کی پیروی ہوگی اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔کانگریس اپنے جواں سال گاندھی چہروں راہول گاندھی اور پریانیکا گاندھی کے ذریعے اپنی بحالی کی سرتوڑ اور فیصلہ کن کوششوں میں مصروف ہے اور مغرب میں ان کی بات اب کسی حد تک سنی جا رہی ہے۔مغرب اب انہیں متبادل کے طور پر دیکھنے لگا ہے مگر بھارتی ووٹر کا دل پسیجتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ مغربی میڈیا میں کانگریس کے لیے ہمدردی کے جذبات واضح طور پر محسوس کئے جا رہے ہیں۔مودی نے ان انتخابات میں مسلمان مخالف کارڈ کھیلنے کی بھرپور کوشش کی اور دیوتا ہنومان کا نعرہ لگانے کے ساتھ ساتھ مسلمان مخالف فلم کیرالہ سٹوری کی تعریف کی ۔اس فلم میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنے دام ِمحبت میں پھنسا کر اسلام قبول کراتے ہیں۔اس کامیابی کے بعد راہول گاندھی نے دہلی میں کہا ہے کہ نفرت کا بازار بند کر دیا گیا ہے۔کانگریس نے مسلمان ووٹر کو دوبارہ مجتمع کرکے انتہا پسندی کی لہر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگریس اپنی اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی مگریہ پالیسی ان علاقوں میں ردعمل کو بھی جنم دے سکتی ہے جو بی جے پی کے گڑھ ہیں اور جہاں بی جے پی ایک مسلمان مائنڈ سیٹ پیدا کر چکی ہے ۔یہاں کانگریس پر مسلمان دوستی کا ٹھپہ اس کے گلے بھی پڑ سکتا ہے ۔بھارت کا مجموعی سیاسی مزاج اب مودی کی پیدا کردہ مسلمان دشمنی سے فوری مسلمان دوستی پر ٹیون ہونا اب آسان نہیں رہا ۔

اگر یہ شکست نریندرمودی کے انجام کا آغاز بنتی ہے تو کانگریس کے آنے کے بعد بھارت کی کشمیر پالیسی کیا رہتی ہے ہمارے لئے یہ سوال اہم ہے۔اس وقت بھارت کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی اور بریک تھرو کی توقع نہیں مگر ساری توجہ اس بات پر ہے کہ بھارت کی کوئی حکومت کشمیر پر مارے جانے والے شب خوں کا ازالہ کرتی ہے یا نہیں ۔فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی راہول گاندھی سے کچھ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اسی لئے انہوںنے راہول کی بھارت جوڑو یاتر ا میں کشمیر پہنچنے پر ان کا استقبال کیا تھا ۔کشمیر پر بھارت کی پالیسی کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی کے زوال کا عمل پھیلنے بڑھنے اور تکمیل تک پہنچنے کے باوجود بھارت کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ بھارت پر باہر سے کوئی دبائو ہی نہیں ۔صرف کشمیری عوام بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں اور وہ اس موقف میں تنہا ہیں ۔
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں