سرینگر میں جی-20 اجلاس

انجینئر حمزہ محبوب

بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایک اصطلاح ”In diplomacy, either you are on the table or on the menu ”کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاستوں کے باہمی تعلقات اور تنازعات کے حل میں ایک فریق یا تو اپنے جملہ وسائل بشمول معاشی صورتحال، سیاسی نظام اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس درجہ پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات، موقف اور ایجنڈا کی تکمیل بآسانی کروا لیتا ہے یا دوسری صورت میں اس قدر بے وقت ہوتا ہے کہ دوسری طاقتیں اسے ترنوالہ بنا لیتی ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی کچھ اسی سطر کے بیچوں بیچ گھومتا ہے جہاں تقسیم ہند کے وقت کا چھوڑا تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے سفارتی’ ٹیبلز ‘کی زینت بنتا رہا۔ 1947میں طویل انگریز راج کے اختتام اور تقسیم ہند کے نتیجہ میں پاکستان وبھارت کے معرض وجود میں آتے ہی باونڈری لائن کمیشن کی بے ایمانی، نہرو –مہاراجہ روابط اور نہرو-ماونٹ بیٹن ساز باز نے دونوں ممالک کے درمیان ریاست کشمیر کو بطور تنازعہ بنا کر لا کھڑا کیااور تقسیم ہند کے پہلے برس ہی جنگ چھڑ گئی۔ تنازعہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 1948 میں قرارداریں منظور کی گئیں، جن کی روشنی میں تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت برصغیر کی تمام دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی یہاں کے باسیوں کو حق رائے دہی کی صورت میں دیا گیا۔گزشتہ چھہتر برسوں میں بھارت نے کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق رائے شماری پر عملدرآمد تودرکنار ریاست پر اپنا جابرانہ تسلط قائم رکھنے کے لیے طاقت، قوت اور اختیار کا بے دریغ استعمال کیا جس کی دنیا کے باضمیر حلقوں نے بارہا مذمت کی ۔ کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی جانب سے عالمی فورمز پر ترجمانی سے دنیا کے سامنے بھارت کا ظلم، جابرانہ رویہ اور غاصبانہ قبضہ بارہا بے نقاب ہوتا رہا۔تاہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کی مذموم و ناکام کوشش کے بعد بھارت اب اس کوشش میں مگن ہے کہ جھوٹے بیانیے سے دنیا کے طاقت ور حلقوں کو اپنے ساتھ ملا کر کشمیر کا مسلہ’ سفارتی ٹیبل’ سے ہٹا کر’غاصبانہ مینیو’ کا حصہ بنا دیا جائے اور غیر قانونی قبضہ کو تقویت بخشتے ہوئے غیر آئینی اقدامات اور اوچھے ہتھکنڈوں سے بھارت میں ضم کیا جا سکے۔

ریاست پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کے تسلسل میں22، 23 مئی کو بھارت کی جانب سے جی 20 ممالک کی ٹورازم سے متعلق میٹنگز کے لیے متنازعہ ریاست کے شہر سرینگر کا نتخاب کیا گیا ہے جو کہ ان 20 ممالک کے سامنے اپنی جارحیت چھپانے، تحریک کشمیر دبانے اور حالات سازگار دکھانے کی سازشوں کی کڑی ہے۔ یعنی ہندوتوا سرکار 5 اگست 2019 کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی سے ریاستی تشخص، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کو شب خون مارنے کے بعد کشمیر کی موجودہ صورتحال یعنی اضطراب، جدوجہد آزادی کرنے والے باشندوں کو شہید، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی قید، میڈیا و انٹرنیٹ کی پابندی، سیاسی قیادت کی نظر بندی ،، غیر آئینی عدالتی ٹرائل، ہندو آباد کاری، غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل کے اجرا اور 10 لاکھ فوج کے قبضہ پر ‘پردہ پوشی’ کر کے یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ کشمیر میں تحریک کا وجود اور بھارت سے آزادی کی امنگ ختم ہو چکی ہے اور حالات بالکل معمو ل کے مطابق ہیں، جو صریحاََ ََحقیقت کے برعکس، سچ سے کوسوں دور، ہندوتوا اقدامات، مکارانہ بیانیہ، جھوٹ، فریب، منافقانہ خارجہ پالیسی سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک اور حربہ ہے۔

بھارت کی جانب سے کشمیر پر چھہتر برس کے غاصبانہ قبضہ کے بعد 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کی شقوں کی منسوخی سے ریاستی تشخص پر شب خون مارتے ہوئے نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ پاک- بھارت باہمی معاہدات، ہری سنگھ و بھارت کے نام نہاد معاہدہ الحاق اورازخود بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ تنسیخ سے بھارتی شہریوں کو زمین کی خریداری کا حق حاصل ہوا جو بلا شک و شبہ اسرائیل کی طرز پر آباد کاری کا ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے نتیجہ میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا مقصود ہے۔ آبادیاتی تناسب سے مراد کشمیر میں مسلم اکثریت کے تناسب کو متاثر کر کے ہندو پنڈت آبادکاری سے آبادی کا کچھ ایسا تناسب قائم کرنا کہ جو اقوام متحدہ کے تفویض ممکنہ و آمدہ ریفرنڈم والی قرارداد کو ہی پس پشت پر ڈال دے۔ یعنی کہ اول تو ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم ہو جائے اور بھارت میں ضم ہو جائے۔ دوم، اگر ریفرنڈم ہو بھی تو نئے آبادیاتی تناسب سے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ بھارت کے حق میں کروایا جائے۔ ریاست کے باسیوں نے ان اقدامات پر بھرپور ردعمل دیااور ریاست کا خصوصی تشخص ختم کرنے کا انتہائی اقدام تصور کیا گیا۔

امیت شاہ کی پولیٹیکل انجینئرنگ،اجیت دوول کے عزائم، آر ایس ایس کے مقاصد کی تکمیل کرتے نریندرا مودی کی ہندوتوا پالیسی سے کشمیریوں کا تشخص مسخ کرنے کی کوششوں کے بعد دنیا کو جھوٹا بیانیہ دکھانے کے حربوں میں جی-20 اجلاس کا انعقاد کوئی پہلا موقع نہیںبلکہ ایسے عزائم کی بے نقابی یورپی یونین کی جانب سے ڈس انفو لیب(EU DISINFO) کی نشاندہی کی صورت میں بھی ہوئی۔ بھارت کی جانب سے بے شمار ایسی ویب سائٹس بنائی گئیں جو بظاہر ریسرچ کے ادارے تھے اور یورپی یونین ان ویب سائٹس کی ریسرچ کے نتیجہ میں مختلف جریدوں کی تشہیر کرتی تھی لیکن 2019 میں تحقیق وچھان بین کے نتیجہ میں یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ بھارت نے بے شمار جعلی اکاؤنٹ و ویب سائٹ مخص اس غرص سے بنائیں کہ جن سے غلط معلومات، پروپیگنڈہ اور حقائق سے منافی موقف دنیا کو پہنچا کر کشمیر کی حقیقی صورتحال سے آگاہی سے کوسوں دور بھارتی ایجنڈا کو پروان چڑھایا جائے۔ یورپی یونین نے بھارت کے ان عوامل کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ باقاعدہ رپورٹ نشر کی جو میڈیا اور خبروں کی زینت بنی۔

یورپی یونین جیسے مستند اتحاد کی جانب سے پردہ چاک ہونے کے باوجود بھارت اپنی منافقانہ چالاکیاں و چال بازیوں سے باز نہ آیا۔ یورپی پارلیمان کے 28 ممبران کو اکتوبر 2019میں ریاست کے خرچ پر مقبوضہ علاقوں کا دورہ کروا کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ریاست میں امن قائم ہے اور بھارت کے آئین منسوخی کے اقدامات سے ریاست کے نظم و نسق اور کشمیریوں پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ مزید برآں بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت، برازیل، جرمنی نے مستقل رکنیت کے لیے کوششیں تیزی سے جاری کر رکھی ہیں۔ مگر پاکستان،روس، ارجنٹائن اور چین کے اقدامات سے بھارت کی یہ چال کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

ماضی کی قصہ گوئی کو چھوڑ کر حال کا ہی جائزہ لیا جائے تو ہندوتوا سرکار مقبوضہ ریاست میں آزادی پسند قوتوں کے پلوامہ حملہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے 40 فوجی اہلکاروں کی لاشوں پر بھی جھوٹ اور الزام تراشی کے حربوں سے باز نہیں آیا۔ 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملہ ہوا اور بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔بعد ازاں 28 فروری کو اسی کو بنیاد بنا کر نام نہاد فالس فلیگ آپریشن اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی کہ جس پر پاک فضائیہ کے بھرپور جواب سے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ بھارت کے جھوٹے بیانے کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ بھارتی طیارے کے پاکستان حدود میں گر جانے اور پائلٹ ابھی نندن کی گرفتار کو بھی فتح کا روپ دھارنے کی کوشش کرتے ہوئے صدارتی اعزاز سے بھی نوازا گیا اور بھارتی میڈیا پر بھی کچھ ایسا بیانیہ بنایا گیا کہ جس سے عوام کے دل کو تسلی ہو اور حقیقی سبکی کو نام نہاد کامیابی بنا کر نریندرامودی اور بھارتی جنتا پارٹی کو ہندو اکثریت کی سیاسی حمایت حاصل ہو سکے۔ پلوامہ حملہ سے متعلق کشمیر کے اس وقت کے گورنر ستیہ پال نے بھارت کے الزام کی قلعی بھی کھول دی ہے کہ جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ حملہ واضح طور پر انتظامی اور سیکیورٹی لیپس تھا کہ اس ممکنہ حملے کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ اور فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں سفارشات مرکز کو بھیجی گئیں لیکن وہاں سے کوئی اقدامات عمل میں نہ لائے گئے۔ ان کے انٹرویو کا جو کلپ وائرل ہے اس میں انھوں نے کہا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں خود مودی کو یہ بتایا تھا جب مودی نے انھیں جم کاربٹ نیشل پارک سے نکل کر فون کیا تھا۔ انھوں نے کہا ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن وہ کسی فوٹو شوٹ پر جم کاربٹ نیشنل پارک میں تھے جہاں سگنل (فون) نہیں ہوتا ہے اور انھوں نے مجھے فون کیا تو میں نے ان سے کہا کہ یہ ہماری غلطی سے ہوا ہے اگر ہم انھیں طیارے دے دیتے تو یہ نہیں ہوتا تو انھوں نے ہمیں چپ رہنے کے لیے کہا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اجیت ڈووال نے بھی مجھے کہا، آپ مت بولیے آپ چپ رہیں۔صحافی نے اس پر کہا کہ’ یعنی یہ ایک طرح سے سرکار (حکومت) کی پالیسی تھی کہ پاکستان پر الزام لگاؤ، ہم لوگ اس کا کریڈٹ لیں گے اور یہ ہمیں انتخابات میں مدد دے گا۔‘ان کی اس وضاحت پر ستیہ پال ملک نے حامی بھری۔اس خاموشی اور جھوٹ سے پاکستان مخالف بیانیہ بنا کر ہندو اکثریتی ووٹ حاصل کر کیاآ رایس ایس کے سیاسی گروپ بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

جہاں بھارت ایک جانب مسلسل جھوٹ و فریب سے اپنی سفارتی حیثیت اور بیانیہ بنانے کی کوششوں میں مگن ہے تو وہیں عالمی مستند اور باضمیر ادارے کشمیر کی حقیقی صورتحال سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اس امر کے شاہد ہیں کہ بھارتی قابض افواج کی قتل و غارت سیمیں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت اور ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ 2016 سے لیکر اب تک 16 ہزار مظلوم شہری پیلٹ گنوں کے چھروں سے متاثر، 1300 لڑکے قوت بینائی سے محروم ہوئے۔ 2008 میں آٹھ ہزار گمنام اور اجتمائی قبروں کے انکشاف نے بھی دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیے رکھا جو بھارت کے ظلم کی نمایاں مثال ہے۔ بھارتی قابض افواج کی جانب سے قریبا 16000 آپریشز کے نتیجہ میں 13 ہزار سے زائد بچوں کو غائب کیا گیا۔ جبکہ 2016 سے اب تک بھارتی ہندوتوافوج کی جانب سے قریبا 4 ہزار خواتین کی عصمت دری اور لگ بھگ 700 خواتین کو قتل کیا گیا۔ بھارت کے ان غیر انسانی اقدامات کا ذکر ماضی میں پاکستان کی جانب سے 131 صفحات پر مشتمل ڈوزیرمیں بھی کیا گیا کہ جس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ2016 سے بھارتی فوج کے لگ بھگ 1128 افراد انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث رہے ہیں۔ یاد رہے یہ تعداد بھارتی فوج کے اعلی افسران یعنی میجر جنرل، برگیڈیر و دیگر عہدیداران پر مشتمل ہے۔ یاد رہے یہ شماریات بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس و تحقیق سے شامل کیے گئے۔

بھارتی جھوٹے بیانیے کے برعکس حقائق تو کچھ یوں بھی ہیں کہ ریاست میں 5اگست سے ایک دن قبل ہی ریاست کشمیر میں تمام سیاسی رہنماوں کو گرفتار کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا یا نظر بند کر دیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 33 سیاسی رہنماوں کو ایک جگہ قید کیا گیا۔ وادی میں مکمل طور پر کرفیو، انٹرنیٹ بند اور سکول لگ بھگ سات ماہ تک بند رہے۔ تمام تر پابندیوں کے ہوتے ہوئے صحافیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ جس کے تحت بھارتی ریاست کے مفادات سے ٹکرائو والی کسی بھی رپورٹ کی اشاعت پر سزائیں دینے کا فیصلہ کیاگیاظلم و بربریت کے اس نئے دور میں عظیم بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانیؒ نے بھی دوران نظر بندی ہی وفات پائی لیکن ان کی میت بھی ورثا کے حوالے کرنا تو درکنار بلکہ وصیت کے برخلاف گمنا م جگہ پر تدفین تک کر دی گئی۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ و معروف حریت رہنما یٰسین ملک کو بھی غیر قانونی مقدمات میں الجھا کر پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ یہی نہیں خواتین کے حقوق کی علمبردارآسیہ اندرابی کو بھی مقید کیا گیا ہے جبکہ ان کے شوہر بھی گزشتہ 27 برس سے مقید ہیں۔ جن کو ایشیا کے سب سے طویل مدت سے مقید فرد کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔دی ٹائمز کی حالیہ رپورٹ میں دنیا کے سو بااثر افراد کی فہرست میں شامل کشمیر سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے علمبردارخرم پرویز کو بھی غیر قانونی طور پر پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔

جہاں تمام تر بربریت اور حربوں سے بھارت دنیا کے سامنے یہ تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ کشمیر اب بھارت کا حصہ بن چکا ہے اور کشمیری اسے قبول کر چکے ہیں، وہیں کشمیر میڈیا سروس کے حالیہ شماریات اس مفروضے کی نفی کرتے ہیں کہ حالات اگر اس قدر ہی سازگار ہیں تو 5 اگست 2019 سے لیکر اب تک 753 بے گناہ شہری شہید، 2356 باسیوں کو زحمی، 18905 افراد کو غیر قانونی حراست، 1104 مکانات و تنصیبات کو تباہ، 52 خواتین کو بیوہ، 128 بچوں کو یتیم اور 127 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کی نوبت کیونکر پیش آئی۔ ایکسپریس ٹریبیو ن کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 3.4 ملین غیر ریاستی افراد کو ڈومیسائل کا اجرا کرکے ریاست میں مسلم آبادیاتی تناسب تبدیل کر کے خصوصی شقوں کی منسوخی پر اسرائیل کی فلسطین طرز پر کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کی آباد کاری کے منصوبہ سے متعلق خدشات کو بھی درست ثابت کیا ہے۔

بھارت ریاست کشمیر سے متعلق جی 20 ممالک میں یہ تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ جیسے حالات گوا میں ہیں ویسے ہی ریاست میں ہیں تاہم کشمیریوں کی بے دریغ قربانیوں، طویل جدوجہد اور پاکستان کی جانب سے ترجمانی سے کشمیر کی حقیقی صورتحال پر پردہ پوشی ممکن نہیں۔ جہاں ریاست کشمیر کے اسٹیک ہولڈرز کی طویل محنت سے تحریک کشمیر توانا اور امید آزادی زندہ ہے وہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی جانب سے مزاحمتی خارجہ پالیسی کے بجائے جارحانہ پالیسی کا اجرا کیا جائے کہ جس سے بھارت کا جھوٹا بیانیہ ہر فورم پر مسلسل اور نئی جہتوں کے ساتھ اجاگر کیا جاسکے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پالیسی بیان اور وزیر خارجہ کے دورہ بھارت میں پالیسی بیانات خوش آئند ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کی جانب سے تمام تر مظالم، اقدامات، چال بازیوں، قتل و غارت، ہٹ دھرمی اور آئینی چھیڑ چھاڑ کے بعد حقائق،، کشمیریوں کی قربانیوں اور تحریک کشمیر کو دبایا نہیں جا سکتا۔ جی 20 اجلاس کے سرینگر میں انعقاد سے جزوقتی تاثر تو قائم کیا جا سکتا ہے لیکن کل وقتی طور پر اوچھے ہتھکنڈوںاور جھوٹے بیانیہ و حربوں سے کشمیر میں تحریک آزادی کا وجود نہ چھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دبایا جا سکتا ہے!

٭٭٭