
شہزاد منیر احمد
خود آگاہی اللہ کا نور ہے، جو اللہ صرف انہیں عطاء فرماتا ہے جو اس سے طلب کرتے ہیں
اچھی گفتگو تو سنی ہی اس لیے جاتی ہے کہ علم و عمل میں اضافہ کریں اور بہتر طرزِ زندگی اختیار کریں۔
اپنی حیثیت کو خوب پہچانیں، اپنی خود داری اور عزت نفس کو محفوظ و مضبوط بنا کر پہاڑ کی طرح جئیں
اپنی ماؤں کو تو یہ بات کہنے کا میں خود کو اہل نہیں سمجھتا، لیکن بہنوں، اور بہو بیٹیوں کو اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ ” خود آگاہی ” کے آئینے سے اپنی ذات، حیثیت اور مقام کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ مقدس حقیقت بڑی واضح اور نمایاں نظر آتی ہے کہ اللہ خالق کائنات نے زمین پر اشرف المخلوقات(انسان) کی تخلیق کے لیے آپ کے وجود کا انتخاب کر کے عورت پر کتنا بڑا احسان کیا ہے اور اسے اپنا قرب بخشا ہے۔ عورت کو زندگی میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا ہو، وقت بدلتا ہے، گزر جاتا ہے اور زندگی بیت جاتی ہے کہ ” زندگی اک گزران ہے بہر حال گزرے گی” علامہ اقبال کی فکری گہرائی کا اندازہ کریں۔کس خوبصورتی سے ہمیں یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ آپ اپنی کم مائیگی،مفلسی اور عام سی زندگی پانے پر پریشان کیوں ہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بادشاہوں کی آسائش سے پُر اور اختیارات سے بھری ہوئی زندگی کا انجام بھی وہی چھوٹی سے ” قبر” ہوتا ہے جیسی کسی غریب آدمی کو میسر ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:-
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
ہمیں اپنی ذات کے اندر جھانک کر اپنی ذات کا مقام، حیثیت کا مان اور کردار کا حسن دیکھ کر اعمال کرنے چاہیں۔ زمانے کی رغبتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ہر شخص کے قریب زندگی کا مفہوم مختلف ہے۔ ذہنی رجحان اور اختلافات کے ہنگاموں میں کھو کر کیا حاصل ہوگا،صرف بیزاری اور مایوسی۔دوسروں کے رہن سہن، دیگر مراعات اور اللے تللے دیکھتے ہوئے حسد کا یرقان آپ کو ناشکری اور شیطانی وسوسوں میں مبتلاء کر کے اللہ کی عطاء کردہ صلاحیتں دیکھنے سے محروم رہنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اپنی ذات کو اپنے عقیدے سے مضبوط اور محفوظ رکھیں۔ آپ جو کسی کی محبت میں تڑپتے ہیں، سوچیں تو، شائد آپ بھی کسی دل کا چین ہوں اور آپ اس سے بے خبر ہوں ۔کبھی اپنا بھی نظارا کیا ہے تو نے اے مجنوں کہ لیلٰی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں۔
اگر انسان کو اپنی حیثیت اور حرمت کا ادراک حاصل ہو جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کبھی ناشکری اور جرم و گناہ کے ارتکاب کا تصور بھی نہ کرے۔ خود آگاہی اللہ کا نور ہے، جو اللہ صرف انہیں عطاء فرماتا ہے جو اس سے طلب کرتے ہیں۔ اگر انسان اپنے دن کا آغاز اپنی ذات کے سچ فکر و عقیدت (خود آگاہی) سے کرے کہ میری پیدائش سے پہلے میں کیا تھا، میرے عدم سے وجود میں آنے کے مراحل کیا کیا تھے اور ان کا خالق و نگران کون تھا۔ دنیا میں میری آمد کے بعد مجھ پہ کیا گزری اور۔ گذر رہی ہے وغیرہ وغیرہ، تو صراطِ مستقیم کھونے کا امکان ہی نہ رہے۔ اس تجزیاتی اور تحقیقی کاوشوں سے یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ۔آدمی اپنے کردار کے حوالے سے دو قوتوں کو جواب دہ ہے۔ ایک االلہ اور دوسرا معاشرہ۔ اسے عام فہم لفظوں میں ” حقوق االلہ اور حقوق العباد کہہ لیں۔۔
حقوق اللہ کے اعتبار سے تو قرآن پاک کا پڑھنا،سمجھنا اور اس میں درج ھدایات پر عمل کرنا لازم ہے کہ وہ کافی بھی ہے اور شافی بھی۔۔ البتہ حقوق العباد کے بارے سنت و شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چلنے ہی میں عافیت ہے ۔چونکہ اس دنیا میں اللہ الرحمٰن نے ایک ہی انسان کامل(محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ہے۔ اس کی اتباع کافی و شافی ہے۔ بقول کسے:-
بن چاہے بھی بدل جاتی ہے زندگی
مل جائے اگر کوئی رازدان حیات
اس نے مجھے بتایا کہ عورت کو اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اس کی ذات ایک خاص مقصد کی تکمیل کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس لیے اسے دوسری ذی روح مخلوق سے مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاََ مچھلیوں کے لیے خوبصورت پہاڑ اور صحراؤں کی کوئی وقعت نہیں۔ وہ پانی کا جانور ہے۔ پرندوں کے لیے سمندر کی کوئی اہمیت نہیں کہ انہیں پرواز کے لیے صرف فضا چاہیے۔ انہیں اس بات سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ سمندر کے جھینگے اور کیکڑے جوہڑوں کے مینڈکوں سے زیادہ خوشحال اور آزاد کیوں ہیں۔ صحرا کے تلور اور تیتر اس امتیاز سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ شاہین پہاڑوں کی چٹانوں میں کیوں بسیرا کرتا ہے۔ ہر شے اپنی اپنی جگہ پر اہم ہے۔ عورت کا وجود اپنے حسن و کردار کے اعتبار سے اہم ترین ہے۔ اسے گاہے گاہے اس شعر پر غور کرتے رہنا چاہیے۔
” یہی ہے مفہوم لیس للانسان الا ما سعی” کا
نہ ہو تیشہ عمل ساتھ، تو توکل بھی ہے افیون
وہ کہتا ہے نکاح (عورت مرد کی شادی) محض چند کنبوں کی اجتماعی تقریب کا انعقاد نہیں یا صرف سماجی رسم نہیں۔ یہ دو خاندانوں کے درمیان فطری ضرورتوں کا معاہدہ ہوتا ہے جو مسلمہ قوائد و ضوابط کے تحت طے پاتا ہے۔ دونوں فریقین بصد خوشی اور احترام اس معاہدے کی پابندی کرتے ہیں۔ میاں بیوی تبھی خود کفالت اور خوشحالی حاصل کرتے ہیں اگر وہ معاہدے میں درج ایک ایک لفظ کو واقعتاً مقدس اور محترم جان کر ان کی پابندی کریں تو۔ دونوں میں سے ایک فریق بھی اگر تھوڑا سا بھی ہٹے گا تو ازدواجی زندگی ہی بدحالی اور پریشانیوں کا شکار نہیں ہوگی بلکہ پورا معاشرہ ہل جائے گا اور ہر طرف سماجی اذیتیں سر اٹھانے لگے جاتی ہیں۔ وہ کہتا ہے ازدواجی زندگی میں صنفی امتیاز کے اعتبار سے خوب سے خوب تر کی تلاش کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ آج کی خوبصورت عورت اور مرد کو شادی کرنے کے بعد،سیر و تفریح کرتے اگر کوئی اور اچھی شکل و صورت یا وجیع شخصیت پسند آجائے تو کیا وہ شادی کاپہلا بندھن توڑ کر نیا بندھن باندھ لیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ وہ ان کے لیے حلال و جائز نہ ہونے کے علاوہ مستقبل میں پچھتاووں کاموجب بن سکتا ہے۔
تیری سزا ہے نوائے سحر سے نا آشنائی
مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی
شادی شدہ عورت ہو کہ مرد دونوں فریقین کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنا چائیے کہ انہوں نے اپنے اللہ کو گواہ بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ اس عہد کی پاسداری لازم ہے۔ نافرمانی کی صورت میں اللہ علیم و خبیر کو ناراض کرنے کے مترادف ہوگا۔۔ ازدواجی زندگی کو کامیاب کرنے کے لیے کوئی بڑا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف اپنے دل و دماغ کو یکسو کر کے اس حقیقی احساس پر قائل کرنا ہوتا ہے کہ یہ سب میرے اللہ کی رضا ہے۔ ” کیوں کہ اللہ نے کسی بھی شخص کو دو دل نہیں دے رکھے کہ وہ اپنی نوخیز محبتوں کو بھی پروان چڑھائے اورازدواجی زندگی کو بھی پُر سکون بنا لے۔ دونوں محبتوں کا جنم مختلف، پس منظر مختلف اور مقصد مختلف ہوتا ہے۔ راضی برضا کے بارے اس نے بڑی سادہ اور دل نشین بات بتائی۔ اس نے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار پر ابلیس نے عرض کیا کہ اے اللہ پاک۔۔ آدم سے مجھے کوئی بیر ہے نہ ہی مجھے اس سے کوئی خوف۔ یہ تو خود اتنا بے بس ہے کہ کسی پل مطمئن اور سکون سے نہی جئے گا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آدم کو سجدہ کرنا تو نے میری تقدیر میں ہی نہیں لکھا تھا۔ ورنہ مجھے جرأت انکار نصیب نہ ہوتی اور میں بھی آدم کو سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جاتا۔
اس نے ہمیں مزید بتایا کہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو صرف ایک لیموں دے تو خوشی سے قبول کر لو۔ اسے بیکار کہہ کر پھینکنے کی بجائے اس کی اسکنجبینبنا کر پئیں اور لمبی ڈکار لیں۔شکوہ شکایت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس نے کہا کسی کی بات سن کر اس کا جواب دینے کی بجائے اس پر غور کرنا زیادہ فائدہ مند رویہ ہوتا ہے۔ اچھی گفتگو تو سنی ہی اس لیے جاتی ہے کہ علم و عمل میں اضافہ کریں اور بہتر طرزِ زندگی اختیار کریں۔ شادی کے بعد جوڑے کو مسحور کرنے والے خوابوں اور سریلے نغموں کو دفن کرنا پڑتا ہے جن کے سرور میں آنکھیں موندے وہ سپنوں میں نغمے گنگناتے تھے، کہ تیرے چھونے سے میرا انگ انگ مسرور ہو جاتا ہے ۔۔تیرے دیکھنے سے زندگی بڑی حسین لگتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ بس وقت اب یہیں رک جائے وغیرہ وغیرہ۔
عشق مجازی یعنی عورت و مرد کی باہمی رغبت ایک زنجیر کی طرح انہیں باندھ کر ان کی خود روی چھین کر متبادل فراہم کرتی ہے۔ جب کہ میاں بیوی کی باہمی محبت انہیں آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے کی لذت فراہم کرتی ہے۔۔ کون شخص ہے جو آزادی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار کرے گا۔ آزادی اور محبت میں سے اگر کسی ایک کا انتخاب کرنے والے حالات پیدا ہو جائیں جو صرف اور صرف آزادی کو قبول کیا جائے گا۔ اس لیے کہ آزادی میں محبت پنپ سکتی ہے محبت میں ضروری نہیں کہ آزادی بھی شامل ہو۔ آپ نے مجبوری اور جبر کی شادیوں کا حشر دیکھا ہوگا کہ جوڑا کس طرح بے لذت زندگی گزارتا ہے۔ بعض محبتیں تو ہوتی ہیں پابندیوں کا حصار ہیں جہاں محب کا گلا بھرایا بھرایا اور بند ہوتا ہوا لگتا ہے۔ زندگی میں مسئلے ہمیشہ صحت مند فکر اور محبت رکھنے والے ذہنوں کو پیش آتے ہیں اور جن کا حل بھی کبھی نہیں ملتا۔ عقل رکھنے والوں کو اذیتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ خوابوں تمناؤں کی دنیا اور حقیقت کی دنیا میں فرق تو ہوتا ہے۔ اس سچ کو اپنے قلب و نگاہ میں محفوظ رکھ کر گھریلو زندگی پر آسائش بنائی جا سکتی ہے۔ شادی شدہ عورت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے کہ اس کے وجود کو حسن کائنات کا مرکزی عنصر اور کردار تسلیم کیا گیا ہے۔ چھوٹے سے گھر میں جہاں پھول سے بچوں کی معصوم شرارتیں بھی ہوں وہ گھر تب تک سونا سونا لگتا ہے جب تک وہاں کھانے کی میز کے پاس نسوانی کلائیوں میں کھنکتی چوڑیوں کی مدھر چھنکار سریلی آواز شامل نہ ہو۔ ازدواجی زندگی میں کم بھی کئی لمحے اور مواقعے آ جاتے ہیں جب اختلاف رائے پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل بھی اکٹھے بیٹھ کر تحمل اور دلیل سے بات کرنے میں ہوتا ہے۔ کسی بھی دل میں بیٹھی ہوئی بات کو تب تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس سے بہتر Option نعم البدل پیش نہ کیا جائے۔ خاوند کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا بالکل فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا، اسے پیار کی ڈوری میں پرو کر رکھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ عورت کو مارا پیٹا اور گھسیٹا جا سکتا ہے، اسے جھنجھوڑ، بھنبھوڑ، اس کا خون نچوڑا جا سکتا ہے، اسے توڑا پھوڑا جا سکتا مگر اس کے دل پر نقش بات(محبت، عقیدہ اور نظریہ) ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک بہتر نظریہ، آئیڈیا پیش نہ کیا جائے یا آئیڈیل انسان بن کر پیش نہ آیا جائے۔ اس مرحلے پر خاوند کو سب سے پہلے اپنے رویے کو ہر طرح کے تعصب سے پاک کرنا ضروری ہے۔ اگر خاوند اپنی ناپسندیدہ عادات پر قائم رہ کر صرف بیوی کو سدھارنے کی کوششیں کرتا رہے تو وہ ہرگز اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔
انسانی نفسیات کے ماہر لکھتے ہیں کہ ہاتھ سے سرکی ہوئی محبت یا رسائی سے باہر کی محبت (پہلی محبت) عورت کبھی نہیں بھلاتی بھلے وہ محبت و پیار کے کتنے ہی خوشگوار ماحول میں خنداں و فرحاں زندگی گزار رہی ہو۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے حالات اور ماحول سے خوش نہیں ہوتی۔ یہ تو انسانی نفسیات کا اہم پہلو ہے کہ وہ یادوں کے سرور میں زیادہ لذت پاتا ہے۔اور خوابوں کے تصورات میں زیادہ مسرور و متحرک رہتا ہے۔ مثلاً چاند رات کی یادوں اور سرگرمیوں کی تیاری میں عورتیں ایک عجیب ذہنی تسکین محسوس کرتی ہیں۔ غیر شادی شدہ لڑکیاں کالج یونیورسٹی کے دنوں کو یادوں کو ہمجولیوں کے ساتھ تازہ کر کے بہت خوش ہوتی ہیں۔ اور روشن مستقبل کے خواب دل میں بسا کر انہیں بڑے اہتمام سے روزانہ جھاڑ پونچھ کر دل کے کارنس پر سجاتی رہتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنی بہنوں، بہو اور بیٹیوں کو یہ نقطہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ شادی سے پہلے کے ماحول اور ذاتی ضروریات کی دستیابی میں اپنی دشواریوں کو نہ بھولیں۔ اپنی حیثیت کو خوب پہچانیں، اپنی خود داری اور عزت نفس کو محفوظ و مضبوط بنا کر پہاڑ کی طرح جئیں۔ اپنے والدین کی ھدایات پر عمل کریں۔ بے شک کچھ تکلیفوں کا سامنا کیوں نہ ہو۔ انہیں ناراض نہ کریں۔ شادی کے بعد عورت اگر خود شناسی اور خود نگری سے محروم ہو جائے تو وہ بیچاری خود اعتمادی بھی کھو دیتی ہے۔ آپ پوچھ سکتی ہیں کہ عورت کی خود اعتمادی کیا ہوتی ہے۔ عورت کا اپنا کام جاننا اپنے فرائض و حقوق کی خبر رکھنا اور انہیں نفاست سے ادا کرنے کا یقین ہونا ہی خود اعتمادی کہلاتا ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ اپنے خاوند کی ضروریات کو ترجیحاً پورا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب بیوی کو اس کا خاوند آواز دے یعنی اپنے پاس بلوائے تو بیوی کو اس کی بات سننے کے لیے فورا جانا چاہیے بے شک وہ تنور پر روٹی کیوں نہ پکا رہی ھو۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ شادی شدہ جوڑے کو اپنی نئی زندگی کے سفر میں آغاز ہی سے سنہری اصول پر کاربند رہ کر چلنا ہوتا ہے۔ اور وہ اصول ہے۔ ” احتیاط علاج سے بہتر فارمولا ہے”۔ورنہ پچھتاوئوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جن سے الزامات کے مچھر مکھیاں اور کھٹمل (مطلب سوسائٹی کے شریر اور بد طینت لوگ) اندر آ کر اہل خانہ کا چین خراب اور نیند حرام کر دیتے ہیں۔ انہیں بات کرتے وقت یا کسی بات کے رد عمل پر کچھ کہنے سے پہلے بڑے غور و خوض سے کام لینا ہوتا ہے۔۔ ایک لمحے۔کی غلطی عمر کھا جاتی ہے۔ ۔ عورت کے لیے تو یہ تک ھدایت ہے کہ وہ اجنبی مرد کو کبھی نرم و ملائم لہجے میں اس کے سوال کا جواب نہ دے، تا کہ وہ کسی کمینگی کا خیال دل میں نہ لائے۔ آپ اندازہ کریں کہ اللہ کریم کو نسوانیت کتنی پیاری ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے کتنا اعلیٰ اہتمام کرنے والا ہے جس عورت نے اپنی نسوانی حیاء کو پہچان لیا اور نسوانیت کی حفاظت کر لی وہی خوبصورت بھی ہے اور دین و دنیا کو پیاری بھی۔
جو عورت اپنے سسرال میں اپنے میکے کی تعریفوں میں لگی رہے گی وہ سسرال میں آہستہ آہستہ محبت سے محروم ہوتی چلی جائے گی اور پھر تنہا ہو کر پچھتائے گی۔ ایسی عورت کے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شکوے شکایات رہ جاتے ہیں۔ اس لیے شادی شدہ عورت کو سسرال کی اچھائیاں تو میکے جا کر بیان کر لینا چاہیے، مگر میکے کے اچھی یادیں صرف اپنے دل ہی میں محفوظ رکھنا چاہیں۔ یادوں کے بارے وہ کہتا ہے کہ یادیں بڑی بے رحم ہوتی ہیں۔ کچھ یادیں ہمیں سرور بھری زندگی دیتی ہیں تو کچھ یادیں ہمیں زندہ درگور کر دیتی ہیں۔ اتفاق سے دونوں ہی بے قابو مگر اچھی لگتی ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی وقت بے وقت آدبوچتی ہیں۔ کچھ یونٹوں کو خاموش تبسم کے مہکتے گلاب، تو کچھ آنکھوں میں بہتے آنسوؤں کی سوغات پیش کرتی ہیں۔ماؤں کا قرآن پڑھنا اور اس میں درج ھدایات کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ انہیں صبح بیدار ہونے کے ساتھ معاشرتی سچائیوں (گھریلو مصروفیات) کا سامنا۔کرنا ہوتا ہے۔ وہ اللہ الرحمٰن کا شکر کرنے اور دعاؤں سے دن کا آغاز کرتی ہیں۔ جو رزق ملا اس کا شکر کرتی ہیں۔ رزق میں ہر چیز شامل ہے صرف خورد ونوش کی اشیاء رزق نہیں ہوتا۔
وہ جو ابھی خوابوں اور امیدوں میں زندہ ہے اس کے پانے کی کوشش اور دعا کرتی ہیں۔ فرمان رسول اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے میاں اور بچوں کی موثر نگہداشت میں مصروف ہو کر دن گزارتی ہیں۔۔ بچوں کو اچھے اچھے خواب دکھاتی، اور ان کی تعبیر پانے کے لیے محنت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے زندگی کے سفر پر روانہ کرتی ہیں۔ میاں کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مدد کرتی اور چین پاتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی مل کر مستقبل کے خوابوں کے خاکے بنتے ہیں۔ وہ افسانوی مقدر ستاروں پر یقین نہیں کرتی ہیں کہ وہ چمکیں گے تو خوشیاں نصیب ہونگی۔ اس کے بر عکس وہ یقین رکھتی ہیں کہ وہ اپنی بساط پھر محنت کریں گی تو اللہ کریم ان کی قسمت کو چار چاند لگا دے گا۔
اللہ سے فضل وکرم کی امید رکھنے والوں اور اللہ سے ڈرنے والوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی سچائیوں کو دریافت کر لینے کے بعد کسی اور فلسفہ پر نہ تو ایمان لاتے ہیں نہ جھوٹ کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ جھوٹوں کے ہمنوا بنتے ہیں۔ بے شک انہیں کتنی ہی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔ عورت کے دل سے اپنی اہمیت اور محبت کے احساس کا ایک دفعہ زبان سے اظہار ہو جائے تو پھر انہیں کوئی اور نظروں میں جچتا ہی نہیں۔ جیسے پھیکی چائے پینے کے عادی افراد کو میٹھی چائے مزہ ہی نہیں دیتی۔