شہیدبرہان وانی ؒکا عہد

ابن قاضی کشمیری

بخدا غریق رحمت کرے امان اللہ خان کو جو غالباََ سارے یوٹرن کا حساب رکھتے ہوئے پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کو اسلام آباد کا بارہواں یوٹرن کہتے تھے ۔بہت سے لوگ آج بھی مصر ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولہ مسئلہ کشمیر کا بہترین حل تھا ۔اگر یہ بات درست ہے تو پھر نوازشریف کا فارمولہ بھی پس قدمی قرار نہیں پاتا کیونکہ پرویز مشرف نے اپنے کام کا آغاز وہیں سے کیا تھا جہاں نوازشریف کی برطرفی کے باعث دھاگہ ٹوٹ گیا تھا ۔بارہویں یوٹرن کا کم ازکم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کو یک دم خود انحصاری کی راہوں پر گامزن ہونے کا خیال آگیا۔وہ اس حقیقت کوجان گئے کہ پاکستان قانون بین الاقوام کی پابند ایک ریاست ہے اور اس وقت کا رائج بین الاقوامی قانون طاقت اور تجارت ہے ۔پاکستان اس کھیل میں کمزور وکٹ پر ہے اور ضعیفوں اور کمزوروں کی راہوں میں مصلحتوں کے سپیڈ بریکر اور مفاہمتوں کے یوٹرن قدم قدم پر آتے ہیں اور کمزور ان سے صرف نظر کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے ۔یہ وہی دن تھے جب کشمیر کا سب سے شعلہ بار لیڈر سید علی گیلانی تھا جس کی ایک کال پر وادی کے لوگ سر ہتھیلیوں پر لئے نکل پڑتے تھے ۔

جولائی 2005 کی ایک شام جب ہم ان سے ملے توسری نگر کے حیدر پور ہ علاقے میں مقبول لیڈر بہت ناراض تھے شاید پرویز مشرف کے ساتھ تلخ اور تو تکار پر ختم ہونے والی ملاقات کی کڑواہٹ کا ذائقہ اب بھی ان کو محسوس ہورہا تھامگر وہ اس کا ذکر نہیں کرتے تھے ۔وہی ملاقات جس میں پرویز مشرف نے گیلانی کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ تم میرا راستہ نہیں روک سکتے میرے ساتھ بش اور بلیئر ہیں ۔نحیف اور بیمار مگر چاق وچوبند کشمیری لیڈر نے کہا تھا یاد رکھو میرے ساتھ اللہ ہے۔پرویز مشرف کے بش اور بلئر نہ جانے آج کہاں ہیں مگر بوڑھے نحیف اور وقت گزیدہ کشمیری لیڈر کا اللہ اس دن کی طرح آج بھی زمیں وزماں کا مالک ہے ۔ان تلخیوں اور شکر رنجیوں سے خودانحصاری کے جس احساس کی کونپل پھوٹی تھی برہان وانی اس کا پہلا گلاب تھا ۔وہی برہان جو ایک سال قبل جولائی کے مہینے میںکشمیر کے گھنے جنگلوں میں اپنے دوساتھیوں سمیت ایک تصادم میں کام آیا۔ سید علی گیلانی ،میرواعظ عمر فاروق اور سیدصلاح الدین کے تبصروں کو چھوڑئیے عمر عبداللہ کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ ’’بے چین لوگوں کو نیا بت شکن مل گیا‘‘ گویا کہ ایک زمانے کو آنے والی نسلوں کو ایک آئیڈیلائز اور رومنٹسائز کرنے کو ایک نیا ہیرو مل گیا۔اسلام آباد کے بار بار یوٹرن لینے کی عادت سے تنگ جس نسل نے جب خود انحصاری کا خواب دیکھا تو برہان کی صورت میں ایک ’’میڈان کشمیر ‘‘ ہیرو تراشنے کا فیصلہ کیا ۔برہان جنوبی کشمیر کے علاقے ترال کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے کا چشم وچراغ تھا اس کے والد ریاضی کے ماہر مضمون اور والدہ ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں۔2010 کشمیر میں ہنگامہ خیزی سے بھرپور تھا اسی سال کشمیریوں نے ہماری منڈی راولپنڈی کا نعرہ لگایا اور ایک بے مثال تحریک چلائی جس میں شیخ عزیز جیسے بے لوث راہنما شہید ہوئے ۔انہی حالات سے متاثر ہو کربرہان پندرہ سال کی عمر میں گھر سے دور چلا گیا ۔حیرت انگیز طور پر برہان نے کنٹرول لائن کی طرف مظفر آباد کا رخ نہیں کیا ۔وہ قریب ہی کشمیر کے باغوں میں جاچھپا ۔وہیں ٹین ایجرز کا ایک گروپ بنایا ،پولیس سے اسلحہ چھین کر فوج کے خلاف استعمال کرنے لگا ۔اس نے اپنا ٹوٹیٹر پیج بنا کر اپنا پیغام عام کرنا شروع کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ٹویٹر پر اس کی فالور شپ بڑھتی چلی گئی ۔کشمیر ہی نہیں بھارت میں نوجوان اسے فالو کرنے لگے ۔ اس کی ایک تصویر پربھارت کی ایک ہندو لڑکی کا یہ تبصرہ دلچسپی سے پڑھا گیا تھا کہ ’’کاش اس خوبرو نوجوان سے میری شادی ہوجاتی‘‘ ۔برہان وادی کا ایک غیر معمولی کردا رکیسے بنتا چلا گیا اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ایک دور ایسا آیا کہ جب کشمیر کے لوگ عسکریت اور عسکریوں سے تنگ آچکے تھے۔وادی کے لوگ آزادی کو اپنا مسئلہ اور عسکریت کو غیر کشمیری مسلح نوجوانوں کامسئلہ سمجھ رہے تھے ۔ بدلتے عالمی اور علاقائی حالات میںعسکریت اپنی کشش کھو کر دم توڑ رہی تھی۔ایسے میں پندرہ سالہ کلین شیو خوبصورت لڑکا کمانڈو وردی پہنے جدید ہتھیار اُٹھائے تصویروں میں سامنے آنے لگا ۔جس کے ایک ہاتھ کی انگلی ٹرائیگر پر تھی اور دوسرے ہاتھ کی انگلی ’’کی بورڈ ‘‘ پر تھی ۔بندوق بھارتی فوجیوں کے لئے اور کی بورڈ ٹویٹر کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے لئے تھا۔وادی میں نوجوانوں کی آبادی تیس فیصد ہے او ر ان کی اکثریت سوشل میڈیا کی اسیر ہے ۔برہان جب ان نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کا پیغام دیتا تو کشمیری لڑکے بے ساختہ اس کا نقش کف پا تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے ۔وہ اپنے اصل نام کے ساتھ سرگرم تھا ۔یہ روایت کشمیر کی عسکریت میں اب ماند پڑ چکی تھی ۔سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے لوگ اب کوڈ نام سے سرگرم ہوتے تھے ۔برہان نے اس روایت کو جھٹک کر ایک نئی طرح ڈال دی ۔دھیرے دھیرے برہان وانی کی شکل میں خالص ’’میڈان کشمیر ہیروکا سراپا اُبھرتا اور نقش بنتا چلا گیا ۔اس کی تصویروں اور پیغام سے وادی کے نوجوانوں کا جذبہ بڑھتا چلا گیا ۔ متوسط گھرانوں کے تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے غیر مقبول ہوتی ہوئی عسکری تحریک کا حصہ بننے لگے ۔ڈگریاں تھامے نوجوانوں کا بندوق اُٹھانا بھارتیوں کے لئے نیا درد سر بن کر رہا گیااو ریوں عسکریت اس نئے اور سافٹ امیج کے ساتھ دوبارہ وادی میں مقبول ہونے لگی بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں برہان وانی کو قتل کر نے کے بارے میں رائے منقسم ہو نے لگی ایک موثر گروہ یہ کہنے لگا کہ اس نئے ’’میڈ ان کشمیر ‘‘ ہیرو کی ہلاکت سے کشمیری میں بغاوت کا نیا اُبال آئے گا اور آنے والی نسلوں کو ایک تازہ دم ہیرو مل جائے گا۔یہا ں تک کہ اکیس سالہ تعلیم یافتہ نوجوان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے ’’موسٹ وانٹیٹڈ ‘‘ بن گیا اور اس کے سر کی قیمت دس لاکھ مقرر ہوئی ۔ نوجوان بھارتی فوج نے اسے سونا مرگ کے جنگلوں میں گرفتار کرنے کی جب بھی کوشش کی تو اس کے ٹویٹر مداحوں نے برہان کو اطلاع دے کر بچ نکلنے کا موقع فراہم کیا۔گزشتہ برس بھارتی فوج نے برہان کے بڑے بھائی خالد کو جعلی مقابلے میں شہید کیا مگر برہان ان کے چھلاوہ ہی رہا ۔

برہان کی ایک ماڈرن ہیرو،ماڈرن جہادی اور پوسٹر بوائے اور رابن ہڈ جیسی’’ امیج بلڈنگ ‘‘ کرنے والوں کو معلوم تھا کہ بھارتی فوج کی ایک سنسناتی گولی اس مجسمے کا مادی وجود کرچی کرچی کر سکتی ہے اس کے باوجود وہ اور برہان خود یہ چاہتا تھا کہ اس کا معنوی وجود زندہ رہے ۔ گیتوں اور لوک کہانیوں میں ، جینز اور ٹی شرٹ والے کشمیری نوجوان اس ’’پوسٹر بوائے‘‘کہلانے والے جہادی سے کہ جس پر بھارتی دوشیزائیں بھی’’ لٹو‘‘ ہونے لگی تھیں ، مدتوں تک تگ تاز وحاصل کرتے رہیں ۔برہان کے بعد وادی ایک بار پھر مچھلی کی طرح بھارت کے ہاتھوں سے تڑپ تڑپ کر پھلسنے لگی ہے اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کا خدشہ سچ ثابت ہوگیا جس کا اعتراف عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر یوں کیا کہ بے چین لوگوں کو نیا آئیکون ( مجسمہ) مل گیا ہے۔ایک سال ہوگیا مگر برہان وانی کے لہو سے منور ہونے والے چراغ کی لو کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ایک سو سے زیادہ نوجوان پروانوں کی مانند اس شمع سے لپٹنے کی خواہش میں جانیں قربان کر چکے ہیں ۔ہزاروں ٹین ایجر جیلوں میں مقید ہیں اور سیکڑوں افراد آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں ۔ہسپتال ان زخمیوں سے آج بھی بھرے پڑے ہیں۔کشمیر میں عسکریت ایک بار مقبول رجحان کی شکل اختیا رکرچکی ہے۔آئے روزبھارتی فوج اور مجاہدین میں تصادم ہو رہے ہیں ۔بھارت کشمیر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکا ہے ۔بھارتی وفود اس بغاوت اور بے چینی کا کھلے بندوں اعتراف کررہے ہیں۔ایک انقلاب ہے جس کا عنوان برہان ہے اور سال بھر سے جاری یہ برہان شہید کا عہد ہے۔

٭٭٭