بشارت علی بارو
جہاں سے اہل جنت کے کبھی تھے قافلے گزرے
ہمیں پھر سے عزیمت کی انہی راہوں پہ چلنا ہے
مثل مشہور ہے کہ بستی کے جلانے کو وہ ایک چنگاری ہی کافی ہوتی ہے جو راکھ کے نیچے بظاہر تو کسی کو نظر نہیں آتی مگر حقیقت میں جل رہی ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں اگر بات اُمت مسلمہ کی تاریخ کے حوالے سے کی جائے تو تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ملت اسلامیہ کا وجود جب اندوہناک کی صورتحال کے زیر سایہ انتہائی کٹھن مراحل میں تھا تو ایسے میں اچانک دم توڑتی دکھائی دینے والی کچھ تو قربان کر گیا، سوئی ہوئی قوم مسلم کو جگا گیا۔ طرابلس کے میدان جنگ میں مجاہدین اور غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ بنت عبداللہ بھی ایک ایسا ہی کردار تھا، جو خود تو مٹ گیا، مگر پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں جہاد جگا گیا، جینے کی اُمنگ دے گیا۔ علامہ اقبالؒ نے اس صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ؎
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں کے منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارت، اپنی خاکستر میں تھی

ہر دور کے باطل نے بارہا یہ سوچ کر جشن منانے کی تیاریاں کیں کہ اب اس اُمت مسلمہ کے اندر سے ایسا کوئی نہیں اُٹھے گا جو اس کی سوئی ہوئی غیرت اور حمیت کو بیدار کردے، مگر اس کے سارے جشن ہمیشہ ادھورے ہی رہ جاتے ہیں، جب اچانک اس بجھتی ہوئی راکھ میں سے کوئی چنگاری بھڑکتی ہے اور شعلہ بن کر دشمنوں کے سارے منصوبوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ اسی حقیقت کو اہل کشمیر نے ایک بار بھر سے دنیا کے سامنے آشکار کر دیا ہے اور برہان مظفر وانی اس حقیقت میں اپنے خون سے رنگ بھر کر ساری وادی کو جگا گیا ہے۔
کشمیر کی تحریک آزادی ایک طویل اور صبر آزما تاریخ کا نام ہے، جو کبھی نعروں تک محدود رہی ہے، تو کبھی پُرامن جلسے جلوسوں کی صورت اختیار کرتی ہے، تو کبھی ہاتھوں، پتھروں اور تکبیر کے نعروں سے آگے بڑھتی ہے، مگر فطرت انسانی ہے کہ ظالم اگر اپنے ظلم سے تا دیر باز نہ آئے تو مظلوم غلامی کی زندگی سے تنگ آکر ایک نہ ایک دن ہاتھوں میں ہتھیار تھام کر موت کو ایسی زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۹۸۹ء کے دوران کشمیریوں نے تمام حربے آزمانے کے بعد جب یہ جان لیا کہ بھارت اُن کی کسی بھی قسم کی پرُامن جدوجہد کو کوئی اہمیت نہیں دینے والا تو ان کے پاس مسلح جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ پھر سعادتوں اور شہادتوں کا ایک ایسا سفر شروع ہوا کہ جس کی دہشت سے گھبرا کر بھارت نے ریاستی فوجی دہشت گردی کی بدترین مثال کے ذریعے اس طوفان کو روکنے کی کوشش کی، مگر وہ جتنا اسے دباتا گیا، یہ تحریک اتنا ہی اُبھرتی گئی اور اب تک اسی عزم اور جوش و جذبے سے یہ تحریک جاری ہے کہ جیسے یہ اپنے ابتدائی دنوں میں تھی۔ لائن آف کنٹرول پہ باڑ اور جدید آلات کی تنصیب، سرحد پر فوج کی کڑی نگرانی، ہر موڑ پر فوجی بنکروں اورمورچوں کی تعداد میں اضافہ، نوجوانوں کو لالچ یا تشدد کے حربوں کے ذریعے سے راہ حریت سے بھٹکانے کی چالیں، عقوبت خانوں میں تشدد کی بدترین مثالیں قائم کرنے، لوگوں کو غائب کر دینے، چادر و عصمت پر نگاہِ بد رکھنے، غرض یہ کہ ہر انسانی اور غیر اخلاقی رویہ اپنا لینے کے بعد بھارت یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب حالات اس کے اختیار میں آرہے ہیں، اس کی فوجی جارحیت کام آگئی ہے، اب مسلح تحریک دم توڑ رہی ہے، مگر اس کی یہ خام خیالی اس کے خیالی پلائو پکانے تک ہی محدود رہی، نا سمجھ بھول بیٹھا تھا کہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ طاقت ہی کو سب کچھ سمجھ لینے والوں سے بڑا بیوقوف بھلا کون ہوگا۔ بھارت یہ بھول بیٹھا تھا کہ اس کے اپنی پرتشدد رویوں نے چھ سال قبل ایک عام سے کشمیری نوجوان کو کمانڈر برہان مظفر وانی بنا دیا تھا، کہ جسے اب بھارت کے لیے نہ نگلنا آسان تھا اور نہ ہی اُگلنا۔ برہان مظفر وانی کہ جس نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تحریک آزادیٔ کشمیر کو ایک نیا رُخ دے دیا۔ ترال کے ایک حریت پسند گھرانے کا یہ مرد مجاہد چھ سال تک بھارتی فوجیوں پر بجلی بن کر ٹوٹتا رہا اور اس کی کمان میں لڑنے والے سرفروشوں نے یکدم سے تحریک آزادیٔ کشمیر میںایک نئی جان ڈال دی۔ بوکھلاہٹ کا شکار غاصب بھارتی درندوں نے انتقاماً برہان مظفر وانی کے بھائی کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کر دیا اور برہان پر جلد قابو پانے کے لئے اس کے سر کی قیمت ۱۰ لاکھ مقرر کر دی۔ مگر ان تمام کٹھن مراحل سے وہ گزرتا ہی چلا گیا۔ نوجوانوں کو دعوت جہاد اور فکر حریت دیتا ہی رہا، اپنی بساط بھر کوشش سے بھارت کو للکارتا ہی گیا اور پھر 9جولائی کو اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ دین اسلام کی سربلندی اور آزادیٔ کشمیر کے خواب کو سارے جموں و کشمیر کے بچے بچے کے دلوں میں اُتار کر ہمیشہ کے لئے کامیاب و سرخرو ہوگیا۔ بھارت سمجھتا تھا کہ برہان مظفر وانی کی شہادت سے اس کا سارا دردِ سر ختم ہو جائے گا، مگر عقل کے وہ اندھے جو تحریک آزادی کے 27 برسوں میں کچھ نہیں سیکھ سکے، وہ اب بھلا کیا سبق حاصل کرتے۔ مگر آج وادی کے طول و عرض میں لگی ہوئی آگ ساری دنیا کے باضمیر انسانوں کیلئے ایک تازیانہ ہے۔ برہان کی نماز جنازہ میں مسلح مجاہدین کی موجودگی اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں اپنے کمانڈر کو خراج تحسین پیش کرنا، بھارت کیلئے ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس سے سبق حاصل کرنا اسی کے حق میں ہے۔ برہان کی شہات کے بعد ساری وادی بالکل وہی منظر پیش کر رہی ہے کہ جیسا کہ تحریک ابتدائی دنوں میں تھی۔ سارا کشمیر آزادی کے نعروں سے گونجتا تھا، بھارتی حکومت نے موبائل، انٹرنیٹ اور رابطے کے دوسرے تمام ذرائع بند کرکے اور ساڑے سات لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے بھی مزید ۳۰ ہزار فوجی دستے وادی میں لاکر حتیٰ الامکان پوری قوت اور سارا زور لگا کر کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو کچلنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے، مگر برہان کی شہادت کے دن سے لیکر آج تک یہ تحریک ظلم و ستم کے ان تمام حربوں کے باوجود مسلسل تیزی سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

9؍ جولائی 2016ء سے اب تک سینکڑوں کشمیری خاک و خون میں نہلائے جاچکے ہیں اور سینکڑوں سے زائد افراد بینائی سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیئے گئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہسپتالوں میں بھی بھارت کی فوجی جارحیت سے محفوظ نہیں ہیں۔ سڑکوں، گلی کوچوں میں بھارت سے نفرت کا اظہار کرتے کشمیری نوجوانوں، بچوں، بزرگوں اور خواتین پ مہلک ہتھیاروں سے آگ برسائی جا رہی ہے، مگر یہ بات عقل اور سوچ سے محروم بھارتی حکمرانوں کو اب بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ طوفان اگر پہلے اتنے طویل عرصے میں نہیں تھما تو آج کیسے تھم سکتا ہے۔ مقبوضہ وادی کے آج کے حالات میں ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ اور بھی شدت سے متقاضی ہے کہ اگر ہم آج بھی اس جدوجہد آزادی میں ان کے شانہ بشانہ نہ اُٹھ کھڑے ہوئے تو شاید اس کا کفارہ پھر کسی صورت ممکن ہی نہ ہوگا۔ وہ اپنا سب کچھ دائو پر لگا چکے ہیں، اس آس پر کہ ہماری پشت پناہی کے لئے، درد دل رکھنے والے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہماری پکار پر لبیک کہنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اہل پاکستان خوابِ غفلت سے جاگو! کہیں وہ پاکستان، پاکستان کہتے تھک ہی نہ جائیں۔
٭٭٭