صریر خالد
حزب المجاہدین کے ساتھ ساتھ خود تحریکِ کشمیر کی پہچان بن چکے کمانڈر بُرہان وانی کے گزشتہ سال مارے جانے پر ایک تحریر کا اختتام راقم نے کچھ اس طرح کیا تھا’’ برسوں تک نہ جانے کہاں غائب ر ہ کر لاکھوں فوج کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے بُرہان وانی سے کہیں زیادہ آج اپنی قبر کا واضح پتہ رکھنے والے اور اب کے بعد کبھی فرار نہ ہو پانے والے بُرہان وانی نئی دلی کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔
انڈین ایکسپریس نے انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزارت نے سرکاری فورسز اور دیگر متعلقہ محکموں کے لئے ہدایت جاری کردی ہے کہ وہ تحریری رابطے کے دوران بُرہان وانی کا نام نہ لکھیںبلکہ اُن(بُرہان)کے تذکرہ کی ضرورت پڑنے پر ’’ 8جولائی کو مارے گئے تین جنگجو ‘‘ لکھا کریں۔ ایسا کرکے بھارت بُرہان وانی اوراُنکے’’ مقصد ‘‘کی شہرت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم غور کیا جائے تو اس طرح کے فرمان کی اجرائیگی خود اپنے آپ میں اس بات کی گواہی ہے کہ بُرہان وانی قبر میں سوئے ہونے کے باوجود بھی بھارت کے زندہ حکمرانوں کی نیند اُڑائے ہوئے ہیں۔

حالانکہ بُرہان وانی جنگجو بننے کے بعد اتنا ہی جئے کہ جتنا کسی بھی گوریلا شخص کی زیادہ سے زیادہ عمر کا تخمینہ ماہرین نے لگایا ہوا ہے۔ خود بھارتی فوج اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ کشمیر میں کسی بھی گوریلا شخص کی قسمت اچھی ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ چھ سال تک کی مہلت پاسکتا ہے،بُرہان وانی کو بھی اتنی ہی مہلت ملی کہ 2010میں بندوق اُٹھانے کے بعد 2016میں اُنہیں ایک پُراسرار اور مختصر ’’جھڑپ‘‘میں مار گرایا گیا۔وہ البتہ چھ سال کے اس مختصر عرصہ میں بھارت اور اسکی ایجنسیوں کو اس حد تک تنگ کرچکے تھے کہ جسکا اعتراف خود بھارت کے بڑے بڑے کرچکے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس قدر ’’بڑی پریشانی‘‘ کو ختم کرکے بھارت سکون محسوس کرتا لیکن بُرہان کو قبر میں سلادینے میں کامیابی پانے کے باوجود بھی پتہ چلا کہ بھارت کے ہاتھ جیسے کچھ بھی نہیں لگا ہے کیونکہ باغی کے بطور اپنی مختصر زندگی میں بُرہان وہ سب کرچکے تھے کہ جسے مٹانے کیلئے کسی بھی طاقت کو کئی کئی جنم لینے کی ضرورت درپیش رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بُرہان وانی مارے گئے تو دوسری طرف خودبھارت کے کئی صحافی اور دانشور وضاحت کے ساتھ یہ سوال بھی پوچھنے لگے تھے کہ کہیں زندہ بُرہان شہید بُرہان سے کم خطرناک تو نہیں تھے اور کہیں اُنہیں مار گراکر بارود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے جیسی غلطی تو نہیں ہوئی ہے؟۔
بُرہان وانی جموں کشمیر کے پہلے جنگجو تھے اور نہ جرأت و شجاعت میں لاثانی بلکہ تیس سال کی تحریک کے دوران سرزمینِ کشمیر نے ایک سے بڑھکر ایک جوانوں کو اُبھرتے اور پھر شان سے جان نچھاور کرتے دیکھا لیکن جس طرح اس کمسن کمانڈر نے جموں کشمیر میں جنگجوئیت کو ایک نئی طرح دیکر اس میں کئی نئی چیزیں متعار ف کرائیںاُنہوں نے ایک طرف اُنکی غیر معمولی صلاحیتوں کا پتہ دیا ہے تو دوسری جانب اُنہیں خود اپنی زندگی میں ہی کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیئے کہ بُرہان نے بندوق اُٹھا کر سب سے پہلے حزب المجاہدین کے بقاء کی جنگ لڑی اور اسے شاندار طریقے سے جیت بھی لیا۔حزب، جو جموں کشمیر میں جنگجوئیت کے آغاز سے ہی ،مختلف وجوہات کیلئے،سب سے بڑی عسکری تنظیم ہونے کا اعزاز لئے ہوئے ہے،تب یقینا اپنے شباب پر نہیں تھی بلکہ اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا۔چنانچہ امریکہ سے پاکستان تک کے حالات کی وجہ سے جموں و کشمیر میں عسکریت بہت حد تک دم توڑچکی تھی بلکہ اسکاگلہ دبادیا گیا تھا۔یہ بات بھی بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ عسکریت کے ایک آپشن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی کہیں سراََ تو کہیں جہراََ بحثیں ہورہی تھیں اور بھارت کے پالیسی ساز مقامی سیاسی جوکروں کی وساطت سے یہ باور کرانے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے تھے کہ عسکریت ایک سعیٔ لاحاصل ہے اور اس سے کسی نتیجے کی اُمید نہیں کی جا سکتی ہے۔
حالانکہ اس بات کا تذکرہ بے جا سا لگتا ہے کہ بُرہان وانی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے نٹ کھٹ لاڈلے سے جنگل جنگل گھومنے والے جنگجو کیسے بنے کیونکہ اُنکی شہرت و مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بس نام ہی کافی والا مقولہ صادق آتا ہے۔تاہم وہ2010کی عوامی تحریک کی پیداوار تھے کہ جب اُنہیں اُنکے بھائی خالد،جنہیں بعدازاں فوج نے نہ جانے کیوں مار ڈالا اور پھراُنہیں جنگجو قرار دینے کی ناکام کوشش بھی کی تھی،کے سمیت فورسز کی ایک ٹکڑی نے ناحق ذلیل کیا اوراُنکے بھائی کی مارپیٹ کی تھی جسکے فوری بعد وہ ایک شوخ کرکٹر اور طالب علم سے مطلوب ترین جنگجو ہوگئے تھے۔اُنکے والد مظفر احمد وانی نے ایک انٹرویو میں ،یہ پوچھے جانے پر کہ زیادتیاں تو یہاں سب کے ساتھ ہوتی ہیں مگر وہ سب جنگجو بھی تو نہیں بن جاتے ہیں،یہ بڑی دلچسپ بات کہی تھی کہ ’’آپ کی غیرت پر منحصر ہے آپ کتنا(ظلم)برداشت کرسکتے ہیں‘‘۔
خود سرکاری ایجنسیاں اعتراف کرچکی ہیں کہ بُرہان اوراُنکی کمان میں صف بندی کرچکے پڑھے لکھے نوجوان 2010ء کی تحریک سے متاثر بلکہ مایوس ہوکر بندوق تھام چکے ہیں۔ جس وقت بُرہان نے 16؍ سال کی عمر میں بندوق اُٹھائی تھی جموں کشمیر میں جنگجوئیت کا تقریباً جنازہ نکل چکا تھا۔گوکہ بھارت مخالف عسکری تحریک شروع ہونے کے بعد سے اگرچہ جنگجوئیت کے ختم ہونے کا کبھی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب بُرہان نے بندوق تھامی تھی اُسوقت اس بات کو تقریباً ایک حقیقت کے بطور تسلیم کیا جاچکا تھا کہ اب بندوق کا کوئی رول نہیں رہا ہے یا پھر کشمیر میں شائد کوئی بندوق اُٹھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ایسے میں عسکری تنظیموں کیلئے مقامی نوجوانوں کو بھرتی ہونے پر آمادہ کرنا یقینا ناممکنات کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ لیکن بُرہان وانی نے منظر پر آکر سب سے پہلے تنظیم کی گویا نئی صف بندی کی اور پھر خود عسکریت کو ایسے نئے اوتار میں پیش کیا کہ وہ سرکاری ایجنسیوں کے لئے کشمیر میں عسکریت کا چہرہ بننے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی اُمیدوں کا مرکز ٹھہرے۔
2015میں جب اُنہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وہ11لڑکوں کی تاریخی تصویر جاری کی تو گویاکشمیر کی تاریخ میں ایک نیا باب جُڑ گیا اور ایک نئی شروعات کا اعلان ہوگیا۔ہاتھوں میں کلاشنکوف تھامے،فوجی وردی میں ملبوس ان گیارہ خوبرو جنگجوؤں کے بیچ میں بُرہان دکھائی دیتے تھے اور ان سبھی کے چہروں پر اس حد تک اطمینان ظاہر تھا کہ جیسے وہ معرکہ سر کر گئے ہوں۔
مٹھی بھر نوجوانوں، تھوڑے سے تجربے، انتہائی قلیل ذرائع و وسائل، کٹھن حالات، ایل او سی کے تقریباً ناقابل عبور ہونے اور ان جیسے مسائل کے باوجود برہان وانی نے کس طرح مٹھی بھر نوجوانوں کو بھارت کی بھاری بھرکم فوج کے سامنے یوں سامنے کر دیا کہ جیسے وہ بھی برابر کی فوج رکھتے ہوں، اس بات کیلئے اُنہیں تاریخ ہمیشہ یاد کرے گی۔ کشمیری جنگجوؤں کی جانب سے اپنے اصل نام کی جگہ عرفیت یا کُنیت کے استعمال اور نقاب کے پیچھے چھُپنے جیسی روایات کو توڑ کر برہان وانی نے جس طرح اپنے نام اور اپنی شکل کو استعمال کیا اس نے ایک طرف نوجوانوں کو راغب کیا تو دوسری جانب یہ اعلان ہوا کہ کشمیری نوجوان کسی کے بہکاوے میں آکر یا حادثاتی طور اس راستے پر نہیں جارہے ہیں بلکہ یہ اُنکا بحواسِ خمسہ لیا ہوا فیصلہ ہے۔
2008ء اور پھر 2010ء میں سرکاری فورسز کی غنڈہ گردی میں قریب دو سو لوگوں کے قتل اور معاملات کے کسی حد تک ٹھنڈا ہونے کے بعد بھارتی قیادت نے جس طرح مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی خواہشات و احساسات کے تئیں آزمودہ بے حسی کو جاری رکھااُس نے بُرہان کے ’’انتخاب‘‘کو درست ٹھہرا یا اور پھر اُن کے مارے جانے پر کشمیر میں لگی آگ نے بہ الفاظِ دیگر اور بہ آوازِ بلند واضح کیا کہ مذاکراتی سلسلے کے مذاق، نئی دلی کی بے حسی، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی نام نہاد کشمیری پارٹیوں کے عشقِ اقتدار اور استحصالی سیاست سے مایوس کشمیری بُرہان اوراُنکے مٹھی بھر جنگجوؤں کو آخری اُمید کی طرح دیکھتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ بُرہان کو جس دھج سے سیاست سے مایوس کشمیریوں نے الوداع کہا وہ اپنے آپ میں کسی ریفرنڈم سے کم نہیں تھا۔
جموں کشمیر میں بھارت مخالف عسکریت اب قریب تیس سال پُرانی ہوگئی ہے اور اس دوران ہم نے اشفاق مجید وانی سے لیکر شمس الحق، مقبول الٰہی سے لیکر اشرف ڈار یاعلی محمد ڈار تک اور ناصرالاسلام سے لیکر ندیم خطیب تک ایک سے ایک نامور، جرّی، پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ عسکری کمانڈروں کو بھارتی فورسز سے لوہا لیتے ہوئے مارے جاتے دیکھا ہے مگربُرہان کے مارے جانے کے خلاف ردِعمل الگ بھی تھا ،حیران کن بھی اور مختلف بھی۔ ویسے توحُریت کانفرنس نے برہان کے مارے جانے کے خلاف فوری طور ایک روزہ ہڑتال کی کال دی تھی، لیکن جو حالات برہان کے مارے جانے کے بعد سے وادیٔ کشمیر کو اپنی گرفت میں لے چکے وہ اتنے الگ اور اچانک تھے کہ جس کا شائد ہی، سرکاری ایجنسیوں کے سمیت، کسی کو موہوم سا اندازہ بھی رہا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بُرہان کا مارا جانا ایک طرف سے خود سرکاری ایجنسیوں کیلئے ناقابلِ یقین سا تھا اور دوسری طرف اس نوجوان بلکہ کمسن کمانڈر کی شہرت کا عالم یہ کہ سرکاری ایجنسیاں اپنے اس نا قابلِ یقین کارنامے پر پوری طرح سے جشن بھی نہیں مناپاسکیں بلکہ ٹیلی ویژن پر ایک اہم پولیس افسر کو یوں بات کرتے دیکھا گیا کہ جیسے وہ بُرہان جیسے ہر دلعزیز کمانڈر کے مارے جانے کو جوازیت بخشنے کیلئے خود کو مشکل میں پارہے تھے۔ سرکاری اہلکار تو برہان جیسے بڑے خطرے کو ’’ٹالنے‘‘پر اپنے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجانے کی بجائے ’’افسوس‘‘کے تاثرات چھپانے میں ناکام ہوہی رہے تھے خود وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو یہ بیان دینا پڑا کہ اُنہیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔یعنی عوامی ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے وہ بہ الفاظِ دیگر یہ کہنا چاہتی تھیں ’’ لوگو! اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں آپ کے ہر دلعزیز کمانڈر کو نہیں مرواتی‘‘۔ دوسری جانب سینوں کو ہدف بناکر برس رہی گولیوں کی پرواہ کئے بغیر احتجاج کرنے والے ہزاروں لوگوں کی صداؤں، خفیہ ایجنسیوں کے کیمرہ اوربدنام زمانہ ٹاسک فورس کی نظروں میں آکر تباہ کر دئے جانے کے ڈر سے بے پرواہ ہوکر ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوانوں کے بُرہان اوراُنکے ’’مشن‘‘کے ساتھ کھلے عام وابستگی جتلانا…وہ دیدنی بھی تھااور معنیٰ خیز بھی۔
بُرہان وانی عید کے ماحول میں مارے گئے تھے،کیا پتہ کہ سرکاری ایجنسیوں نے یہ وقت یہ سوچ کر بھی چُن لیا ہو کہ عوام عید میں مست رہیں گے اور معاملہ آیا گیا ہو جائے گا۔وادی کے مسلمان سال میں آنے والی دونوں عیدوں پر کئی دنوں تک یوں گنتے رہتے ہیں’’آج گیارہویں ،بارہویں….عید‘‘ہے یعنی کئی دنوں تک خوشی کا ماحول رہتا ہے جبکہ پہلے تین دن پوری طرح سے عید منائی جاتی ہے ۔
میں عید کے سلسلے میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر گیا ہوا تھا جہاں دیکھتے ہی دیکھتے اور بھی رشتہ دار آنے لگے اور میزبان نئے آنے والوں کے ساتھ مصروف ہوگئے۔اس دوران پاس کی مسجد سے مغرب کی اذان سُنی گئی اور یہ سوچ کر کہ جب تک میزبان دوسرے مہمانوں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں، میں مغرب کی نماز پڑھ کے آتا ہوں،میں مسجد چلاگیا۔میرے پیچھے پیچھے میرے میزبان کے اور مہمان بھی مسجد کو ہولئے اور ہم نے سکون کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ حالانکہ پانچ رکعت کی نماز میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگا لیکن جب تک ہم مسجد سے باہر آکر پھر سے اپنے میزبان کے یہاں پہنچ گئے ایسا لگا کہ جیسے دُنیا ہی بدل گئی ہو۔میزبان کے یہاں ایک لڑکی کو ہاتھ میں اپنا سمارٹ فون لئے میں نے انتہائی بے چینی اور تذبذب کے ساتھ یوں سیڑھوں پر بیٹھے پایا کہ جیسے کوئی فقیر بھیک مانگنے آیا ہو۔ جونہی گھر کا مرکزی پھاٹک کھولا ،وہ میری طرف انتہائی مضطرب حالت میں لپک کے بولیں’’بُرہان انکاؤنٹر میں پھنس گیا ہے، خالد شہید ہوگیا ہے اوربُرہان ایک اور ساتھی سمیت محصور ہے، یہ کیسے ہوگیا، ایسا کیسے ہوسکتا ہے، اے اللہ بچا اُسے، وہ تو….‘‘۔ وہ کچھ اس طرح بول رہی تھیں کہ جیسے اُنکی بُرہان اوراُنکے ساتھیوں کے ساتھ شناسائی ہو بلکہ جیسے وہ خود اُنکا اپنا بھائی ہو کہ جو ابھی ابھی کوئی بہانہ کرکے گھر سے گیا ہو۔ حالانکہ میں سرینگر میں تھا جہاں سے بُرہان کا ترال میں واقع گھر قریب پچاس کلومیٹر اور انکاؤنٹر کی جگہ لگ بھگ سوا سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور میرے میزبان کی لڑکی اور بُرہان کا آپس میں کوئی رشتہ بھی نہیں ہے۔میں حیران ہورہا تھا کہ یکایک سبھی میزبانوں اور مہمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں اور اسکے ساتھ ہی میں نے باہر سے بلند ہوتی صدائیں سُنیں جنکے بارے میں بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ بُرہان کے مارے جانے کے خلاف نکلے جلوسوں میں ہو رہی نعرہ بازی کی تھیں۔گوکہ میںاُسی راستے سے گھر لوٹ رہا تھا کہ جس راستے سے میں اپنے رشتہ داروں کو عید کی مبارکباد دینے آیا تھا لیکن نہ جانے سب کچھ بد ل سا کیوں گیا تھا اور پورا ماحول الگ اور مختلف کیوں لگ رہا تھا۔کئی جگہوں پر بلکہ جگہ جگہ پر مضطرب نوجوانوں کی ٹولیاں تھیں جو ایک طرف ٹریفک روک رہی تھیں اور دوسری جانب’’ہم کیا چاہتے،آزادی‘‘، ’’تم کتنے بُرہان ماروگے،ہر گھر سے بُرہان نکلے گا‘‘، ’’بُرہان تیرے خون سے، انقلاب آئے گا‘‘ اور ’’بھارت تیری موت آئی، حزب (المجاہدین) آئی، حزب آئی‘‘ کے جیسے جذباتی نعرے لگارہی تھیں۔
اس ’’معرکہ‘‘کے شروع ہونے کے فوری بعد پولیس نے ایک چار پائی پر ٹھنڈے پڑے بُرہان کی خون میں لت پت نعش کی تصویر انٹرنیٹ پر جاری کرکے شائد اپنی ’’فتح‘‘کا اعلان کرنا چاہا تھا لیکن اس نے بھوسے میں ایک چنگاری کا کام کرکے آن کی آن میں جنگل میں آگ لگا دی۔سرکاری انتظامیہ نے اپنے آزمودہ ہتھیار کو حرکت میں لاتے ہوئے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کو بند کرنے کے علاوہ سرینگر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو لگادیا اور جنوبی کشمیر میں بھی پہرے بٹھادئے۔معاملہ مگر عشق کا ثابت ہوا اور یہ بات تاریخ کے اوراق میں پھر محفوظ ہوگئی کہ عاشقوں کے سامنے پہاڑ بھی روئی کے دانے ہو جاتے ہیں۔
سنیچر کی صبح کو میں ایک اور ساتھی کے سمیت بُرہان کے آخری سفر کا شاہد بننے کے لئے موٹر سائیکل پر سوار ترال کی جانب نکلا، راستے میں ایک عجیب خوف تھا، ہم دو لوگوں کے سوا آگے پیچھے کہیں کوئی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم جموں سرینگر شاہراہ پر واقع پانپور قصبہ میں داخل ہونے لگے۔یہاں پژمردہ چہروں کے ساتھ سینکڑوں نوجوان بکھرے پڑے تھے،آگے پہنچنے پر ہم نے دیکھا کہ بھارتی فورسز نے ایمبولنس گاڑیوں کو روک کر ان میں سے کئی زخمیوں کو نیچے اُتارا تھا اوراُنکی مارپیٹ کئے جانے کے علاوہ اُنہیں سنگباز نوجوانوں کے سامنے انسانی ڈھال بناکر استعمال کیا جارہا تھا۔یہاں ماحول اس قدر خوفناک تھا کہ لوگوں نے ہمیں ترال نہ جانے کی صلاح دی اور کہا کہ فورسز بے قابو ہوچکی ہیں اور وہ لوگوں کو پکڑ کر انسانی ڈھال کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ ہاتھوں میں پتھر لئے ہوئے مگرکئی زخمیوں کے فورسز کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے خاموش ان نوجوانوں میں سے کئی ایک نے بتایا’’بُرہان نے تو ہماری کمر توڑ دی ہے،اُسکا مشن نہیں رُکے گا لیکن ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سہارا کھو گیا‘‘۔ سرینگر سے پانپور تک جہاں بھی دیکھا ایک غم، دکھ اور مایوسی مشترکہ تھی۔ ایسا لگا کہ جیسے سبھی لوگ ’’بُرہان کے رشتے میں‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔پانپور میں پتہ چلا کہ بُرہان کے مارے جانے کے فوری بعد سرینگر سے کم از کم دو سو گاڑیوں میں سوار ہوکر لوگ راتوں رات ترال پہنچ گئے تھے تاکہ اس نوجوان بلکہ کمسن کمانڈر کومر کر ہی سہی کم از کم ایک بار اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں۔پانپور میں نوجوانوں نے بتایا کہ بڈگام ضلع کے چاڈورہ قصبہ سے تین چھوٹی بچیاں پاپیادہ چل کر یہ کہتے ہوئے ترال کے لئے یہاں سے گزری ہیں کہ وہ ’’بُرہان بھیا‘‘کو ایک بار دیکھنے کی تمنا رکھتی ہیں۔یہ واقعہ سُناتے ہوئے ایک نوجوان کی آنکھ بھر آئی اور ایک آہ کے ساتھ اُنہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’سب ختم ہوگیا، ہمارا سہارا ختم ہوگیا‘‘۔
وقت رہتے ہوئے ترال پہنچنے میں کامیاب رہے، صحافی دوستوں کی لکھی ،بتائی اور تصویروں کی زبانی بتائی ہوئی کہانیوں کے مطابق تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی کم از کم زائد از ایک لاکھ لوگوں نے بُرہان کے جنازے میں شرکت کی اور تقریباً پچاس الگ الگ جلوسوں نے اُنکا جنازہ پڑھا۔اتنا ہی نہیں بلکہ بُرہان کی نعش کواُسوقت قبر میں ڈالتے ڈالتے واپس نکالا گیا کہ جب کہیں سے آئے ایک جلوس میں شامل لوگوں نے انتہائی جذباتی ہوکر اپنے ہیرو کا چہرہ دیکھے بغیر یہاں سے جانے سے انکار کر دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ترال پہنچے ان سوگواروں میں آس پاس کے علاقوں کے علاوہ، بانہال، کپوارہ، پہلگام، کوکرناگ، سرینگر اور دیگر دوردراز علاقوں سے آئے بہت لوگ شامل تھے۔پھر اس واقعہ کے اگلے چھ ماہ تک کا کشمیر کیسا تھا، یہ کوئی کہنے کی بات نہیں ہے۔۔۔ تاریخ کی طویل ترین ہڑتال اور سرکاری فورسز کی جانب سے لوگوں کو اجتماعی طور اندھا کردئے جانے کی مثالیں۔
بُرہان وانی کی اُس تاریخی تصویر میں شامل رہے گیارہ میں سے اب فقط ایک، صدام پڈر ہی زندہ ہیں لیکن آج کی تاریخ میں اُس طرح کی روز ہی کئی کئی تصاویر سامنے آتی ہیں۔خود سرکاری ایجنسیوں کو اعتراف ہے کہ عسکریت پسندوں کو اسلحہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے نہ کہ اسلحہ اُٹھانے والوں کا۔ چنانچہ یہ سب بُرہان وانی کے بوئے ہوئے بیجوں کی کھیتی ہے۔جس طرح بُرہان وانی نے جموں و کشمیر میں جنگجوئیت کو ایک نئی طرح دیکر اس میں کئی نئی چیزیں متعارف کرائیں، ٹھیک اُسی طرح اُنکے مارے جانے کے بعد عام کشمیریوں نے بھی گویا پوری جدوجہد کو ایک نئی طرح دی اور کئی نئی چیزیںاپنائی ہیں۔ایک زمانہ وہ تھا کہ جب کشمیر میں کہیں عسکریت پسندوں اور سرکاری فورسز کی جھڑپ ہوتی،علاقے کے لوگ کوسوں دور چلے جاتے جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری انتظامیہ کو لوگوں کو جھڑپوں کی جگہوں سے دور رکھنے کیلئے کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں بلکہ بھارتی فوج کے چیف جنرل بیپن راوت برملا طور اعتراف کرچکے ہیں کہ عام لوگوں کی جانب سے محصور جنگجوؤں کی مدد کو آنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ حالانکہ اُنہوں نے جھڑپ کی جگہ پہنچنے والے سبھی لوگوں کو ’’اپرگراونڈ ورکر‘‘تصور کرکے گویا اُنہیں مار ڈالنے کی راست دھمکی بھی دی تھی اور پھر مختلف انکاؤنٹروں کے دوران ہوئے احتجاجی مظاہروں میں قریب نصف درجن عام لوگوں کو مار بھی ڈالا گیا لیکن انکا یہ چیلنج برقرار بھی ہے اور بڑھتا بھی جارہا ہے۔دو ایک مہینے پہلے اس بات نے خود بھارتی ایجنسیوں کو بھی سکتے میں ڈالا تھا کہ کپوارہ، جہاں کے لوگ ہمیشہ فوج کی نظروں میں رہتے ہیں اور جنکے روزگار کا انحصار بہت حد تک فوج کی مزدوری پر ہے،میں لوگوں نے ایک معرکہ میں مارے گئے عسکری جوان کی نعش حاصل کرنے کے لئے اس حد تک ہلہ کیا کہ فوج نے ایک بزرگ شہری کو گولی مار کر جاں بحق کردیا۔
حاصل کلام یہ کہ بُرہان وانی نے جموں و کشمیر میںبھارت کی ہٹ دھرمی،ضد،اسکے بات چیت کی ضرورت تک محسوس نہ کرنے اور اس طرح کی دیگر چیزوں سے مایوس لوگوں کے سامنے عسکریت کو ایک آپشن کی ہی طرح نہیں منوایا ہے بلکہ بعض لوگوں کو یہاں تک باور کرایا ہے کہ یہی ایک راستہ ہے۔ لوگوں نے اُنہیں آخری اُمید کی طرح لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی کہیں عسکریت پسندوں کے محاصرے میں آنے کی شہ پاتے ہی دیوانہ وار اُنکی ڈھال بن کر کھڑا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ نوے کی دہائی کے مقابلے میں آج عسکریت پسندوں کی تعداد گننے کے لائق بھی نہیں ہے لیکن یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ جو سب تب کے ہزاروں نوجوانوں سے ممکن نہ ہوسکا تھا ’’بُرہان ڈاکٹرین ‘‘کے ذریعہ اُس سے بڑھکر محض مٹھی بھر نوجوانوں سے ممکن ہورہا ہے۔ بھارت کی ساری فوج اور سبھی ایجنسیاں گنتی کے ان چند نوجوانوں،سرکاری ذرائع کے مطابق سوا سو کے قریب کی وجہ سے سرگرداں پھر رہی ہیں یہاں تک کہ جنوبی کشمیر میں دس سال کے بعد پھر سے فوجی چھاؤنیاں قائم کی جارہی ہیں کہ جنہیں اس علاقے کے ’’عسکریت سے پاک‘‘ہونے پر ہٹادیا گیا تھا۔ یہ یُرہان وانی کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بدلا ہوا بیانیہ ہی ہے کہ جس نے پاکستان کو پہلی بار ’’اخلاقی، سیاسی، سفارتی‘‘رَٹ سے آگے بڑھتے ہوئے اقوامِ متحدہ تک میں بُرہان کو ’’ینگ کشمیری لیڈر‘‘ کہہ کر پہلی بار جموں و کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد کو اعتبار بخشنے کی ہمت دی۔

بُرہان نے دراصل بھارت کو ایک ایسے دائرے میں پھنسادیا ہے کہ جہاں سے وہ نکلنے کا راستہ ہی تلاش نہیں کرپارہا ہے۔ چنانچہ بُرہان ہی کی وجہ سے یہاں مذاکرات کے نام پر ہوتی رہی وقت کھپائی پر سے لوگوں کا بھروسہ اُٹھ گیا اور ’’اعتدال پسندوں ‘‘ کو بے بس کردیا کہ جو نام نہاد مذاکرات کے نام پر بھارت کے لئے استعمال ہوکر اسے Engaged ہونے کا دعویٰ کرنے کا موقعہ دیتے تھے۔یہ شائد چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہوگا کہ بھارت آج بھی ’’بُرہان ڈاکٹرین‘‘کا شکار ہے کہ وہ جتنا زیادہ طاقت کا استعمال کرے گا،کشمیریوں کو پاکستان و افغانستان سے یا کہیں بخارا و سمرقند سے کسی ابنِ قاسم کا انتظار نہیں کرنا ہے بلکہ انہیں اپنی ہی گلیوں میں سے بُرہان نکلتے ملیں گے۔پھر بھارتCarrot Stickکہانی میں سے فقط اِسٹک ہی اُٹھائے ہوئے ہے اور دوسری جانب اسکے ٹیلی ویژن چینل اپنے اسٹیڈیوز میں نفرت کی جو جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، اُس سے بُرہان کے بوئے ہوئے بیجوں کی آبیاری ہوتی جارہی ہے۔
یہ بات الگ ہے کہ اُنکا اپنا دامن داغدار ہے اوراُنکے اس طرح کے بیانات سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش ہے، لیکن عمر عبداللہ کے منہ سے نکلے اس بیان کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ بُرہان کی شکل میں کشمیریوں کو نیا آئیکن (Icon) مل گیا ہے اوراُنکی قبر مزید جنگجوؤں کو جنم دے سکتی ہے۔ یہ بیان اُنہوں نے بُرہان کے مارے جانے کے بعد ہی دیا تھا ۔سابق ملٹری کمانڈر جنرل حسنین نے بھی کچھ اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا بلکہ سچ یہ ہے کہ اس طرح کی کھلی اور آسانی سے سمجھے جانے والی باتوں کے لئے کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر یا ملٹری کمانڈر ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس ہیرو کے آخری دیدار کے لئے لاکھوں لوگ بے تحاشا چل رہی گولیوں سے بے پرواہ ہوں اور گولیاں کھانے کے بعد جو لوگ اسپتالوں کی دیواروں پر اپنے خون سے کچھ یوں لکھ رہے ہوں’’بُرہان بھائی آپ شہید ہوگئے، ہمیں کس کے سہارے چھوڑ دیا‘‘،وہ کس طرح اس ہیرو کو زندہ رکھنے اور اسکے ساتھ جُڑے رہنے کی کوشش کرینگے،سال بھر میں اس بات کا اندازہ ہو بھی گیا ہے کہ کشمیری عوام بُرہان وانی کو آئکن مانتے ہیں اور پھر آئکن کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ جسمانی طور اپنے مداحوں کے درمیان بھی ہوں!!!
٭٭٭