
ؑؑؑغلام اللہ کیانی
اگست کا مہینہ ایک خواب، ایک مشن کے شرمندہ تعبیر ہونے کا مہینہ ہے ۔ طویل جدوجہد اور قربانیوں سے مملکت خدادپاک وطن حاصل کیا گیا۔یہ ماہ پاکستان اور بھارت کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔اس ماہ دونوں ممالک اپنا اپنا یوم آزادی مناتے ہیں جسے پاکستان میں یوم استقلال بھی کہا جاتا ہے۔76سال قبل اسی ماہ کے وسط میں دونوں ممالک نے انگریزوںکی غلامی سے آزادی حاصل کی اور دنیا کے نقشے پرآزاد و خودمختار ممالک کے طور پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک برٹش پارلیمنٹ کے 18جولائی 1947ء کے انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے تحت آزاد ہوئے۔ دونوں کو 14اگست 1947ء کو آزاد ہونا تھا۔ کانگریسی انتہا پسندی اس حد تک تھی کہ وہ جشن آزادی، پاکستان کے ساتھ منانا تک گوارا نہ کر سکی اور اسے ایک دن کی تاخیر کی نذر کر دیا گیا۔پاکستان کے لئے انگریزوںسمیت کانگریسی انتہا پسند ہندئوں سے بھی آزادی کی جنگ لڑنا پڑی۔ اگست کی 14 تاریخ کو پاکستان ایک آزاد وخود مختار ملک بن گیا ۔ پنجاب کے یونینسٹ اور سرحد کے خدائی خدمت گار کانگریس کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ہم یہاں جشن کے مواقع پر تعطیل کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے قائد نیلسن منڈیلا کی سالگرہ کے موقع پرتعطیل کے بجائے اضافی محنت و مشقت کی جاتی ہے۔یہ ایک مشعل راہ ہے ۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کا عمل اور قوموں کے مثبت امور عملانے کی جانب توجہ تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے حامل معاشروں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔غیر ترقی یافتہ اور نیم خواندہ قومیں پیامبر کوٹھکانے لگانے میں ہی بھلائی و عافیت سمجھتی ہیں۔جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کرنے والوںکی زمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کو حاصل کرنے میں لاکھوں افراد نے اپنی جانوںکے نذرانے پیش کئے۔قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔پاکستان میں 1951ء کو کئے گئے پہلے سروے میں چشم کشا حقائق سامنے آئے کہ ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی۔80لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور 60لاکھ ہندو پاکستان سے بھارت گئے۔اس دوران مختلف واقعات میں 10لاکھ لوگ مارے گئے۔50ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ ہندوانتہاپسندوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت مختلف قافلوں میں پاک سر زمین پر قدم رکھنے کے آرزو مند مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا۔بزرگوں ،بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں جوان عورتوں اور کم سن بچیوں کو اغوا کرنے کے افسوسناک سانحات پیش آئے۔آج 76 برس گزرنے کے باوجودان گمشدگان کی تلاش جاری ہے ۔پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندانوں کے ساتھ دردناک سانحات پیش آئے ۔ ان کے لواحقین پر کیاگزری ؟ اس دکھ ودردکو محسوس کرنا انتہا ئی مشکل ہے۔ ہندوانتہاپسندوں نے مسلمان شیر خوار بچوںکوتلواروں،کرپانوں ،سلاخوں اور برچھیوںپر اچھالا ۔مسلمانوںکے گھروں،املاک و باغات کو آگ لگادی ۔ بستیاں اور بازار راکھ بنادئیے ۔جائیدادوں پر قبضہ جمالیا۔جو قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے ان کو جگہ جگہ لوٹاگیا اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔لاتعداد لوگ زندہ جل گئے۔عفت مآب خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا ۔مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ہوا ۔جو مسلمان بھارت میں رہ گئے انہیںمشکوک، غداراور پاکستان کے ایجنٹ مسلمان کہا گیا ۔ بھارت میں انتہا پسندوں کا آج بھی یہ نعرہ ہے ’’ہندو کا ہندوستان، مسلمان کا قبرستان‘‘۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئی اور ہندو متحد ہو گئے۔ جنوبی ایشیا میں تقسیم کے منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوئے۔

آج بھارت میں مسلمانوں کے گھر اور بستیاں، بازار مسمار کئے جا رہے ہیں۔مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزامات لگا کرقتل کیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے حد کر دی ہے۔نریندر مودی کا دوسرا دور اقتدار زحمت بن کر گزر رہاہے۔نئے شہریت قوانین متعارف کئے گئے ہیں۔ مسلمان اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ایسے میں آج پاکستان اور بھارت ایک بار پھر اپنی آزادی کی سالگرہ منارہے ہیں ۔دشمنان اسلام کی برھتی ہوئی سازشوں سے پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامناہے۔
نریندر مودی حکومت نے 5اگست2019کوکشمیر کی رہی سہی خصوصی حیثیت ختم کر دی ۔قابض بھارتی فوج سمیت بھارتی شہری کشمیرکی زمین وجائیداد پر قابض ہو رہے ہیں۔50لاکھ سے زیادہ سابق بھارتی فوجیوں، کشمیر میں ملازمت کرنے والے بھارتی شہریوں اور جاسوسوں سمیت انتہا پسندوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے۔وہ کشمیر میں ملازمت کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔کشمیری پنڈت خاندان وادی میں اپنی زمین و جائیداد مسلمانوں کو فروخت کر کے فرار ہو چکے تھے۔ اب انہیں ان کی بیچی ہوئی زمینیں مسلمانوں سے زبردستی واپس واگزار کرائی جا رہی ہیں۔کشمیریوں کے خون سے چراغاںبھارت جشن منا تاہے ۔کشمیریوں پر اس ماہ بھارتی فورسز مظالم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔اب کشمیر کا پرچم ہٹا دیا گیا ہے۔فوجی بھارتی ترنگا جھنڈیاں زبردستی تقسیم کرتے ہیں ۔ انہیںسرکاری عمارات، گھروں ،گاڑیوں اور دکانوں پر لہرانے کے احکامات دیئے گئے ہیں ۔
’’ہر گھر ترنگا ’’ مہم چلا کر بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض فوج کی مدد سے بندوق کی نوک پر زبردستی گھروں اور نجی تعمیرات پر بھارتی پرچم لہرا رہی ہے۔ اگست کی آمد پرپوری وادی کشمیر میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ ہوتاہے ۔15 اگست کو سب سے بڑی تقریب سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں ہوتی ہے۔ سٹیڈیم کے گردونواح میںسرائے بالا،مہاراج گنج،کرن نگر،ستھراشاہی ،بٹہ مالو،رام باغ ،گوگجی باغ ،لال منڈی ،راج باغ اور دیگر بستیوں سے لوگ بھارتی فورسز کے مظالم کے باعث ہجرت کرجاتے ہیں۔ رہائشی گھروں پر بھارتی فوجی چوکیاں قائم کی جاتی ہیں ۔یہاں تک کہ اقبال پارک اور بچوں کے لل دیدہسپتال میں بھارتی فورسز داخل ہو جاتی ہیں۔بچوں کے اس ہسپتال پر بھی بھارتی فوجی بنکر بنا کرمریضوں کو ہراساں کرتے ہیں ۔پوری وادی کی سڑکوں پر جگہ جگہ کریک ڈائون ہوتے ہیں۔لوگوں کی تلاشیاںلی جاتی ہیں ۔بستیوں کے تلاشی آپریشن کئے جاتے ہیں۔چھاپے ڈالے جاتے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔جیلوں سے رہاہونے والوں کو نئے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔انہیں فورسز کیمپوں اور تھانوں میں حاضر کیا جاتا ہے۔اور یہی حال پوری مقبوضہ وادی میں ہوتاہے ۔بھارت اپنا یوم آزادی بڑے دھوم دھام سے کشمیر یوں کو گھروں میں بندکر کے اور ان کی تمام آزادیاں چھین کرمناتا ہے ۔آزادی منانے کے لئے بھارت ہزاروں کشمیر یوں کو فوجی کیمپوں پر حاضر ہونے ،نظربند کرنے اور غلامی کاتصوریاد دلاتا ہے ۔اس دن شمالی بھارت میں آزادی پسندمائو لوگ یوم سیاہ مناتے ہیں ،کشمیر میں بھی یوم سیاہ کے دوران عام ہڑتال ہوتی ہے اور سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں ۔عملی طور پر وادی میں سول کرفیونافذرہتا ہے ۔البتہ 14 اگست کو لوگ عقیدت واحترام میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ پاکستانی پرچم کو سلامی دیتے ہیں ۔بازاروں اور رہائشی علاقوں میں بھارتی فورسز کی موجودگی اور جارحیت کے باوجودلوگ چراغاں کرتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے اور کشمیریوں کو بھی آزادی کی نعمت سے مالا مال کرے ۔پاکستان کے لئے بزرگوں نے جن قربانیوں کو پیش کیا ان کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بنا۔تاریخ میں ایک بڑی ہجرت ہوئی ۔لوگ بے گھر ہوئے ۔لیکن انہیں آزادوطن میں رہنے کی خوشی تھی ۔البتہ وہ تاریخ کا ایک سیاہ دور بھی تھا ۔جو مسلمانوں پر 1947 ء کو اگست کے مہینے میں گزرا ۔تاریخ میں اسے سیاہ باب کے نام سے درج کیا گیا ہے۔
جن لوگوں نے 1947 ء کا قتل عام اور مسلمانوں کے مصائب نہیں دیکھے وہ بھارتی ریاست گجرات اور اس کے بعد آسام ، اب دہلی سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام، خواتین کے ساتھ زیادتیوں، لوٹ ماراور اغواکی داستانیں پڑ ھ ،دیکھ اور سن چکے ہوں گے ۔قیام پاکستان پر جو نفرت انتہا پسند ہندوئوں میں تھی ،اس کی گجرات ، سورت اور آسام، دہلی کے واقعات ایک جھلک ہیں ۔برصغیر سے برطانیہ چلاگیا لیکن اس نے اپنے ایجنٹ یہاں موجود رکھے ۔جن لوگوں نے انگریزوں کی مخبریاں اور جاسوسیاں کیں، وہ مربعوںاور باغات سے نوازے گئے۔ ان میں اکثریت یہی لوگ آج وڈیرے ،جاگیردار ،زمیندار ہیں۔جن کو آزادی راس نہ آئی ۔انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی آزادی چھین کراُسے پہلے انگریز اور اب امریکہ کے پاس گروی رکھ چھوڑا ۔یہی لوگ مسلمان کو مسلمان کے خلاف اکسارہے ہیں ۔ پاکستانی اپنے اسلاف کی قربانیاں فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔اگر عوام خبردار ہوجائیں ۔اپنے آس پاس کڑی نظررکھیں ۔ذمہ دار شہری کا ثبوت دیں ۔تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر ایک گولی بھی چلاسکے یا ایک دھماکہ کرسکے ۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لیا ۔صدیوں تک مسلمانوں نے مشرق اور مغرب پر حکومت کی ۔عدل وانصاف کا بول بالاکیا ۔آج حکمرانوں کے طرز حکومت سے ایسا محسوس ہونا چاہیئے کہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
1947 ء کو دہلی ،یوپی ،بنگال ،پنجاب،بمبئی،بہار ،کپورتھلہ،فرید کوٹ ،جید،نابھ،میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں ۔کیا آج حکمرانوں کو اس کا احساس ہے؟جن سنگھیوں، آرا یس ایس ،شیوسینا ،بجرنگ دل والوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پاکستان کی مدد کو جنگی بیڑہ روانہ کرنے کا دھوکہ دینے والا امریکا بظاہر انسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر وہ مسلمانوں کا قتل عام کرانے میں نہ صرف بھارت اور اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اور دونوں ممالک کو جدید ترین ہتھیار دینے میں مصروف ہے۔وہ بھارت کو پاکستانی حکمرانوں کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی دلانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ پاکستان کی ابھی تک تکمیل نہیں ہوئی ۔ کشمیر کی غلامی میں پاکستان کی آزادی کا کوئی تصور نہیں ۔کشمیر پالیسی ساز ہاتھی کو سوئیاں چبھونے کے بجائے فیصلہ کن کردار کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔کشمیریوں کو اٹھنے کی’’تم بھی اٹھو اہل وادی‘‘ جیسی صدائیں لگانے والے خود خواب غفلت سے بیدار ہورہے ہیں۔کشمیر کے نام کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ معاشی و سیاسی استحکام اور باہمی یک جہتی سے کشمیریوں کی آزادی پسندی کے جذبے کی قدر کی جائے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے عزم اور استقلال کے ساتھ میدان میںآنے کی ضرورت ہے۔یوم استقلال کا تقاضا بھی یہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لے کر کشمیریوں کا قتل عام تیز کر دیا ہے۔ حریت پسند قیادت محبوس ہے۔۔ ان پر جعلی مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔ جائیدادوں کو ضبط کیا جا رہا ہے یا دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تجارت کوتباہ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا کو سنسر شپ کا سامنا ہے۔ ریاستی دہشگردی کو بے نقاب کرنے پر ریاستی میڈیا کا شکنجہ کس لیا گیا ہے۔ غلامی کیا ہوتی ہے، یہ کشمیریوں پر واضح ہے۔ ایسے میں پاکستان کا جشن آزادی آ گیا۔ غلام قوموں سے آزادی کی قدر و قیمت معلوم کریں۔پاکستانی عوام بھی آزادی کی قدر کریں اور اس کا تحفظ بھی۔ دفاعی اور معاشی طور پر طاقت ور اور مضبوط و مستحکم ایٹمی پاکستان ہی کشمیریوں سمیت اس خطے کی غلام و مظلوم قوموں کی آواز بن سکتا ہے۔
غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔