
شہزاد منیر احمد
(گزشتہ سے پیوستہ)
رابرٹ گرین نے اب خود اسلامی لٹریچر منگوا کر پڑھا تو قرآن کریم میں درج روحانی ھدایات کے مندرجات کے مطالعہ نے اس کے دل کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ صدر کا بریف تو مناسب تراش خراش کے بعد حسب ھدایت صدر تک پہنچا دیا گیا ۔اب مگر قرآن کریم کے مطالعہ نے رابرٹ گرین کی اندھیری دنیا میں روشن روشن انقلاب برپا کر دیا۔ اس نے اسلامی سیمینارز اور دیگر اسلامی اجتماعات میں باقاعدگی سے شرکت کرنا شروع کردی۔ رابرٹ گرین لکھتے ہیں میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تین سال تک قانون پڑھا لیکن وہاں میں نے کبھی لفظ JUSTICE نہیں سنا تھا۔
رابرٹ گرین نے پھر 1981 میں دین اسلام قبول کیا اور اپنا نام ” فاروق عبدلحق” رکھا اس بے دین شخص کے لیے دین اسلام سے لا علمی Is Blessing Ignorance بن کر سامنے آئی۔۔۔ فاروق عبدالحق، لکھتے ہیں کہ ایک دن یہودی لیکچرار کلاس میں پڑھاتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر بات کرنے لگا۔ میں اسے خاموش کرانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا کیا امریکی آئین میں قانون وراثت کا تذکرہ ہے۔ اس نے جواب دیا بالکل ہے۔Eight Valumes ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اسلام نے اس قانون وراثت کو صرف دس سطروں میں بیان کر رکھا ہے۔ میں نے قرآن میں درج قانون وراثت والی۔سورتیں اسے پڑھوائیں تو وہ نہ صرف مان گیا بلکہ وہ مسلمان بھی ہوگیا۔
Is Curse Ignorance
کا مثالی واقعہ، لارنس آف عربیہ
لارنس آف عربیہ ٹی آی لارنس (تھامس ایڈورڈ لارنس) ، برطانوی فوج کا آفیسر تھا.۔ برطانیہ نے حجاز میں وسیع پیمانے پر تیل کے خزانوں کا سراغ لگا رکھا تھا۔ مستقبل میں ان کی زیر زمین ان پوشیدہ معدنیات پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ 1916 میں، پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کی تقرری حجاز (آج کے سعودی عرب) میں کی گئی تھی۔ اس کا کام برطانوی حکومت اور حجازی قبائل کے درمیان رابط کار آفیسر کا تھا۔۔۔ لارنس آف عربیہ کو یہ ھدف دیا گیا تھا کہ جرمنوں کی حمایت میں ترکی کو لڑنے سے ہر حال میں دور رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے اگر عرب قبائل کو ترکی سے براہ راست جنگ بھی کرنی پڑے تو وہ ضرور کریں۔ برطانیہ اور اس کے اتحادی عربوں کی اس جنگ میں مکمل عسکری حمایت اور امداد فراہم کریں گے۔ جنگ بندی کے بعد عربوں کو مکمل خود مختار ریاستوں کی حیثیت میں تسلیم کر لیا جائے گا۔ ان حالات پر علامہ اقبال نے کیا خوب بر محل لکھا تھا:-
فکر عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
لارنس آف عربیہ نے مجوزہ ہدف حاصل کرنے کیلئے عرب قبائل کو ترکی کے خلاف اکسا کر جنگ میں جھونکا۔ حجاز میں تباہی پھیلی، ترکی، یعنی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی ساری راہیں ہموار ہوئی۔ مسلم امہ میں گہری رقابتیں بلکہ دشمنیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ لارنس آف عربیہ نے اس دوران عرب قبائل اور ترکی کی جنگوں میں کم از کم 79 رابطہ پلوں کو اس طرح بارود سے اڑایا کہ ترکوں کو اسے بحال کرنے میں ایک عرصہ لگا ۔ ۔ 1935 میں لارنس آف عربیہ موٹر سائیکل کے حادثے کا شکار ہوا اور وہ 19 مئی 1935 کو فوت ہوگیا۔
عربوں کی Ignorance کا یہ عالم تھا کہ لارنس آف عربیہ 1916 سے کئی برسوں تک سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا منصوبہ عربوں اور ترکوں کے اندر بیٹھ کر بناتا رہا مگر وہ اس کے ارادے نہ بھانپ پائے۔ ۔ یہ زندہ مثال ہے Is Curse Ignorance کے سمجھنے کے لیے۔
علامہ اقبال نے لکھا
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہو تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے یورپ سے نہیں ہے
ہندوستان میں جو تحریک خلافت چلائی گئی تھی، علامہ اقبال اس کے خلاف تھے۔ ایک تو وجہ یہ تھی کہ اس کے قائدین میں گاندھی بھی شامل تھا جس کا خلافت عثمانیہ سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ اقبال کا نظریہ تھا کہ اقتدارِ کبھی کوئی بھیک میں نہیں د یا جاتا۔یہ قوت بازو سے حاصل ہوتا ہے۔ پہلی مثال یہ تھی کہ جنگ عظیم اول میں ترکی پر انگریزوں کا تسلط اور ہندوستانی مسلمانوں سے تاریخی بد عہدی بھی دیکھ چکے تھے۔ بعد میں حالات اور واقعات نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ ترکی کے ضمن میں علامہ اقبال ؒکی سوچ صد فیصد درست تھی۔ بعد میں ترک جرنیلوں نے ہی انگریزوں سے لڑ کر اپنا وطن آزاد کرایا۔
علامہ اقبال نے تب ایک نظم لکھا تھا:-
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشائی
1939 میں جنگ عظیم دوئم شروع ہو گئی۔ مسلمانوں کی ٹوٹی ٹوٹی بکھری اجتماعیت عرب قبائل کی قبائلی کمزوریاں اور عیش پسند نفسیات اتحادیوں کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکی تو یورپی اتحادی جیت گئے۔جنہوں نے حجاز کو توڑ کر، عربوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے نام پر اپنی ایجنسیاں قائم کر لیں۔ اور عربوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ریاست اسرائیل بھی قائم کر دی۔ برعکس اس کے ترکی نے اپنی بساط بھر انگریزوں کے ساتھ جنگ لڑی اور اپنا ملک آزاد کرایا۔ ترکی جرنیلوں کی اپنے وطن کے دفاع میں لڑی جانے والی جنگ میں ان کی جرات بہادری خود اعتمادی اور توکل کی الگ داستانیں ہیں۔
ترک جنرل مصطفیٰ کمال پاشا کمال کچھ سپاہیوں کے ساتھ گھات لگائے چھپا ہوا تھا کسی نے آ کر بتایا کہ ترکی ہار گیا ہے۔ اس نے اپنے سپاہیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ” ترکی تو یہ ہے اس نے جنگ نہیں ہاری تو ترکی نہیں ہار سکتا۔” مصطفیٰ کمال نے کمال کا جواب دیا اور کمال جرآت کردار سے انگریزوں کو شکست دے کر ترکی آزاد کروایا۔
غیرت بڑی چیز ہے جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
ترک عوام نے اسے اتاترک (ترکوں کا باپ) کا خطاب دیا اور دشمن انگریزوں نے اسے Gray Wolf مٹیالا بھیڑیا کہا۔
سب سے بڑا ظلم اور نا انصافی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہوئی کہ ان کی زمین پر یہودی ریاست اسرائیل قائم کر کے عربوں کو زندہ درگور کر دیا۔
انجام داستان
اللہ اکبر کہنے سے بندے کو ایمان کی پختگی،حوصلہ اور راست سمت ملتی ہے۔ منزل کا سفر بندے کو اپنے پاؤں پر چل کر طے کرنا ہوتاہے۔” لیس للانسان الا ما سعی ”
ایک ہی دور میں عربوں کے لئے Is Curse Ignorance بن کر نازل ہوئی اور ترکوں کے لیے Blessing Is Ignorance ثابت ہوئی جو مرد مریض کہلاتا تھا اور پھر ہیرو بن کر سامنے ایا۔ برطانوی ڈرامہ نویس، شاعر اور اداکار شیکسپئیر (1564 سے 1616 ء) کا دانشورانہ یہ قول ” دنیا ایک اسٹیج کی مانند جس پر ہر انسان اپنی اپنی باری پر اداکاری کرتا اور چلا جاتا ہے” ۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو ازبر ہے۔
دانشوروں کا مشغلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ فراغت کے لمحوں میں، معاشرے کے حالات، اور گردوپیش میں ہونے والی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے خوب سے خوب تر کی دریافت میں رہتے ہیں۔
تب کے برطانوی ثقافتی ماحول میں پائی جانے والی ناپسندیدہ بے علمی اور جہالت پر کڑھتے ہوئے شیکسپیئر نے اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ نوجوان نسل کے تعمیری فکر و خیال میں عدم دلچسپی، اخلاقی بے راہ روی، سوسائٹی میں اپنی معاشرتی اخلاقی ذمہ داریوں سے لاپرواہی، گرد و نواح میں انسانی معاشرے کی ترقی سے بے نیاز۔ رہنے والے گندے لباس میں ملبوس Hippie اور قابل رحم حالت میں دیکھ کر شیکسپئیر نے بھی علم کی اہمت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا :-
Is Curse Ignorance
شیکسپیئر نے مزید کہا کہ Knowledge the wing wherewith we fly to heavenتھامس گرے برطانوی صاحب طرز ادیب و افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ اٹھارویں صدی(1716 سے 1771) میں بڑا نام کمایا۔بحثیت شاعر نہ جانے کس تخیل کی پرواز کے دوران کہہ گئے:-where ignorance is bliss, ’tis folly to be wiseشاعر کے یہ الفاظ، سننے والوں کے ذہن میں تو شائد نہیں اترے مگر ان کی زبان سے چپک کر رہ گئے۔ اٹھتے بیٹھتے ، Ignorance is Blessingکا ورد کرنے لگے۔ جہاں کسی واقعہ یا حادثہ پر انہیں بے خبری کا سامنا ہوا اور معقول وجہ بیان نہ کر سکے تو کہہ دیا Is Blessing Ignoranceمذکورہ بالا دونوں مغربی دانشوروں نے تو اپنے فلسفے کی وضاحت کی یا نہیں، (.راقم خود بے خبر ہے) البتہ اس فلسفے کی حقیقت سامنے تب آئی جب ہماری آپا بانوقدسیہ نے سنہری جملہ۔کہا۔” علم ہمیں بے علمی کی طرف لے جاتا ہے” آپا بانو قدسیہ اس کی وضاحت یوں کرتی ہیں کہ کوئی بھی علم مکمل ہونے پر آدمی اگلے اور نئے اس علم کی تلاش میں نکلتا ہے جسے وہ نہیں جانتا، Exploring The Unexplored
اس اعتبار سے بے خبری نقصان سے نکل کر فائدے کی جانب چلنے کا سفرہے۔ مگر مثبت سوچ رکھنے والوں کے لیے۔ میرا پیغام۔۔یہ ہے کہ خود کو پہچانو۔۔۔یہ علم ہے۔ مزید علم کا سفر سکون باشی کا سفر ہے اور کامیابی تسکین کا مخزن۔ جس طرح تہی دامنی، عسرت اور بے بسی بندے کو دشواریوں سے نکل کر روزگار کمانے اور سیرشکمی کا سبب بنتی ہے، باکل ویسے ہی آدمی کو جب اپنے بے خبری کی وجہ سے کسی اجتماع میں جس سبکی اور بے توقیری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ حصول علم و ہنر کو پہلی ترجیح بنا کر کامیابی کا سفر شروع کرتا ہے۔ اس اعتبار سے ‘ بے علمی جو ایک علت تھی اس کے لیے بہت بڑی نعمت بن جاتی ہے”ایسا کامیاب شخص کہہ سکتا ہے کہ۔ Is Blessing Ignorance
بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انسانی معاشرہ ہمہ جہت جہالت کی غلاظتوں میں لتھڑا ہوا تھا۔ بالخصوص دنیا حجاز تو دین و اخلاق سے کوسوں دور ہو چکی تھی۔ عورتوں مردوں کی تذلیل و رسوائی پستیوں کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔۔ خوش حال حجازی پیسے سے غلام خریدتے ان پر ظلم و تشدد کرتے، لونڈیوں سے انتہائی غیر انسانی سلوک کرتے۔ فحاشی اور عریانی پھیلاتے۔ یہاں تک کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف بھی بے لباس ہو کر کرتے تھے۔اللہ الرحمن کو اپنی اشرف المخلوقات کی اس رسوائی پر رحم آیا تو اللہ کریم نے انہی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء و مرسلین مبعوث فرمایا، جو انہیں اللہ تعلیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا،انہیں حکمت کی باتیں سمجھاتا اور علم و دانش سکھاتا۔
یہ تھا اس جہالت Ignorance کا عالم، جو ان پر Blessing بن کر آیا، انہیں رسول اللہ نصیب ہوا اور اللہ کے نور سے مستفید ہوئے اپنے سینوں کو منور کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے لوگ اللّٰہ کی رحمت و کرم پر شکر اللہ ادا کرنے والے بن گئے ورنہ Is Curse Ignorance ہی رہتی۔
جن لوگوں پر Is Curse Ignorance ہی رہی ان کا حشر بھی ہمیں فرمان الٰہیہ کی شکل میں بتایا گیا ہے ‘ ۔سورت الاعراف آیت نمبر 179 “ہم نے بہت سارے جن و انس ایسے پیدا کئے ہیں جن سے صرف جہنم بھریں گے۔ وہ ایسے ہیں کہ ان کے دل کان اور آنکھیں تو ہیں لیکن وہ نہ سوچتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ ہی سنتے ہیں۔ در اصل یہ لوگ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔۔یہی غافل لوگ ہیں۔ ” ثابت یہ ہوا کہ کسی طرح کی بھی لا علمی گمراہی یا بے خبری اپنی ہئیت میں نقصان دہ نہیں ہوا کرتی ۔ اس کیفیت سے غور و فکر اور تدبر سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اگر اس پر آدمی لا تعلق ہو کر بیٹھ جائے تو اس سے نتائج یقینا اچھے نہیں نکلتے
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں