
ڈاکٹر عبدالرئوف
دجال: احادیث کی نظر میں
پچھلی قسط میںہم نے دجال کے خروج کے علاقوں کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بیان کیا تھا۔ اور بتایا تھا کہ حدیث کی رو سے وہ علاقے چار ہیں
1۔۔۔شام اور عراق 2 ۔۔۔ خوزو کرمان 3۔۔۔خراسان 4۔۔۔ اصفہان کا مقام یہودیہ
ہم یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ حدیث مبارکہ میں خروج دجال کی مخصوص جگہ کا واضح تعین کیوں نہیں۔
اب ہم مختصراً ان علاقوں کا جائزہ اور جغرافیہ اپ کے سامنے پیش کر کے مزید ذخیرہ حدیث کی طرف بڑھیں گے اور اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان علاقوں کا ظہور دجال کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
شام *
موجود ملک شام مشرق وسطٰی کا تقریبا ایک لاکھ پچاسی ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا دو کروڑ نفوس پر مشتمل اسلامی ملک ہے۔ معنی کی تحقیق سے قطع نظر شام کا لفظ تاریخ میں ایک بڑے علاقے کیلئے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی واقع ہے۔
اسلامی تاریخ میں شام غیر معمولی اہمیت کا حامل ملک رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب سلام اللہ علیہم اور ان کی اولاد بنی اسرائیل کا صدیوں سے اصل مسکن شام ہی رہا۔ شام میں مشہور دو مقامات، فلسطین میں بیت المقدس اور موجودہ شام کا دارالحکومت دمشق بہت اہم ہیں۔
قرآن مجید نے شام کو ارض مقدس اور ارض مبارکہ کا نام دیا ہے۔ قوم ابراہیم، قوم لوط، عاد و ثمود کی اقوام کے آثار شام ہی میں ہیں۔اور احادیث میں متعدد روایات میں شام کا ذکر ہے جس میں بالخصوص فتن،اور قرب قیامت کی علامات کے ضمن میں شام کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ احادیث مبارکہ میں شام سے مراد وہ موجودہ شام نہیں جس پر بشار الاسد کی حکومت قائم ہے بلکہ جیسے میں اوپر ذکر چکا ہوں کہ شام سے مراد ایک مخصوص وسیع و عریض علاقہ ہے جسے عربی کتب میں بلادِ شام The Levant کہا جاتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں جس خطہ ارضی کو ’شام‘ کہا گیا ہے‘ اس کی جغرافیائی حدود اس ملک سے بہت وسیع ہیں جسے معاصر دنیا ’شام‘ Syria کے نام سے جانتی ہے۔ موجودہ شام جو 1918 میں ایک کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے نتیجے میں فرانس کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اور پھر 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہونے کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔
تاریخ اسلامی میں شام The Levant کے نام سے جو علاقہ تھا وہ موجود دور میں فلسطین‘ اسرائیل‘ موجودہ ملک شام‘ اردن‘ لبنان سائپرس اور ترکی کے کچھ حصے پر مشتمل تھا۔
اہل ِعلم اور جغرافیہ دان حضرات نے بھی شام کی حدود کم وبیش ایک ہی جیسی بیان کی ہیں جو لمبائی میں (شمالاً جنوباً) فرات سے عریش مصر اور چوڑائی میں (شرقاً غرباً) جبل طے سے بحیرہ روم تک ہیں۔
شام اور فتنہ دجال کا باہمی تعلق کیا ہے اس بات کو سمجھنے کیلئے درج ذیل امور پر غور کیا جائے۔
1۔۔شام چونکہ اسلام کا مرکز رہا اور فتنہ دجال کا اصل ہدف اسلام ہی ہے۔ فطری طور پر حریفوں کی جنگ ایک ہی میدان میں ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ فتنہ شام سے اٹھے۔
2۔۔فتنہ دجال کے اصل آلہ کار یہودی ہی ہیں اور یہودیوں کا اصل اور قدیمی مسکن شام رہا ہے اور یہودی اسلام کے خطرناک دشمن ہیں جو دجال کا انتظار کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے دجال انہی علاقوں سے تقویت پکڑے گا جہاں یہودی موجود ہیں۔اور یہ شام کا علاقہ ہے۔
3۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شام کی حدود بہت وسیع تھیں شام، عراق اور ایران کے علاقے متعدد تہذیبوں کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ سب اسلامی ممالک تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا ان علاقوں سے دجال کے ظہور کی بات کرنے سے دراصل یہ ظاہر کرنا مقصو د تھا کہ دجال ایک بہت بڑا فتنہ ہے جو اسلامی دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اپنے جھوٹ اور فریب کے جال سے تاراج کریگا۔ گویا احادیث میں شام و عراق اور ایران کے بیان کا مقصود بڑے پیمانے کا فتنہ ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دجال صرف اسی حدود میںہو گا بلکہ اس سے باہر بھی پوری دنیا میں اس کا دجل و فریب چلے گا۔
*عراق:
عراق بھی ایشیا کا چار کروڑ آبادی کا ایک اہم عرب اور مسلمان ملک ہے۔ یہ قدیم میسوپوٹیمیا (مابین النھرین)، قدیم شام کے کچھ صحرائی علاقوں اور مزید کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کے جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال مغرب میں شام، شمال میں ترکی اور مشرق میں ایران ہے۔ عراق دنیا کے قدیم ترین ممالک میں شامل ہے جس میں کئی تہذیبیں آباد اور برباد ہوئیں۔ فلسطین کی طرح اسے بھی انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام، اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ 2003ء میں اس پر امریکا نے قبضہ کر لیا تھا جو تا حال جاری ہے۔ شیخ صاحب اور جانباز صاحب ۔۔۔۔ امریکہ عراق سے نکل چکا ہے اور اب اس کی کٹھ پتلی حکومت عراقی عوام پر مسلط ہے؟
نجف، کوفہ، بصرہ، کربلا، سامرا، موصل اور کرکوک اس کے مشہور شہر ہیں۔ دریائے دجلہ اور فرات اس کے مشہور دریا ہیں۔ ان کے درمیان کی وادی انتہائی زرخیز ہے اور اس میں سات سے نوہزار سال سے بھی پرانے آثار ملتے ہیں۔ اس کے علاؤہ سمیری، اکادی، اسیریا اور بابل کی تہذیبیں اسی علاقے میں پروان چڑھیں اور فنا ہوئیں۔
یہود کا عروج زوال عراق سے وابستہ ہے
شام اور عراق کو مدینہ منورہ سے اگر اکٹھا کر کے بیک نظر دیکھا جائے تو یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ شمال اور شمال مغرب کی طرف بنتا ہے۔ تو اس سے لازمی طور پر عرب کا شمال ہے اور اگر ایران کو بھی دیکھا جائے تو یہ جزیرہ نما عرب کا مشرق ہے گویا دجال کا ظہور عرب کے شمال اور مشرق کے علاقے سے ہو گا
دورِ دجال اور بلاد شام
جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ بلاد شام کی حدود موجودہ شام سے بہت زیادہ تھیں۔ اور بلاد شام تاریخی طور پر اسلامی مرکز اور انبیاء کی سر زمین رہا۔ اس لیے دجال کی بڑی یلغار شام پر ہی ہو گی۔ اور آخری دور میں اسلام و ایمان پر کاربند بھی شام ہی کے لوگ ہوں گے۔
ذیل میں چند روایات پیش کی جاتی ہیں جن سے فتنوں کے دور میں شام کی اہمیت پر مزید روشنی ڈلتی ہے۔
حضرت معاویہ بن قرۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد قرۃ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:ترجمہ:’’جب اہل شام کی حالت (ایمانی) بگڑ جائے گی تو پھر اس اُمت میں کوئی بھلائی کی رمق باقی نہیں رہے گی۔ تو میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے گا کہ جسے قیامت تک اللہ تعالی کی تائید و نصرت حاصل رہے گی۔ جو انہیں ذلیل کرنا چاہے گا وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔‘‘(سنن الترمذی ابواب الفتن۔۔ما جاء فی الشام)
اس سے معلوم ہوا فتنہ کے عروج کے وقت دجال کا مقابلہ شام ہی کے لوگ کریں گے۔ اور انہیں اللہ کی خاص تائید حاصل ہو گی۔
حضرت ابودردراء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’اس دوران جبکہ میں سویا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ کتاب کا عمود میرے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا‘ پس مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اب یہ جانے والا ہے تو میری نگاہ نے اس کا پیچھا کیا اور وہ شام تک پہنچ گئی۔ خبردار! فتنوں کے وقت ایمان شام کی سرزمین میں ہو گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ترجمہ:’’ہجرت(مدینہ) کے بعد ایک اور ہجرت ہو گی اور زمین پر موجود بہترین لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کی جگہ (یعنی شام)کی طرف ہجرت کریں گے اور بقیہ زمین پر صرف شریر لوگ باقی رہ جائیں گے۔‘‘(سنن الترمذی مناقب الشام والیمن)
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔ سلسلہ الصحیحہ(414-8/114)
بعض روایات میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کے بارے میں یہی بشارت منقول ہے کہ دمشق کی مشرقی جانب موجود سفید منارے پر دو فرشتوں کے پَروں پرہاتھ رکھے ہوئے ان کا نزول ہو گا. (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج دجال)
ایک اور روایت میں دورِ فتن میں سر زمین شام کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔حضرت سلمہ بن نفیل کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے کہا:ترجمہ:اے اللہ کے رسولﷺ!لوگوں نے گھوڑوں کو حقیر سمجھ لیا ہے اور ہتھیار رکھ دیے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی جہاد نہیں ہے‘جنگ ختم ہو چکی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اورکہا: یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جنگ تواب شروع ہوئی ہے۔ اور میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ اقوام کے دلوں کو ان کے تابع کر دے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے رزق دے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اور اللہ کا وعدہ آ جائے۔ گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے دن کیلئے خیر باندھ دی گئی ہے۔ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ مجھے اٹھا لیا جائے گا اور تم مختلف فرقوں کی صورت میں میری اتباع کرو گے۔ اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے۔ ان حالات میں شام اہل ایمان کا گھرہو گا۔‘‘(سنن نسائی کتاب الخیل)
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں