شیخ تجمل اسلام

شہباز بڈگامی

جناب شیخ تجمل الاسلام کو ہم سے بچھڑے پورے دو برس ہوچکے ہیں ۔یہ دو برس پلک جھپک میں گزرے کہ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہے۔ یہ جوالائی 2021 کے آخری ایام تھے جب شیخ صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ٹیسٹ کرانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں حالانکہ وہ ویکسنیٹڈ تھے۔ لیکن اسقدر گمان نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کیلئے ایک ایسے مقام پر چلے جائیں گے جہاں سے واپسی کے تمام دروازے تاصبح قیامت بند ہیں۔

05 ستمبر بروز اتوار بعداز نماز مغرب وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ میں نے ان دو برسوں میں متعدد بار ان کے ساتھ گزرے مہ وسال کو قلم بند کرناچاہا لیکن نہ جانے میرے قلب و ذہن پر ایک عجیب بوجھ سا بوجھ محسوس ہوتا رہا جبکہ قلم بھی صفحہ قرطاس پر کچھ نہ لانے پر آمادہ کرتا رہا ۔میں نے شیخ صاحب کی دونوں برسیوں پر بھی شیخ صاحب کے ساتھ گزرے حالات و واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی مگر میں کچھ نہ لکھ سکا ،حالانکہ میں ان کے بہت قریب رہا ہوں ،شیخ صاحب سے ان گنت یادیں وابستہ ہیں۔میں نے زندگی کی نفاست ، سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اتار چڑھاو،نشیب و فراز اور نہ جانے کیا کیا پہلو ان سے نہیں سیکھے۔مگر پھر بھی الفاط کی تنگ دامنی کے ہاتھوں بے دست وپا ہوتا رہا یہاں تک کہ ماہنامہ کشمیر الیوم کے مدیر اعلی شیخ محمد امین نے ماہ ستمبر 2023 کے شمارے میں جناب شیخ تجمل الاسلامؒ کا ایک آرٹیکل جو کہ ماہنامہ ترجمان القرآن کیلئے شیخ صاحب مرحوم نے تحریر کیا تھا کو اپنے رسالے میں شائع کیا اور ساتھ ہی ایک مختصر نوٹ لکھا کہ اکتوبر کشمیر الیوم کے شمارے میں شیخ صاحب مرحوم کی زندگی سے متعلق مضامین شامل ہوں گے۔میں اپنی بھول بھلیوں میںگھم تھا کہ 05 ستمبر جس دن شیخ صاحب کی دوسری برسی تھی کو جناب شیخ محمد امین نے اپنے دفتر بلایا تھا اور باتوں باتوں میں مجھے تاکید فرمائی کہ میں مرحوم شیخ صاحب کی زندگی سے متعلق طبع آزمائی کروں ۔میں نے اگر چہ ہاں کردی تھی لیکن 24ستمبر تک میں شش و پنج میں مبتلا رہا کہ آج تو نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں ۔گوکہ شیخ امین صاحب اس عرصے کے دوراں دو تین بار یاد دہانی بھی کراچکے تھے ۔پھر بھی میں گومگو کی کفیت سے دوچار رہا۔ بالاخر مجھے کشاں کشاں اپنے جذبات کو زبان دینا ہی پڑی اور یہ سطور صفحہ قرطاس کی زینت بنیں ۔

جناب شیخ تجمل الاسلام کوئی عام انسان نہیں تھے بلکہ ان پر اللہ تعالی کی طرف سے خاص عنایات تھیں۔وہ بلا کے ذہین تھے اور اسی ذہانت نے انہیں ایک انقلابی شخص کی روپ میں ڈھالا تھا۔ وہ دیانت و امانت کا عملی نمونہ تھے اور انہیں اپنے پروفیشن کے ساتھ جنون کی حد تک عشق تھا۔ شیخ صاحب کی زندگی پر زمانہ طالب عملی سے ہی انقلابی اثرات نمایاں ہوچکے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمیعت طلبہ کے ساتھ وابستہ ہوئے اور پھر اس طلبہ تنظیم کے ناظم اعلی بنے۔شیخ صاحب کہتے تھے کہ ان پر امام العصر اور عظیم مفکر سید ابوالاعلی مودودی کا لٹریچر پڑھنے کا جنون طاری تھا اور یہی جنون تھا کہ شیخ صاحب راتوں کو سید مودودیؒ کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ شیخ صاحب جہاں سید مودودی ؒکے سحر میں مبتلا تھے وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے رجل عظیم جناب مولانا سعدالدین تارہ بلی سے بھی کچھ کم عقیدت نہیں تھی بلکہ وہ انہیں اپنا مرشد کہتے تھے جس کا اظہار ایک یا دو بار نہیں بلکہ بار بار مجھ ناچیز کے سامنے کرچکے تھے۔ 2010 کے بعد شیخ صاحب کے ساتھ ایک خاص تعلق قائم ہوا جبکہ سن 2000 میں بطور کشمیر میڈیا سروس KMS کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی باضابط طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جناب عبدالعزیز ڈیگو نے مجھے شیخ صاحب سے متعارف کرایا جس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی عزت و تکریم اور محبت میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا وہیں ان کی لازوال شفقت میسر رہی۔شیخ صاحب بذات خود ایک ادارہ تھے اور انہوں نے مختصر عرصے میں کشمیر میڈیا سروس کی پوری دنیا میں ایک شناخت کروائی۔انہیں مذکورہ ادارہ بے حد عزیز تھا جس کی آبیاری آخری سانس تک کی اور واقفاں حال کا کہنا ہے کہ آخری لمحات میں بھی انہیں یہی فکر دامن گیر تھیں۔ شیخ صاحب جس انقلاب کو لیکر اٹھے پھر اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کسی مخمصے اور تذبذب کے شکار نہیں بلکہ یکسو تھے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ اور ناجائز بھارتی قبضے کے خاتمے کیلئے ایک ریاست گیر تحریک کا ہونا ناگزیر ہے۔ وہ جب بولتے تھے تو ان کے منہ سے جیسے پھول جڑھتے تھے ۔انہیں اللہ تعالی نے ایک خاص ملکہ عطا کیا تھا ۔انہیں مہذب ‘ سیاست ‘معاشرت گویا کہ وقت کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔وہ اس قدر نبض شناس تھے کہ وہ پہلی ہی نظر میں انسان کے رگ و پے سے واقف ہوتے تھے۔ انہوں نے جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھایا تو کمال لکھا ۔وہ زیادہ تر مسئلہ کشمیر پر تجزیہ لکھتے تھے۔میری آنکھوں نے کئی بار مقتدر حلقوں کو ان کے سامنے بڑی عاجزی سے بیٹھے دیکھا بعدازں پتہ چلتا تھا کہ انہیں فلاں موضوع پر تجزیہ درکار تھا جو انہیں جناب شیخ صاحب کے در پر آنا پڑتا تھا۔شیخ صاحب انگریزی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔وہ ایک منبع تھے جہاں الفاظ رواں ہوجایا کرتے تھے۔شیخ صاحب ایک فلسفی تھے وہ گھنٹوں بولتے رہتے تھے لیکن نہ الفاظ ختم ہوتے تھے اور نہ ہی وہ اکتاہٹ محسوس کرتے تھے۔وہ ایک سمندر تھے جو کسی دریا میں گرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے دریا سمندر میں گرتے ہیں۔ان کے دفتر پہنچتے ہی لوگوں کی قطار لگی رہتی تھیں جو شام تک جاری رہتی لیکن نہ وہ کسی تھکان کے شکار ہوتے اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنے پیشہ وارانہ منصب کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا بلکہ ہر وقت تازہ دم نظر آتے تھے۔وہ بڑے ہی وضع دار انسان تھے ۔جو اشخاص شیخ صاحب کی زندگی سے متعلق منفی رویوں کا اظہار کرتے تھے انہیں بھی گرمجوشی سے ملتے اور پورا پورا وقت دیتے تھے۔میرے سینے میں بہت سارے راز امانت ہیں جن سے جناب شیخ صاحب نے مجھے ذاتی طور پر روشناس کرایا ۔ کچھ ناعاقبت اندیش زندگی کے آخری ایام میں سید علی گیلانی ؒسے متعلق انہیں غلط فہمیوں کا شکار کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کانوں کے کچے ثابت نہیں ہوئے۔2021 کے اوائل میں سید صلاح الدین احمد کا ایک ویڈیو بیاں منظر عام پر آیا جس میں جناب سید ؒنے کہا تھا کہ قاتل اور مقتول میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔شیخ صاحب کو برادر شیخ محمد امین نے مذکورہ ویڈیو بیان سینڈ کیا تھا تو شیخ صاحب نے راقم کو بلاکر ہدایت کی تھی کہ شیخ امین صاحب سے کہیں کہ پیر صاحب کے ویڈیو بیان کو پھیلائیںاور ساتھ ہی مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ صلاح الدین صاحب بڑے جراء ت کے مالک ہیں اور ایسا بیان ایک باجراء ت شخص ہی دے سکتا ہے۔

شیخ صاحب کبھی یک طرفہ فیصلہ کرنے یا سننے کے قائل نہیں تھے بلکہ ہمیشہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر ہی فیصلہ کرتے تھے ۔انہوں نے کبھی ڈسپلن پر سمجھوتہ نہیں کیا یہی ان کی کامیاب زندگی کا اصل راز تھا جس پر وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ شیخ صاحب نے راقم سے اپنی زندگی کا ایک واقعہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ LLB کی تعلیم مکمل کرچکے تو دوسری صبح بطور وکیل عدالت جانا تھا۔شیخ صاحب کالا کوٹ پہن کر عدالت کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان کے والد محترم صدر دروازے پر کھڑے بیٹے کا انتظار کررہے تھے ۔جب شیخ صاحب والد محترم کے پاس پہنچے تو انہوں نے شیخ صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا بیٹا اپنے پروفیشن کے ساتھ وفا کرناجب آپ اپنے پیشہ سے وفا کریں گے تو آپ کا پروفیشن آپ کے ساتھ وفا کرے گا۔ بلاشبہ انہوں نے والد محترم کی نصیحت کو حرز جان بنالیا تھا۔شیخ محمد امین کہتے ہیں کہ 1984 میں شیخ صاحب تازہ تازہ جیل سے رہا ہوچکے تھے تو وہ بطور ناظم اعلی اسلامی جمیعت طلبہ شمالی کشمیر کے قبصہ ہندواڑہ تشریف لائے جہاں طلبا کی بڑی تعداد اجتماع میں شریک شیخ صاحب کا خطاب عام سننے کیلئے بے چین تھی۔خود شیخ امین بھی بطور طالبعلم اس اجتماع کے ڈائس انچارج تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب شیخ صاحب کا خطاب شروع ہوا تو پورے مجمعے پرگویا سکوت طاری تھا ۔شیخ صاحب نے اپنا خطاب ان الفاظ سے شروع کیا کہ یہ جو کالے کالے لوگ یعنی بھارتی فوجیCRPF والے آس پاس کھڑے ہیں نظر آرہے ہیں یہی قابض اور غاصب ہیں اور ان غاصبوں کے ناپاک قدموں سے سرزمین کشمیر کو پاک کرنا ہی ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے۔بقول شیخ محمد امین ہم سوچ رہے تھے کہ شیخ صاحب کے یہ الفاظ ہوا کے دوش پر پہنچنے کی دیر ہوگی کہ اجتماع کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔مگر بھارتی فوجی منحوسوں کی طرح کھڑے رہے اور شیخ صاحب اپنا خطاب عام مکمل کرچکے تھے۔

شیخ امین صاحب شیخ تجمل الاسلام کو سید علی گیلانی اور محمد اشرف خان صحرائی جیسے انقلابی گردانتے ہیں ۔شیخ صاحب جہاں انقلاب ایران سے بڑے متاثر تھے وہیں سید علی گیلانی اور جناب محمد اشرف خان صحرائی بھی انقلاب ایران کو بطور امثال پیش کرتے تھے۔شیخ صاحب ایک انسائیکلو پیڈیا تھے ہی وہ مسئلہ کشمیر پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔پاکستانی وزارت خارجہ ان کے تجزیوں کو بڑی اہمیت دیتی تھیں۔پاکستانی وزارت خارجہ کے منجھے ہوئے ترجمان جناب نفیس زکریا جنہوں نے بعدازں برطانیہ میں بطور سفیر خدمات انجام دیں شیخ صاحب کے پاس دفتر آکرباضابطہ بریفنگ لینے آیا کرتے تھے۔شیخ صاحب نے 05اگست 2019 جب مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے اس سے مرکز کے زیر انتطام دو حصوں میں تقسیم کیا ،پر ایک خصوصی اور طویل تجزیہ لکھا جس میں مودی اور RSS کی تاریخ بھی بیان کی گئی تھی۔اس تجزیہ کو باضابطہ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں پالیسی سازی کا حصہ بنایا گیااور جناب عمران خان مودی اور RSS کی تاریخ کے بارے میں جب متواتر بیان کررہا تھا تو وہ شیخ صاحب کا ہی لکھا ہوا تجزیہ تھا۔

نہ صرف کنٹرول لائن کی دونوں جانب پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ان کے بے شمار چاہنے والے آج بھی موجود ہیں جو ان کے ساتھ گزرے اوقات کو یاد کرتے ہیں۔شیخ صاحب کی زندگی کا ہر پہلو ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ہر ورق ایک دوسرے کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے۔ایک آرٹیکل میں ان کی زندگی کا احاطہ تو دور کی بات تعارف بھی مشکل ہے۔ جو لوگ شیخ صاحب پر مختلف الزامات لگاتے رہے وہ اللہ تعالی کے ہاں جوابدہی کیلئے خود کو تیار رکھیں کیونکہ شیخ صاحب نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کو جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔وہ اپنا معاملہ اس ذات برحق پر چھوڑ چکے ہیں جہاں گز بھر زبانیں کسی کام نہیں آئیں گی۔شیخ صاحب کے ایک قریبی ساتھی جناب سید کفایت حسین رضوی کے بقول یہ شیخ صاحب کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم ان کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں ہونے دے رہے ہیں اور ادارہ جیسے تیسے چل رہا ہے۔

ایسی نابغہ روز گار شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں بلکہ صدیا ں بیت جاتی ہیں تب جاکر شیخ تجمل الاسلام جیسے مفکر اور دانشور پیدا ہوتے ہیں جو خود نہیں بلکہ زمانہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقاں پاک طینت را

٭٭٭

محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔