
محمد احسان مہر




حماس اسرائیل جھڑپوں کے دوران جہاں مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر ذور دینے کی ضرورت تھی تاکہ دو ریاستی کا حل ممکن بنایا جا سکے،امریکہ ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گیا ،امریکہ کا اسطرح کھلے عام ظالم صہیونی ریاست کاساتھ دینامشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کا طبل بجانے کے مترادف ہے ،بحرحال حماس نے عالمی برادری اور اسلامی دنیا کی آزاد ریاستوں کے غلام حکمرانوں کوبڑا واضح اور دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ (قبلہ اول) فلسطین کی مکمل آزادی تک اسرئیل سے تعلق کی خواہش جہاد سے منہ موڑنے والے سینوں میں ہی مچل سکتی ہے جنوبی ایشیاء میںکشمیر اور مشرق وسطیٰ میں فلسطین کا مسئلہ خطرناک انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے،یہ دونوں تنازعات دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سطح پر اْمت مسلمہ کو کنڑول کرنے کے لیے برطانیہ کے گھنائونے کردار کی وجہ سے آج بھی موجود ہیں،اور اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی 1948 سے اس کے ایجنڈے پر بھی موجود ہیں،اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بنیادی مقاصد کا بھرم رکھنے کے لیے اگر سنجیدہ کردار ادا نہ کیا تو دنیا تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں بھی آسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے جنرل اسمبلی کے78ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسی جانب اشارہ کیا تھا ،عالمی مالیاتی اورگورننس کے نظام کے متعلق انہوں نے کہا کہ عالمی تنازعات کے باعث دنیا بہت بڑے خطرے کی طرف بڑھ رہی ہے،عالمی اداروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہاکہ عالمی ادارے تنازعات حل کرنے کے بجائے خود مسئلے کا حصہ بن جاتے ہیں،اس لیے اب دنیا کو باتوں کی نہیں ایکشن کی ضرورت ہے۔ انتونیو گوتریس جس طرح عالمی منظر نامے کی ہولناکیوں کی منظر کشی کر رہے تھے ، کاش اسی احساس کے ساتھ وہ عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جگانے کی کوشش کریں ،تاکہ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر میں مظلوم انسانیت کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے ،یقینی طور پر ظالم کا ہاتھ روکنے میں ہی انسانی بقاء کا راز مضمر ہے،یہ بات طے ہے کہ مسائل جنگ سے حل نہیں ہوتے، لیکن اخلاقیات سے عاری قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے ،اور اس کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت بحرحال موجود رہتی ہے،۔
٭٭٭